• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

یہ تقریباً تیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اُن دنوں وسطی ایشیا سے درآمد شدہ بڑے سائز کی خُوب صُورت مردانہ چھتریاں اسلام آباد میں نئی نئی آئی تھیں۔ چوں کہ یہ ابھی عام نہیں ہوئی تھیں، اس لیے سائز میں بڑی ہونے کی وجہ سے جس کی بھی نظر اُن پر پڑتی، دیکھ کر چونکتا ضرور۔ مجھے بھی اچھی لگی، تو ایک خریدلی۔ مَیں اُن دنوں قائدِاعظم یونی ورسٹی میں ملازمت کرتا تھا اور میری رہائش یونی ورسٹی کالونی کی حدود ہی میں تھی۔ گھر سے میرا ڈیپارٹمنٹ، دس منٹ کی پیدل مسافت پرتھا۔ ایک روز صبح یونی ورسٹی جانے لگا، تو ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی، مَیں نے فوراً چھتری نکالی اور پیدل یونی ورسٹی کی جانب چل پڑا۔ راستے میں جس کی بھی نظر پڑتی، بڑی دل چسپی سے اُسے دیکھتا۔ 

مَیں ہلکی بارش میں خراماں خراماں چلتا ہوا سینٹرل لائبریری کے سامنے سے گزرا، تو وہاں کیاریوں میں ایک مالی اپنے کام میں مصروف تھا، اس کی نظر جوں ہی مجھ پر پڑی، اپنا کام چھوڑ کرمیری طرف آیا اور حیرت و اشتیاق سے پوچھنے لگا ’’صاحب! یہ چھتری کہاں سے لی ہے؟‘‘ میں نے اپنی فطری ظرافت سے جواب دیا کہ ’’یہ مَیں نے اپنا اور اپنی بیوی کا ناپ دے کر آرڈر پر بنوائی ہے۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں، ہمیشہ اکٹھے ہی جاتے ہیں۔‘‘ میری بات سُن کر وہ محبّت بَھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ’’لگتا ہے کہ آپ کو اپنی بیگم سے بہت محبت ہے؟‘‘ مَیں نے مسکرا کر جواب دیا’’ بالکل بہت محبت کرتا ہوں، اوپر بھی جائیں گے، تو اکٹھے ہی جائیں گے، اور اس چھتری کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔‘‘ وہ مسکرادیا اور مجھے درازئ عمر کی دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔ 

اب میرا معمول ہوگیا، جب بھی آتے جاتے اُس سے ملاقات ہوتی، اُس سے ایسی ہی ہلکی پھلکی پرمزاح گفتگو کرتا، جس سے وہ بھی بہت محظوظ ہوتا۔ اس کی عُمرلگ بھگ پچاس پچپن سال تھی۔ کوئی اولاد نہیں تھی۔ دونوں میاں بیوی راول پنڈی کے ایک محلّے میں رہتے تھے۔ ایک دن میں اپنے کام میں مشغول تھا کہ دفتر کے ایک ساتھی نے یہ افسوس ناک اطلاع دی کہ ’’آج صبح یونی ورسٹی میں تعینات اُس مالی کا ڈیوٹی کے دوران انتقال ہوگیا اور اس کی میّت یونی ورسٹی کی ایمبولینس میں اُس کے گھر پہنچا دی گئی ہے۔‘‘ یہ سُن کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ باربار یہ خیال پریشان کررہا تھا کہ دونوں میاں بیوی اکیلے ہی رہتے تھے۔ 

اُس کی بیوی کے لیے یہ سانحہ کسی قیامت سے کم نہیں ہوگا۔ وہ یہ صدمہ کیسے برداشت کرے گی۔ بہرحال، دوگھنٹے بعد انتظامیہ کی طرف سے ایک نوٹس آگیا کہ نماز جنازہ میں جانے والوں کی سہولت کے لیے یونی ورسٹی کی ایک بس، دوپہر تین بجے اس کے گھرروانہ ہوگی۔ لہٰذا میں بھی مقررہ وقت پرمرکزی گیٹ پر پہنچ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد بس روانہ ہوئی تو بس میں موجود ایک شخص نے بتایا کہ ’’جب ہم مالی کی میّت لے کر اُس کے گھر پہنچے، تواس غیرمتوقع خبر سے اُس کی بیوی اپنے حواس کھوبیٹھی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اچانک یہ کیسے ہوگیا؟ اُس کی آنکھوں سے آنسو نکلے نہ ہی آہ وزاری کی۔ 

کچھ دیر اسی طرح گُم صُم رہنے کے بعد صرف اتنا کہا کہ ’’مَیں پلنگ پر چادر ڈالتی ہوں، آپ انہیں اندر لے آئیں۔‘‘ ایمبولینس دیکھ کر محلّے والے بھی جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔اور تھوڑی ہی دیر میںمالی کے انتقال کی الم ناک خبر پورے محلّے میں پھیل گئی۔ خواتین اپنے گھروں سے نکل کرمالی کے گھر پہنچنے لگیں۔ اسی دوران ایک عورت نے پریشانی کے عالم میں اس کے گھر سے نکل کر یہ رُوح فرسا اطلاع دی کہ ’’شوہر کے صدمے سے اُس کی بیوی بھی فوت ہوگئی ہے۔‘‘ اس خبر نے ہم سب کو بہت غم زدہ کردیا۔ ہماری آنکھیں اشک بارہوگئیں۔ 

چار بجے کے قریب ہماری بس بھی اُس کے گھر پہنچ گئی۔ ایک ہی گھر سے اکٹھے دوجنازے اٹھنے کا منظر انتہائی دل دوزتھا۔ عصر کی نماز کے بعد ہم نے دُکھی دل سے نمازِ جنازہ ادا کی۔ اس واقعے کو ایک عرصہ گزرگیا ہے۔ اب خیال آتا ہے کہ مالی کے سامنے ’’اکٹھے اوپر جانے‘‘ کا مَیں نے صرف دعویٰ کیا تھا، حالاں کہ میری اہلیہ کو اس دنیا سے گزرے اٹھارہ سال بیت چکے، میرا دعویٰ زبانی ہی رہا، مگر اُس نیک دل مالی کی بیوی نے تو اٹھارہ منٹ بھی انتظار نہ کیا، وفا کی پیکر شوہر کے ساتھ ہی روانہ ہوگئی۔ (محمد جاوید،اقبال ٹاون، راول پنڈی)