وفاقی وزیرِ صحت مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ میں وزارت کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں، دشمن بھی مجھ پر مال بنانے کا الزام نہیں لگا سکتا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی دودھ دینے والی گائے ہے، اسے چارہ تو کھلاؤ، آپ کو معاشی بحران سے آئی ایم ایف نہیں کراچی نکال سکتا ہے، پاکستان کی 50 فیصد سے زیادہ برآمدات کراچی سے ہوتی ہیں، کراچی کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کرتا۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ کراچی کے 90 فیصد علاقوں میں پینے کا صاف پانی نہیں ہے، ہماری لائنوں کا پانی ہمیں ہی فروخت کر دیا جاتا ہے، کراچی کو ٹھیک کرنے سے کوئی انکار بھی نہیں کرتا، لیکن کراچی کب ٹھیک ہو گا یہ کوئی نہیں بتاتا۔
وزیرِ صحت نے کہا کہ کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا، ہمیں نظام ٹھیک کرنا ہے اور نظام ملک کا آئین ہے، ترقی یافتہ ملکوں میں مقامی حکومتوں کا نظام ہے، ہمارے ہاں مقامی حکومتوں کا نظام فراڈ ہے۔
مصطفیٰ کمال نے یہ بھی کہا کہ کوئی اپنے لیڈر کے خلاف نہیں جاتا، ہماری واحد پارٹی ہے جس نے اپنے لیڈر کو فارغ کیا، ایم کیو ایم واحد پارٹی ہے جس نے لیڈر کو فارغ کیا، ہم بھی جی بھائی بھائی کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ صحت کے شعبے پر توجہ دے رہے ہیں، ہمارے ڈی این اے میں کام کرنا ہے، ہم نے ماضی میں بھی کرکے دکھایا ہے، میرےدور میئر شپ میں کراچی کا شمار بارہ تیزی سے ترقی کرنےوالے شہروں کی فہرست میں ہوتا تھا، کراچی آج رہنے کی بدترین جگہ ہے، شہر کی یہ حالت دیکھ کر اچھا نہیں لگتا، کراچی کی تمام صورتحال جانتا ہوں۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ پیسا ہمارا ڈی این اے نہیں، وزارت پھولوں کی سیج نہیں، جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں، پاکستان کے دو سمندری پورٹس فعال ہیں، دونوں کراچی میں ہیں، کراچی میں نوے فیصد پانی لوگ خرید کر پی رہے ہیں، گھروں میں پانی نہیں، 35منٹ میں ٹینکر پانی لے آتا ہے، افغانستان سے لاتا ہے؟ ٹینکر کا کام سیکڑوں کا کام ہے، بڑے بڑے لوگوں کے ٹینکر چل رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کھلے دشمن سے تو لڑ لیتے ہیں، ہمارا مسئلہ اندر ہے، کراچی کب صحیح ہوگا، اس بات کا انتظار ہے، کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا، ایم کیو ایم کے پاس مقامی حکومت ہے نہ صوبائی حکومت ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نہیں کہہ رہا کہ سب سے اچھے لوگ ہیں، لیکن سارے بروں میں سب سے کم برے ہیں، ہم نے وہ کام کیے جو ملک میں کوئی تصور نہیں کرسکتا۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ وفاق کہتا ہے کہ سارے پیسے تو صوبے کو دے دیے ہیں، ان سے مانگیں، سترہ سالوں میں 20 ہزار ارب روپے سے زائد سندھ کو مل چکے، صوبائی خود مختاری صرف وزیراعلیٰ کے خود مختار ہونے کا نام نہیں، وزیر اعلیٰ سے لے کر ایک یونین کونسلر کا خود مختار ہونا اصل خودمختاری ہے، صوبوں سے پیسے ڈسٹرکٹس کو جانے کا کوئی مکینزم نہیں ہے۔