• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

میری ساس، فضل نشاں نے ایک بھرپورزندگی گزارکر 103برس کی عُمر میں داعئ اجل کو لبّیک کہا۔ انھوں نے دو شادیاں کیں، پہلی سے دو بیٹیاں اور دو بیٹے، جب کہ دوسری سے ایک بیٹا اور بیٹی پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے زندگی بھر محنت کی اور کبھی ہار نہیں مانی، خصوصاً بچّوں کی تعلیم و تربیت پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ دوسرے شوہر کے انتقال کے بعد اکیلے ہی ساری ذمّے داریاں اُٹھائیں۔ 2004ء میں انہیں اپنے چھوٹے بیٹے کےساتھ حج کی سعادت حاصل ہوئی، تو اُس وقت اُن کی عُمر 84برس تھی، پیرانہ سالی کے باوجود حج کے تمام فرائض بخوبی انجام دیئے۔انہوں نے اپنی زندگی میں پانچ نسلوں کو پروان چڑھتے دیکھا۔ 

قیامِ پاکستان کے وقت وہ 27 سال کی تھیں۔ اکثر بتایا کرتی تھیں کہ ’’ہمارے گائوں میں ہندو، مسلمان ایک ساتھ رہتے تھے، میری کئی ہندو سہیلیاں بھی تھیں، آپس میں ایک دوسرے کے گھر آناجانا تھا، لیکن وہ اپنے برتنوں کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی تھیں، کہتی تھیں، ناپاک ہوجائیں گے۔ گائوں میں مسلمانوں کو عیدالاضحی پر گائے کی قربانی بھی نہیں کرنے دی جاتی تھی، اس کے لیے گائوں سے باہر ایک جگہ مختص تھی، جہاں مسلمان جاکر قربانی کرتے تھے۔ زیادہ تر دکانیں بھی ہندوؤں کی تھیں، جہاں سے گائوں والے سودا سلف ادھار لیتے، جب فصل پک کر تیار ہوجاتی، تو ہندو اپنا قرض وصول کرتے۔ اقلیت میں ہونے کے باوجود گائوں میں مکمل طور پر اُن کی اجارہ داری تھی، لیکن پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہماری ان متعصب ہندوئوں سے جان چھوٹ گئی۔‘‘

وہ اکابرینِ پاکستان، خصوصاً قائداعظم محمد علی جناح کا ذکرانتہائی عقیدت و احترام سے کرتیں۔ اپنے پوتے، پوتیوں سے بے حد محبّت کرتیں۔ میری بیٹی فاطمۃ الزہرا کا نام ہمیشہ اُن کی زبان پر ہوتا، جب اُس کا سیال کوٹ کے میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس میں داخلہ ہوا، تو بہت خوش ہوئیں، مگر یہ سوچ کر اُداس ہوگئیں کہ اُس کے بغیر کیسے رہیں گی، اُس سے کہتیں کہ ’’مجھے بھی ساتھ لے چلو، تم پڑھنا، مَیں کلاس روم کے باہرتمہارا انتظار کروں گی۔‘‘ دادی، پوتی میں اس قدر محبّت تھی کہ سب کواُن پر رشک آتا۔ 2005ء میں جب بطور ٹیچر میری پوسٹنگ اسلام آباد میں ہوئی، توہمارے ساتھ اسلام آباد شفٹ ہوگئیں۔

ہم دونوں میاں بیوی چوں کہ سرکاری ملازم تھے، تو ہم نے بچّوں کے لیے کوئی آیا رکھنے کا سوچا، تو کہنے لگیں، ’’خبردار! آیا وغیرہ رکھنے کی ضرورت نہیں، مَیں بچّوں کو خود سنبھال لوں گی۔‘‘ اُن دنوں ہم اسلام آباد میں کرائے کے گھر میں مقیم تھے، جسے وہ اچھا نہیں سمجھتی تھیں، ہمیں سمجھاتیں کہ اپنا گھر بنائو، لوگ باتیں کرتے ہیں کہ دونوں کمانے والے ہیں اور کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔ پھراُن کی دُعائوں ہی کے طفیل جب ہم نے اپنا ذاتی گھر اسلام آباد میں بنالیا، تو بہت خوش ہوئیں۔

وہ ہمیشہ سب کے لیے دُعاگو رہتیں، نماز اور قرآن مجید کی تلاوت اُن کا روز کا معمول تھا۔جولائی 2023ء میں جب اُن کا انتقال ہوا، توگھر میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، اُن کا جنازہ اس قدر بڑا تھا۔ اب اُن کے جانے کے بعد دعائوں کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ میری ساس،فضل نشاں کے درجات بلند فرمائے،آمین۔ (شکیلہ ملک نیلور، اسلام آباد)

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار

برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘

٭ جب شہنشاہِ فٹ بال کی ہڈی ٹوٹی (غلام اللہ چوہان، گزدر آباد، کراچی)۔ ٭موت مجھ سے چھے انچ کے فاصلے پر تھی (بشیر احمد بھٹی، بہاول پور)۔ ٭انسانی ذہن کے سربستہ راز(ظہیر انجم تبسّم، جی پی او، خوشاب)۔ ٭ناقابلِ فراموش (سیّد ذوالفقار حیدر، گلستانِ جوہر، کراچی)۔ ٭آڑ کے پار (ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)۔ ٭میری زندگی کے ناقابلِ فراموش مناظر(مصباح طیّب، سرگودھا)۔ ٭دو طوطوں کی آپ بیتی (ڈاکٹر افشاں طاہر، گلشنِ اقبال، کراچی)۔

برائے صفحہ ’’متفرق‘‘

٭برصغیر پاک و ہند کا عظیم شاعر، ساحر لدھیانوی (بابر سلیم خان)۔ ٭Elly Brownلاوارث نہیں تھا (حسیب اعجاز عاشر)۔٭جب سائنس ہم پر فرض ہوا کرتی تھی (عثمان عاشق)۔