• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے انجام کے بارے میں اکثر لوگوں نے جو پیش گوئیاں کی تھیں، وہ درست ثابت ہوئی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بقول وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور عسکری قیادت نے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ اب طالبان کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھانا زیادتی ہو گی۔ چوہدری نثار علی خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج سے اپنے دفاع میں کارروائی کرنے کا حق واپس نہیں لے سکتے۔ اسلام آباد میں چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس سے پہلے ہی خبریں آ رہی تھیں کہ شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں وزیر اعظم کی اجازت سے شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور طالبان کے مذاکرات ختم ہو چکے ہیں اور طالبان کے خلاف آپریشن شروع ہو چکا ہے، اس کا مطلب یہ بھی لیا جانا چاہئے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور حکومت نے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا جو ٹاسک اپنے ذمہ لیا تھا، اس میں وہ ناکام ہو چکی ہیں۔ حکومت کے حامی بعض حلقے یہ کہتے ہیں کہ یہ حکومت کی ناکامی نہیں ہے کیونکہ حکومت نے ’’اتمام حجت‘‘ کے لئے مذاکرات کا آپشن اختیار کیا تھا لیکن ان حلقوں کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ یہ کام صرف اتمام حجت نہیں تھا بلکہ اس کام کی آڑ میں غیر محسوس طریقے سے بہت بڑے کام ہو گئے ہیں، جن کی پاکستان کی داخلی سلامتی پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے مثلاً ان مذاکرات کے ذریعہ طالبان کی پاکستانی ریاست کے مقابلے میں ایک فریق کی حیثیت تسلیم ہو چکی ہے قبل ازیں طالبان کی یہ حیثیت نہیں تھی۔ اس سے پہلے طالبان کے ساتھ جو بھی مذاکرات ہوئے وہ پولیٹیکل ایجنٹ یا زیادہ سے زیادہ کسی ایک ایجنسی کے انتظامی افسر کی سطح پر ہوئے اور ان کے ساتھ معاہدے بھی اسی سطح پر ہوئے، پہلی مرتبہ ریاست پاکستان کی سطح پر ان سے مذاکرات کئے گئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ طالبان اور حکومت کی کمیٹیوں کے مابین ہونے والے پہلے باقاعدہ مذاکرات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، اس میں یہ بات کہی گئی کہ مذاکرات کا اطلاق شورش زدہ علاقوں تک ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شورش زدہ علاقوں پر ریاستی عمل داری کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا۔ اس طرح کی بات مذاکرات سے پہلے نہیں تھی۔ طالبان نے پاکستان کے آئین کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا تو بھی مذاکراتی کمیٹیوں کے ایک دو اجلاس ہوئے۔ اس طرح آئین کو بھی سوالیہ نشان بنا دیا گیا ۔ ان تین باتوں کو اگر مدنظر رکھتے ہوئے مذاکراتی عمل کا تجزیہ کیا جائے تو اسے حکومت کی حکمت عملی کی ناکامی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مخالف حلقے دبے دبے لفظوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے طالبان کے احسانات کا بدلہ چکا دیا ہے کیونکہ ان حلقوں کے بقول مئی 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے طالبان نے جو ماحول پیدا کردیا تھا اس میں مسلم لیگ (ن) کے لئے سازگار فضا قائم ہوگئی اور اسی ماحول میں انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی۔ ان حلقوں کی ایسی باتوں سے قطع نظر عام لوگوں میں بھی یہی تاثر تھا کہ طالبان مسلم لیگ (ن) کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور لوگوں کو توقع تھی کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے۔ مذاکرات کے لئے حکومت اور طالبان کی جو کمیٹیاں بنی تھیں، ان سے بھی یہی لگ رہا تھا کہ یہ گھر کا معاملہ ہے اور جلد طے ہو جائے گا لیکن گھر کے معاملات کیسے طے ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں باہر کے لوگوں کو غلط اندازے نہیں لگانے چاہئیں تھے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے یہ تو بتایا کہ وزیراعظم اور عسکری قیادت نے مشاورت سے فیصلہ کیا کہ اب مذاکرات کو اب آگے بڑھانا زیادتی ہو گی لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ مشورہ کس کا مانا گیا ۔ یہ شاید اتفاق کی بات ہے کہ مذاکرات ختم کرنے کے اعلان سے دو دن پہلے امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل لائڈ جے آسٹن پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے ، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ امریکی جنرل کی آمد پر پاکستان کی ریاست نے طالبان سے مذاکرات کا عمل ختم کرنے کا اعلان کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات ختم ہو گئے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اور اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ پاکستان کا موجودہ بحران اس قدر پیچیدہ ہے کہ اس ملک کا کوئی بھی حلقہ کسی بھی معاملے پر یقین کے ساتھ اور حتمی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ مذاکرات کے پیچھے کیا سیاست تھی اور مذاکرات کی مخالفت کے پس پردہ کیا سیاست ہے کیونکہ پاکستان کی سرزمین پر کئی ملکی اور بین الاقوامی مخصوص مفادات کا انتہائی پیچیدہ ٹکراؤ اور گٹھ جوڑ ہے۔ مخصوص مفادات کے اس کھیل کو صرف ان مفادات کے حامل گروہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ باقی لوگوں کے لئے گمراہی ہے یا قیاس آرائیاں ہیں تاہم کچھ چیزیں سطح پر واضح نظر آ رہی ہیں مثلاً جب حکومت نے مذاکرات کا آغاز کیا تو عسکری حلقوں کی ظاہری حمایت کے باوجود ان کی آمادگی و رضا مندی نظر نہیں آ رہی تھی۔ اب جبکہ آپریشن شروع ہو چکا ہے تو حکومتی حلقے اب بھی مذاکرات کی بات کر رہے ہیں ۔ چوہدری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں اگرچہ یہ اعلان کیا کہ مذاکرات کو آگے بڑھانا اب زیادتی ہو گی لیکن انہوں نے کئی مرتبہ اس بات پر زور دیا کہ ہر مسئلے کا حل مذاکرات ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کہیں خدانخواستہ کارگل والی صورت حال پیدا نہ ہو جائے ، جو 1998ء میں تھی، جب سابق سفارتکار مرحوم نیاز اے نائیک کے بقول کارگل میں ہونے والی جنگ کے فیصلوں سے اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف بے خبر تھے اور بھارت کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے حوالے سے حکومتی پیشرفت کے بارے میں عسکری قیادت بے خبر تھی، اللہ کرے کہ ایسی صورت حال نہ پیدا ہو۔ طالبان کے ساتھ رابطوں یا مذاکرات اور ان کے خلاف آپریشن کے حوالے سے فوجی اور سیاسی قیادت ایک دوسرے کو ضرور آگاہ کرتے رہیں کیونکہ اب تک جو بھی مذاکرات ہوئے ان میں طالبان کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔
تازہ ترین