• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ملک کےاسٹیٹ اورکمرشل بنکوں کے پاس کل ملاکر 8ارب ڈالر کازرمبادلہ محفوظ ہےجبکہ حکومت پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کی اقساط اور ان پر لاگو سودادا کرنے کیلئےرواں سال کے دوران کم از کم 25ارب ڈالر درکار ہیں،جس کا آغاز جولائی سے ہورہا ہے۔ دیوالیہ پن کی حد تک سر پر منڈلاتی ہوئی تشویشناک صورتحال میں جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 6ارب ڈالر کا نیا قرضہ لینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ، آئی ایم ایف کی جانب سے حوصلہ افزا بیان سامنے آیا ہے کہ اگر نئی حکومت نے اپنے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے مدد کی درخواست کی تو وہ اس کیلئے تیار ہے۔اسی دوران پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگائے جانے اور آئی ایم ایف کو اس معاملے میں مداخلت کی دعوت دینے سے متعلق خط لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اقتصادی تجزیہ کاروں نے اسے پاکستان کیلئے خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہےاوروہ اس تناظر میں ملک کیلئےمشکلات پیدا ہوتی دیکھ رہے ہیں۔پی ٹی آئی کے رہنما علی ظفر نے جمعرات کے روز اسلام آباد میں میڈیا کے سامنے اس بات کا اظہار کیاکہ عمران خان الیکشن میں (مبینہ) دھاندلی پر آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے جس میں مطالبہ کیا جائے گا کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت الیکشن آڈٹ سے مشروط کی جائےجبکہ آنے والے پندرہ روز میں نئی حکومت کے پاس 36ماہ کے بیل آئوٹ پیکیج پر دستخط کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں،لہٰذ اآئی ایم ایف کو باضابطہ درخواست میں جائزہ ٹیم اسلام آباد بھیجنے کی درخواست کی جائے گی۔مقررہ ہدف کے مطابق یہ عمل 15مارچ تک مکمل ہونا چاہئےتاکہ 12اپریل 2024تک 1.1ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کیلئے متعلقہ بورڈ سے منظوری لی جاسکے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے اقدام سے جس میں پاکستان کی مالی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا ،اس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔آئی ایم ایف کو خط بھیجنے سے متعلق پی ٹی آئی رہنمائوں کے بیان پر دوسری سیاسی جماعتوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے ۔مسلم لیگ ن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا مقصد ملک میں بیرونی مداخلت کو دعوت دینے کی کوشش ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی خود مختاری پر حملہ ہے جس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔پیپلز پارٹی کے ترجمان کے مطابق آئی ایم ایف کو پی ٹی آئی کی طرف سے خط لکھنے کا مقصد ملک کو معاشی ابتری سے دوچار کرنا ہے۔نیو یارک سے آمدہ ایک رپورٹ کے مطابق متعلقہ حلقے پی ٹی آئی کے اس بیان کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرنے کی کوشش سے نہ صرف آگاہ بلکہ حیران بھی ہیں ۔رپورٹ میں آئی ایم ایف کی جانب سے جلد ہی باضابطہ موقف سامنے آنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔جنوبی ایشیائی امور سے متعلق ایک بین الاقوامی ادارے کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ مجوزہ خط کی کوئی اہمیت نہیں اور اسے آئی ایم ایف کی جانب سے نظرانداز کیا جائے گا یہ ایک خوفناک سوچ ہے۔زبوں حال معیشت اورلاتعداد چیلنجوں کے پیش نظر یہ ملک کیلئے بڑا نازک وقت ہے ،برسراقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں نے الیکشن مہم میں جو وعدے کئے ،ووٹر انھیں پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ،دونوں جماعتیں اس ایجنڈے پر متفق ہیں کہ ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنا ہے۔وہ دیگر جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنے دعوت دے چکی ہیں جس میں پی ٹی آئی کو بھی شریک ہونا چاہئے۔اس وقت قومی مفادات کا دیگر ترجیحات پر مقدم ہونا ضروری ہے۔واضح ہوکہ تمام خطرات سے نمٹنے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام شرط ہے اس کے بغیر جو بھی قدم اٹھایا جائے گا،کار لا حاصل ہی ہوگا۔

تازہ ترین