• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرٹ، فلمز کے ذریعے عوام کو غلامانہ ذہنیت سے نجات دلائی جاسکتی ہے

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

ڈاکٹر شرجیل، بلوچستان کے وہ سپوت ہیں، جنہوں نے ڈاکیومینٹریز، اداکاری، مصوّری اور رپورٹنگ میں مُلک و بیرونِ مُلک خُوب شہرت سمیٹی۔ایک عرصے تک برطانوی نشریاتی ادارے سے وابستہ رہے۔بہت سے ڈراموں میں اداکاری اور ہدایت کاری کے ذریعے اپنی دھاک بٹھائی، تو اُن کی پینٹنگز کی نمائشیں وقتاً فوقتاً بھی ہوتی رہتی ہیں۔سماجی بھلائی کے کاموں میں بھی پیش پیش ہیں، اِسی پس منظر میں گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کی تفصیل’’ جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنے خاندان سے متعلق کچھ بتائیے؟

ج: میرے دادا، محمّد یوسف، ٹائون کمیٹی، مچھ میں’’ بابو یوسف‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ نانا، مرزا عبدالحق سرکاری ملازم اور سماجی کارکن تھے، نام وَر دانش ور عبداللہ جان جمالدینی اکثر اُن کا تذکرہ کرتے اور اُنہیں اپنا استاد مانتے تھے۔ میرے والد، انوار الحق بلوچ ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایگزیکٹیو انجینئر تھے۔میری چھوٹی بہن معروف گائناکالوجسٹ ہیں، جب کہ اُس سے چھوٹی عارفہ انور کو بلوچستان کی پہلی خاتون سِول انجینئر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔وہ سرکاری ملازمت سے وابستہ ہیں۔ 

مَیں 1972ء میں کوئٹہ کے نیچاری محلّے میں پیدا ہوا۔ 1978ء میں میرا داخلہ اسلامیہ ہائی اسکول میں ہوا۔والد صاحب کی مختلف علاقوں میں پوسٹنگ کے دوران ہم اُن کے ساتھ رہے۔سرکاری ٹاٹ اسکولز سے تعلیم حاصل کی۔ ٹاٹ اسکولز میں پڑھنے والوں کی مٹّی سے انسیت رہتی ہے، تو مجھے بھی مٹّی سے دوستی کا وہ زمانہ اب تک یاد ہے۔میٹرک تک تعلیم گوادر، اوتھل اور خضدار سے حاصل کی۔ تعمیرِ نو کالج، کوئٹہ سے فرسٹ ڈویژن میں ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا اور پھر ابو اور فیملی کے دیگر ارکان کی خواہش پر بولان میڈیکل کالج میں میرٹ پر داخلہ ہوگیا۔

س: تو کیا آپ اِسے اپنے ساتھ کوئی زیادتی سمجھتے ہیں؟

ج: نہیں، بالکل نہیں۔ بس ڈائی سیکشن کلاس کی بدبُو اور مُردہ انسانوں پر نشتر چلانے کا عمل مجھے اچھا نہیں لگا۔ اس موقعے پر اکثر میری ناک اور آنکھوں سے پانی بہتا رہتا۔ باقی مضامین دل چسپی اور توجّہ سے پڑھتا رہا۔میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے پر فیصلہ کیا کہ سرکاری ملازمت نہیں کرنی، سو، آغا خان اسپتال چلا گیا۔وہاں ڈاکٹر بھٹّہ نے انٹرویو کے دَوران پوچھا کہ’’ کتنی زبانیں بولتے ہیں؟‘‘ مَیں نے جواب دیا’’ اردو، بلوچی، پشتو، براہوی، سندھی اور سرائیکی بول سکتا ہوں۔‘‘ 

اس پر وہ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے۔ پھر سوال کیا’’ اِتنی زبانیں کہاں سے سیکھیں؟‘‘ مَیں نے کہا’’بلوچستان کا ہر باشندہ بیک وقت کم از کم چار سے پانچ زبانیں بولتا ہے۔‘‘ بہرحال، ڈاکٹر بھٹّہ کے اُس وقت بہت سے ریسرچ پراجیکٹس چل رہے تھے، تو اُنہوں نے فوراً میرا انتخاب بطور ریسرچ میڈیکل آفیسر کرلیا۔ مجھے بار بار خیال آتا تھا اور دوست بھی یہی کہا کرتے تھے کہ مجھ میں ڈاکٹروں والے’’ جراثیم‘‘ نہیں ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میرا اِن کاموں میں دل نہیں لگتا تھا۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے عکّاسی: رابرٹ جیمس
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے عکّاسی: رابرٹ جیمس

س: کیا اِسی لیے اداکاری کی طرف چلے گئے؟

ج: نہیں، اداکار تو پہلے ہی بن چُکا تھا۔ جب تھرڈ ایئر میں تھا، تو حسّام قاضی(مرحوم) ہمارے کالج آئے، کھدّر کا لباس، کندھے پر بلوچی شال اور بھاگ ناڑی کے جوتے پہنے دیکھ کر میری شخصیت سے متاثر ہوئے۔ اُنہوں نے پوچھا’’ کیا کبھی اسٹیج وغیرہ پر گئے ہو؟‘‘ مَیں نے’’ ہاں‘‘ میں جواب دیا، تو اُنہوں نے کہا’’ پی ٹی وی، کوئٹہ سے ایک ڈراما بننے جارہا ہے، اُس میں کام کرو گے؟‘‘ مَیں نے فوراً ہامی بھرلی، جس پر اُنہوں نے میرا ٹیلی فون نمبر لیا۔ ابو اُن دنوں خضدار میں تھے، تو ایک روز وہاں حسّام قاضی کا فون آیا،اُنہوں نے مجھے ٹی وی اسٹیشن بُلایا تھا۔

ابو نے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔شاید، اُنھیں بھی مجھ میں چُھپے فن کار کا اندازہ تھا، ویسے بھی اُنہوں نے کبھی ہماری خواہشیں رد نہیں کیں اور نہ ہی کبھی غیر نصابی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنے۔بلکہ تحریک دی کہ’’ بھئی! ٹی وی میں داخل ہونے کے لیے تو لوگوں کو نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔‘‘ایک مرتبہ مَیں نے ایئر گن خریدنے کی فرمائش کی، تو وہ بھی لاکر دے دی، تاہم یہ تاکید کی کہ’’ کبھی حرام پرندوں کا شکار نہ کرنا، کھڑکیوں کے شیشوں، بلب وغیرہ کو نشانہ مت بنانا اور مذاق یا غیر سنجیدگی کی حالت میں اس کا استعمال نہ کرنا۔‘‘

قصّہ مختصر، مَیں ٹی وی اسٹیشن میں پروڈیوسر عطاء اللہ بلوچ کے کمرے میں داخل ہوا، تو وہاں ظفر معراج، حسّام قاضی، آفتاب جبل اور کچھ دیگر فن کار موجود تھے۔ اُس وقت مشہور بلوچی ڈرامے’’شانتل‘‘کے اردو وزژن کے پائلٹ کی تیاری ہو رہی تھی۔ظفر معراج میرے دوست تھے اور ہم خضدار میں ایک ساتھ اسکواش کھیلتے رہے تھے۔ اس موقعے پر میرے بانسری بجانے کا بھی تذکرہ ہوا اور عطاء بلوچ کی فرمائش پر مَیں نے بجائی بھی۔ یوں ڈرامے کا ٹائٹل اور پرومو ریکارڈ ہوا۔تو بس، جب وہ ڈراما نشر ہوا، تو مَیں کالج میں بطور اداکار مشہور ہوگیا۔

س: یہ شہرت میڈیکل کی تعلیم میں رکاوٹ تو نہیں بنی؟

ج: نہیں، باکل نہیں۔ مَیں نے تمام سیمسٹرز فرسٹ ڈویژن میں پاس کیے۔ مَیں فورتھ ایئر میں تھا، جب ڈراما’’ اجازت‘‘ نشر ہوا، اُس میں میرا مرکزی کردار تھا اور اُسی سے مجھے پورے مُلک میں شناخت ملی۔اُن دنوں چچا کے آپریشن کے سلسلے میں راول پنڈی جانا ہوا، تو ریلوے اسٹیشن، ویگن، اسپتال غرض کہ ہر جگہ لوگوں نے مجھے پہچانا۔ ویگن میں کنڈکٹر نے مسافروں کو میری جانب متوجّہ کیا۔ ویسے پہلی شہرت اور اُس بے پناہ محبّت کا لُطف ہی الگ تھا۔

س: کراچی میں فلم بنانا بھی شروع کی؟

ج: جی ہاں۔دراصل ابو ڈاکیومینٹریز کی سی ڈیز لایا کرتے اور ہم کارٹون موویز بھی دیکھتے، تو میرا بھی دل کرتا کہ مَیں بھی ایسی چیزیں بناؤں۔سو، مَیں کراچی میں خالد احمد کے ساتھ وابستہ ہوگیا، اُن سے کیمرا آپریٹ کرنا اور ایڈیٹنگ سیکھی، اسکرپٹ رائٹنگ کی۔ مَیں نے پہلی ڈاکیومینٹری’’ کیہ جاناں مَیں کون‘‘ بنائی، جس میں پورے سندھ کو ایکسپلور کیا۔اِسی دوران مَیں نے شعبۂ طب کو خیرباد کہہ کر ایک پروڈکشن ہائوس’’دستک سوسائٹی فار کمیونی کیشن‘‘کی بنیاد رکھی۔

اِس سلسلے میں ڈاکٹر فوزیہ سعید نے میری کافی مدد کی۔ ہم نے آنرکلنگ پر ڈرامے بنائے، ایک ڈاکیومینٹری بھی بنائی، جس کا ٹائٹل’’ شیم ‘‘رکھا گیا۔ جنوبی پنجاب اور سندھ سے کہانیاں لیں۔ 2007ءتک مَیں یہ کام کرتا رہا اور بطور ڈائریکٹر بھی مختلف پراجیکٹس میں مصروف ہوچکا تھا۔جب اسلم اظہر نے پی ٹی وی اسپیشل پر میرا ایک چالیس منٹ کا ڈراما’’ غیرت مند‘‘ دیکھا، تو مجھے بُلایا اور مجھے مزید کام دینے کے احکامات جاری کیے۔

س: برطانوی نشریاتی ادارے سے کیسے منسلک ہوئے؟

ج: اُنہوں نے2007ء میں شاید میری ڈاکیومینٹری دیکھ کر بطور پروڈیوسر میرا انتخاب کیا، کیوں کہ اُنھیں اِس شعبے سے متعلق سارے کام جاننے والے شخص کی تلاش تھی۔ دوستوں نے بھی اصرار کیا کہ مجھے ان کی آفر قبول کرنی چاہیے کہ یہاں کے مقابلے میں اچھا خاصا معاوضہ دیا جارہا تھا، لیکن میری نظر میں اتنے بڑے نشریاتی ادارے سے وابستگی ہی بڑے اعزاز کی بات تھی۔ تقریباً دس سال تک اُن کے لیے کام کرتا رہا۔ میرے سینئر دوستوں میں وسعت اللہ خان، محمّد حنیف، ہارون رشید، مصدّق مانول، ریاض سہیل اور شفیع نقی جامی وغیرہ شامل تھے۔

بلوچستان کے ایک نوجوان کے لیے اُن کے ساتھ مل کر کام کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں اور انہوں نے بھی قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی و رہنمائی کی۔ مَیں نےپانچ سال بعد ادارہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا، تو میرے کنٹریکٹ میں توسیع کردی گئی، کیوں کہ ان کا ٹی وی ڈراما شروع ہونے والا تھا، جس کے لیے مجھ سے کام لینا تھا۔مَیں نے بی بی سی ورلڈ سروس کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا تھا، وہ ایک مشکل دَور تھا، ایک طرف طالبائزیشن تو دوسری طرف، کراچی کے ہنگامہ خیز حالات اور مُلک میں افراتفری۔

س: مصوّر بننے کا خیال کیسے آیا؟

ج: میری ڈرائنگ شروع ہی سے اچھی تھی۔ ایک روز والدہ نے فرمائش کی کہ کسی سے اُن کا اسکیچ بنوا کر لائوں۔ مَیں نے ایک دوست سے بات کی، جنہوں نے دس پندرہ دن بعد یہ فرمائش پوری کردی، لیکن وہ اسکیچ پسند نہیں آیا۔ مَیں نے رات کو رنگ، برش لیے اور والدہ کا پورٹریٹ بنانے لگا۔ دو، چار گھنٹوں بعد اس کی شکل نکل آئی، تو امّی نے میرے کام کی تعریف کی۔ بس، وہ میرے لیے ایک سرپرائز تھا۔ پھر مَیں نے اپنی ایک پینٹنگ اپنی فیس بُک آئی ڈی پر شیئر کی، جو این سی اے کے ممتاز مصوّر مقبول کی نظروں سے گزری اور اُنہوں نے اس کی تعریف کی۔ 

کوئٹہ کے ایک سینئر آرٹسٹ نے، جوبہت کم لوگوں کی تعریف کرتے ہیں، میرے لیے تعریفی کلمات کہے۔2016ء میں، جب مَیں اسلام آباد میں تھا، تو پتا چلا کہ کوئٹہ کے سِول اسپتال میں ایک زور دار دھماکا ہوا ہے، مَیں ٹی وی پر دل دوز مناظر دیکھ رہا تھا۔ میرے جاننے والوں اور دوست وکلاء کی شہادتوں کی خبریں چل رہی تھیں، اُن کے نام لیے جا رہے تھے۔ مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ مَیں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔ واپس کراچی پہنچنے پر مزید تکلیف سے دوچار ہوا کہ 8اگست کے اِس سانحے کے بعد 14اگست کو کسی سوگ کی بجائے ہر طرف ہلڑ بازی ہورہی تھی، اُس روز مَیں پہلی بار پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ چند روز قبل 100جنازے اُٹھانے والی قوم کی ایسی بے حسی قابلِ افسوس تھی۔ 

مَیں نے فیصلہ کیا کہ اگلے سال برسی پر ان شہداء کے پورٹریٹ کی نمائش کروں گا اور برسی کے روز تک مَیں نے56 پورٹریٹ بنالیے تھے، جنہیں اُس روز بلوچستان ہائی کورٹ میں زمین پر سجا دیا۔ میرے خیال میں انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا اس سے بہتر انداز کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔ قومی نشریاتی چینلز پر اس کی بھرپور رپورٹنگ ہوئی۔ وسعت اللہ خان نے مجھے اپنے پروگرام میں لائیو لیا، جب کہ جیو ٹی وی پر بھی میرے کام کو سراہا گیا۔ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بھی وہاں تشریف لائے اور میری فرمائش پر ہائی کورٹ بار روم کے سامنے پورٹریٹ آویزاں کرنے کے احکامات جاری کیے۔

س: اب تک کتنے ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دِکھا چُکے ہیں؟

ج: شانتل، اجازت، واپسی، سروری، وفا کے پیکر، مایا، دروازہ، یوسف عزیز مگسی اور سائبان شیشے کا خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، جب کہ جیو کلاسک کے کئی ڈراموں میں خالد احمد کی معاونت کے ساتھ اداکاری بھی کی۔ بین الاقوامی کہانیوں پر مبنی ڈرامے تیار کیے گئے، جن میں پاکستان، بھارت، فرانس، جرمنی اور مصر وغیرہ کے کہانی کاروں کی کہانیاں شامل تھیں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ کراچی میں احتشام الدّین، سیف حسن، ظفر معراج، فاروق رند، عبداللہ بادینی، کوئٹہ میں نواز مگسی، عطاء اللہ بلوچ، ماما گشکوری، شکیل عدنان، زیب شاہد اور دیگر فن کاروں، پروڈیوسرز کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ 

اسلام آباد سینٹر سے شکیل عدنان کے ساتھ’’ مانوس اجنبی‘‘ کیا۔ شبیر جان، ایوب کھوسہ، سلمان احمد اور رشید ناز جیسے سینئر اداکاروں کے ساتھ میری پی ٹی وی ایوارڈ کے لیے نام زدگی ہوئی، میری پہلی اینٹری تھرڈ کھارا فلم فیسٹیول میں ہوئی، پھر میری شارٹ فلمز اور ڈاکیو مینٹریز بھی فیسٹیول میں شامل رہیں۔ اوسیان سینے فین فیسٹیول، انڈیا تھرڈ کابل فلم فیسٹیول میں بھی ڈاکیومینٹریز لے کر گیا، جب کہ امریکن قونصلیٹ کے لیے بھی شارٹ فلمز اور ڈاکیومینٹریز بنائیں۔

س: آپ کے فن پاروں کی کہاں کہاں نمائشیں ہوچُکی ہیں؟

ج: پہلی مرتبہ حیدر آباد میں انٹرنیشنل 2nd واٹر کلر بنالے میں شریک ہوا۔ علی عباس نے میرا کام دیکھا، تو پوچھا’’ کہاں سے پڑھ کر آئے ہو؟‘‘مَیں نے کہا’’ کہیں سے بھی نہیں، خود سیکھنے والا آرٹسٹ ہوں۔‘‘ اِس پر اُنہوں نے میری صلاحیتوں پر انتہائی حیرت کا اظہار کیا، پھر تھرڈ بنالے میں بھی شریک رہا۔ اٹلی میں پریزیٹیو اینٹری دی جو کہ کیٹلاگ میں بھی پرنٹ ہوئے، ہم بارہ آرٹسٹ پاکستان سے وہاں گئے، جنہیں علی عباس لیڈ کررہے تھے۔ امریکا میں بھی نمائش ہوئی، جب کہ اکرم دوست نے بلوچستان کے 16آرٹسٹس کے کاموں کی کراچی میں نمائش رکھی، جس نے دھوم مچا دی۔ 

حال ہی میں میری گزشتہ بارشوں پر مبنی پینٹنگز کی نمائش کراچی میں ہوئی۔ لسبیلہ سے مچھ تک سفر کے دَوران ایک طرف اجڑے گھر دیکھے، عوام کی بے بسی دیکھی، تو دوسری طرف ہریالی دیکھی۔ بارشوں کے قطرے اور آنسوئوں کی علامت پر واٹر کلر میں انسانی جذبات واحساسات پیش کیے۔دراصل، مَیں ہر کام میں مقصدیت کا قائل ہوں۔میرے نزدیک وہ کام ہی نہیں، جس میں سماج سدھار کا جذبہ نہ ہو کہ مَیں ایسے کاموں کو وقت کی بربادی سمجھتا ہوں ۔

س: آپ شہر اورگائوں بھی سجاتے ہیں، وہ کیا قصّہ ہے؟

ج: بی بی سی میں کام کے دوران لودھراں جانا ہوا، تو وہاں مدثر اعزاز کو بچّوں کو چاک پکڑائے کام کرتے دیکھا۔ یہ بچّے دیواروں کی اینٹوں میں مختلف رنگ بَھر رہے تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ’’ یہ اسکول جانے والے بچّے نہیں ہیں، مَیں انہیں آئیڈیاز دیتا ہوں، مصروف رکھتا ہوں، رنگوں سے ان کی دوستی کرواتا ہوں تاکہ ان میں مثبت کام کا رجحان پیدا ہو۔‘‘ واپسی پر مَیں نے ایک دوست کے گائوں میں اسی طرح کے کام کا فیصلہ کیا۔ دس، پندرہ ہزار روپے جمع کرکے مطلوبہ سامان لیا، مدثر اعزاز کو بھی وہاں مدعو کیا اور ایک اسکول کی دیوار پر بچّوں کو ساتھ ملا کر پینٹنگز بنائیں۔ 

بچّوں کی خوشی اور شرکت دیکھ کر اسکول کے اساتذہ بے حد خوش تھے۔ گائوں والوں نے تقاضا کیا کہ’’ آپ یہ کام پورے گائوں میں کر دیں۔‘‘ ہم نے یونہی کہہ دیا کہ’’ آپ کا گائوں تو بہت گندا ہے، پہلے اسے صاف ہونا چاہیے تاکہ رنگ اور نیچر کی دوستی سب کواچھی لگے۔‘‘ دس، پندرہ دنوں میں گائوں صاف ہوگیا اور ہمیں تصاویر بھجوائی گئیں، جن میں پچاس ساٹھ نوجوان صفائی کے کاموں میں سرگرم دِکھائی دے رہے تھے۔ ہم وہاں گئے، دیواروں، دکانوں، ہوٹلز کی میز، کرسیوں، غرض جہاں مناسب سمجھا، برش گھماتے رہے۔ ثاقب نامی ہمارا دوست اس کام میں آگے آگے تھا، گائوں والوں نے فیصلہ کیا کہ بلدیاتی انتخابات میں اُسے نمائندہ بنایا جائے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ثاقب وہاں کا ناظم منتخب ہوا۔ 

بعدازاں، مَیں نے رنچھوڑ لائن اسکول میں ایسا ہی کام کروایا، پھر مچھ اور آواران گیا۔ مچھ میں جب بچّوں کو اِس کام میں مصروف رکھا، تو پہلی مرتبہ وہاں سے گزرنے والی ٹرین پر پتھرائو نہیں ہوا، ورنہ فارغ بچّے ٹرین پر پتھرائو کرتے تھے۔ مسافروں کی جانب سے بچّوں کو ہاتھ ہلا کر داد دینے سے اُن کے نہ صرف حوصلے بڑھے بلکہ یہ دوستی پکّی ہوگئی۔ مچھ اسکول کے ہیڈ ماسٹر کا تین ماہ بعد پیغام آیا کہ اُن کا اسکول فرسٹ آیا ہے۔ جب ہم اوتھل میں تھے، تو وہاں کے ہیڈ ماسٹر عظیم الدّین نے درخت لگوائے، اب جب کبھی وہاں سے گزرتا ہوں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ درخت مجھے آواز دے رہے ہیں۔ وہ مجھے پرانے زمانے اور دوستوں کی یاد دلاتے ہیں، یعنی اِس قسم کے کام یاد داشت کم زور نہیں ہونے دیتے۔

س: ایک تاثر یہ بھی ہے کہ عوام ایسے تعمیری کام نہیں ہونے دیتے؟

ج: کراچی میں ریڑھی گوٹھ کے ایک محلّے کو پینٹ کررہے تھے کہ کچھ سیاسی لوگ آگئے۔ اُنہوں نے کہا’’ ہمارے نعروں کو نہ چھیڑا جائے۔‘‘ ہم نے کہا’’ ہم نعروں کو نہیں چھیڑیں گے، مگر اتائیوں اور دیگر اِسی قبیل کے اشتہاروں کو ضرور صاف کردیں گے۔‘‘ ہمارے ساتھ کام کرنے والوں نے کہا’’ دیواروں پر تو تصاویر بن گئیں، ہم پان کہاں تھوکیں گے؟‘‘ اُن کے لیے کچھ فاصلوں پر گملے لگوائے تاکہ پان خور دیواروں پر پیک مارنے سے باز رہیں۔

س: گھر والوں کو کب پتا چلا کہ آپ بحیثیت ڈاکٹر کسی جگہ کام نہیں کررہے؟

ج: مَیں نے آغا خان اسپتال میں جاب کے دوران 2004ء میں’’دستک‘‘ کی بنیاد رکھی، تو میرے دوست ڈاکٹر شیریں خان نے مشورہ دیا کہ مجھے اپنی فیملی کو بھی اس سے آگاہ کرنا چاہیے۔ ابو کو تفصیلات بتائیں تو اُنہوں نے صرف یہ کہا کہ’’ ڈاکٹر بن کر تم نے ہماری خواہش کا احترام کیا، اب تمہیں بھی حق ہے کہ اپنی خواہشات پوری کرو۔‘‘اُنہیں میری سیلانی طبیعت کا علم تھا، پھر یہ کہ وہ میری اداکاری، فلم ایڈیٹنگ اور ڈاکیومینٹریز پہلے ہی دیکھ چُکے تھے۔

س: اِتنے سارے کام کیسے کر لیتے ہیں؟

ج: مقصدیت ہو، ارادے نیک ہوں، جذبہ ہو، پوری انوالمنٹ ہو، تو پھر آپ کے سامنے مشکل نام کی کوئی چیز نہیں رہے گی۔گویا یہ بھی ایک ہنر ہے اور پھر میری یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ مجھے اچھے لوگوں کا ساتھ میسّر ہے۔

س: اب تک کون کون سے ممالک میں جا چُکے ہیں؟

ج: امریکا، اٹلی، بھارت، عرب امارات اور روس جا چُکا ہوں۔ روس کا دورہ تو بہت دل چسپ رہا۔وہاں صد سالہ جشنِ آزادی کے سلسلے میں دس روزہ فیسٹیول تھا۔اُن کے بارے میں بہت سی منفی باتیں سُن رکھی تھیں اور ہالی وڈ کی فلموں میں تو اُنھیں بہت ظالم دِکھایا جاتا تھا،لیکن اُنھیں قریب سے دیکھ کر کلچرل شاک سا لگا۔ 

ہم جہاں گئے، بزرگوں، بچّوں اور خواتین نے مسکرا کر خوش آمدید کہا، بہت محبّت سے ملے۔ امریکا کے لوگ بھی بہتر ہیں، لیکن یورپی شہریوں میں ابھی تک احساسِ برتری موجود ہے، وہ کسی سے مسکرا کر بات نہیں کرتے، کسی ہوٹل میں داخل ہوں، تو ان کے چہروں پر مسکراہٹ کم ہی نظرآئے گی۔

س: کبھی کسی سے متاثر ہوئے؟

ج: مَیں تو ہر اچھا کام کرنے والے سے متاثر ہوجاتا ہوں۔ ڈاکٹر شاہ محمّد مری کو دیکھا کہ وہ ڈاکٹر، صحافی، ایکٹیویسٹ اور کئی کتب کے مصنّف ہیں، ڈاکٹر نادر خان مریضوں کو دیکھتے ہیں، ڈاکٹر شیریں خان، آغا خان یونی ورسٹی سے گولڈ میڈل لے کر بلوچستان آئے اور ایک کھنڈر نما ٹی بی سینی ٹیوریم کو بحال کیا، بہت سی رکاٹوں کے باوجود اسے چیسٹ انسٹی ٹیوٹ بنادیا، اب وہاں سے ڈاکٹر ایف سی پی ایس کر رہے ہیں۔ 

ادیب رضوی کو دیکھ لیں، بے مثال کام کر رہے ہیں۔ جہاں تک اداکاری کا تعلق ہے، تو مجھے وہ اداکار متاثر کرتا ہے، جو اسے کُشتی کا میدان نہیں سمجھتا اور مقابل اداکار کو شکست دینے کی نیّت سے سیٹ پر نہیں جاتا۔جو شخص اندر سے گھٹن کا شکار ہو، وہ دوسرے کی قابلیت تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی کسی سے سیکھنے کا اعتراف کرتا ہے۔

س: تھکاوٹ یا بوریت محسوس ہو، تو کیا کرتے ہیں؟

ج: بانسری بجاتا ہوں یا موسیقی سُنتا ہوں۔ دوست بتاتے ہیں کہ’’ جب ہم امتحان کی تیاری یا کلاسز کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس کرتے، تو رات کو تمہاری آمد کے منتظر رہتے کہ شرجیل کی بانسری پر خُوب صُورت موسیقی سُننے کو ملے گی، جس سے ساری تھکاوٹ دُور ہو جائے گی۔‘‘

س: کون سی بات دُکھی کرتی ہے؟

ج: ناانصافیاں دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے۔ ہر ناانصافی سے بھیانک نتائج نمودار ہوتے ہیں اور حالیہ مسائل ماضی کی ناانصافیوں ہی کا نتیجہ ہیں۔ جب بلوچستان میں ننگے پائوں بچّوں کو پتھریلے راستوں پر اپنی بکریوں کے پیچھے بھاگتے دیکھتا ہوں، تو یقین کریں میرا دل پسیج جاتا ہے۔ مَیں نے اپنے طور پر ہمیشہ سماجی ناانصافیوں، ناقص حُکم رانی یا بدانتظامی کی نشان دہی کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی اپنی بساط کے مطابق مشورے بھی دیتا ہوں، حالاں کہ نشان دہی بذاتِ خود ایک مشورہ ہی ہے۔

س: کبھی کچھ لکھا بھی؟

ج: جی ہاں، برطانوی نشریاتی ادارے کے پیج پر میری کچھ تحاریر موجود ہیں۔’’سکتہ‘‘ کے نام سے بہت پہلے ایک افسانہ لکھا تھا۔ اب سوچ رہا ہوں، اپنا سفر نامہ لکھوں، کہانیوں کو کتابی صُورت دوں۔ دراصل میرے اندر ایک قلم کار میچور ہونے کی سعی کررہا ہے۔

س: آرٹسٹ بڑے رومانٹک ہوتے ہیں؟

ج: جی ایسا ہی ہے۔رومانس ایک فطرتی عمل ہے، خواہ وہ نیچر سے ہو، قریبی رشتوں سے یا خُوب صُورت اشیاء سے ہو۔میرا پہلا رومانس اسکول کی کلاس ٹیچر سے تھا، جب مَیں پاس ہوا، تو مجھے دوسری کلاس میں بیٹھنے کا کہا گیا،مگر مَیں نے اپنی کلاس ٹیچر کا پلّو پکڑ کر دوسری کلاس میں جانے سے انکار کردیا۔ بس، اِس انسیت کو رومانس ہی سمجھ لیں۔

س: شادی کب ہوئی، بچّے کتنے ہیں، کیا کرتے ہیں؟

ج: میری شادی2004ء میں ہوئی، تین بچّے ہیں، بڑا بیٹا اے لیول میں ہے، جب کہ چھوٹا بیٹا اور بیٹی او لیولز میں۔

س: کون سی خوش بُو پسند ہے؟

ج: مجھے مچھ کی چمنیوں سے نکلتی کوئلے کی مہک یا پہلی بارش کے بعد، مٹّی کی خُوش بُو اچھی لگتی ہے۔ ویسے مجھے رات کی رانی بھی بہت پسند ہے، اِس لیے کہ میری دادی اپنے دوپٹے کے پلّو میں اُس کے پھول باندھے رکھتی تھیں۔

س: اور، رنگوں سے متعلق کیا رائے ہے؟

ج: آسمان اور سمندر کا رنگ بہت پسند ہے۔ ویسے میرے کام میں سبز رنگ نمایاں ہے، میرون کلر مجھے جذباتی کرتا ہے کہ یہ خون کی نشان دہی کرتا ہے۔

س: بلوچستان کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ کیا سوچتے ہیں؟

ج: بقول میڈم بختیاری’’ اِس چُھپے خزانوں کا سب کو علم ہے، مگر اس کی غربت، نا انصافی اور زیادتیوں سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔‘‘ مَیں نے خود محسوس کیا ہے کہ اِس کی اصل شناخت قصداً چُھپائی گئی ہے۔ مَیں نے لاہور جاکر ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کی۔ 

وہاں جس سے پوچھا، اُس کے پاس بلوچستان سے متعلق معلومات نہیں تھیں۔یہاں کون سی زبانیں بولی جاتی ہیں، ہمارے ہیروز کون ہیں، مثبت روایات کیا ہیں،یہ صوبہ مُلک کے لیے کس قدر کارآمد ہے، کسی کو کچھ پتا نہیں۔ ہم آرٹ اور فلمز کے ذریعے عوام میں زیادہ شعور بانٹ سکتے ہیں اور انہیں غلامانہ ذہنیت سے بھی نجات دِلا سکتے ہیں۔