مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
کچھ عرصہ پہلے ’’جیونیوز‘‘ پرایک خبرنشر ہوئی کہ گھر کے سامنے کچرا پھینکنے پرایک شخص نے اپنے پڑوسی کو جھگڑے کے دوران قتل کردیا۔ اس خبر نے مجھے بے حد غم زدہ کردیا کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رویّے کے کتنے خوف ناک نتائج برآمد ہورہے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر قیمتی جانیں لینا بھی اب معمول بنتا جارہا ہے۔ اسی تناظر میں مجھے بھی ایک واقعہ یاد آگیا، جو بظاہر معمولی ہے، لیکن اس میں انسانی رویّے کا ایک بہت بھیانک پہلو بھی پنہاں ہے، جس سے انسان کے ظاہروباطن کا پتا چلتاہے۔ یہ1995ء کی بات ہے، اُس وقت ہم گلستانِ جوہر، کراچی میں بینگلوز کے ایک نئے پراجیکٹ کے تحت تعمیر ہونے والے ایک بنگلے میں شفٹ ہوئے۔
باؤنڈری وال کے اندر یہ پراجیکٹ 140بنگلوں پر مشتمل تھا۔ جب ہم نے رہائش اختیار کی، تو اُس وقت وہاں بہت کم لوگ آباد تھے، لیکن سب ہی بہت مہذّب اور تعلیم یافتہ تھے۔ سندھ کے سابق صوبائی وزیر، ارباب غلام رحیم بھی وہاں رہائش پذیر تھے۔ اُس زمانے میں لینڈ لائن فون اتنا عام نہیں تھا۔ ڈیمانڈ نوٹ جمع کروانے کے بعد بڑی مشکلوں سے گھر میں فون لگتا تھا۔ اتفاق سے پورے پراجیکٹ میں صرف میرے اورمیرے پڑوسی، ارباب غلام رحیم کے علاوہ اور کسی کو یہ سہولت میسّر نہیں تھی۔ اُس پراجیکٹ میں ایک مہذّب فیملی سے تعلق رکھنے والے انوار صاحب بھی رہتے تھے، جن سے میری زیادہ شناسائی نہیں تھی، لیکن انہیں کسی طرح معلوم ہوگیا تھا کہ میرے یہاں فون کی سہولت ہے۔
بہرحال، ایک دن وہ صاحب اپنی مسز کے ساتھ ہمارے یہاں آئے اور ایک ضروری فون کرنے کی درخواست کی، تو مَیں نے خوش دلی سے اجازت دے دی۔ فون کرنے کے بعد میرا بے حد شُکریہ ادا کرنے کے بعد چلے گئے۔ پھر گاہے بہ گاہے فون کی غرض سے آنے لگے۔ کچھ عرصے بعد اُن کے یہاں بھی فون لگ گیا، تواُن کا آنا جانا بند ہوگیا۔ ہمارا ضمیر بھی مطمئن تھا کہ چلو، کسی کے کام آگئے۔ پھر کچھ عرصے بعد مزید لوگ بھی پراجیکٹ میں آباد ہوگئے، تو بجلی، پانی، گیس اور دیگر مسائل کے حل کے لیے یونین بنانے کی ضرورت پیش آئی، اس طرح بنگلوں کے رہائشیوں کے لیے یونین کا قیام عمل میں آیا۔
انوار صاحب، جو اکثر میرے گھر فون کرنے کی غرض سے آتے تھے، کسی محکمے سے ریٹائرڈ اور بُردبار قسم کے انسان تھے، وقت بھی اُن کے پاس کافی ہوتا تھا، لہٰذا لوگوں نے انہیں یونین کا جنرل سیکرٹری بنادیا۔ خیر، یونین کے معاملات بخوبی چلنے سے رہائشی بھی سکون سے رہنے لگے، سب اپنے کام سے کام رکھتے۔پھر کچھ عرصے بعد میرے گھر میں اچانک ایک ناگوار بُو محسوس ہونے لگی، مَیں نے کھوج لگایا، تو معلوم ہوا کہ گھر کے سامنے کچرا پھینکا جانے لگا ہے، جس سے ناگوار بُو کے بھبکے میری کھڑکیوں سے آتے ہیں۔ بنگلوں کے سامنے سے کچرا اٹھانے والے خاکروب بھی متعین تھے، مگر وہ ایسے وقت آتے، جب میں آفس میں ہوتا تھا۔
مَیں نے سوچا، یہاں کچرا پھینکنے والا ان ہی خاکروبوں میں سے کوئی ہوگا۔ میرا بنگلا چوں کہ فرنٹ لائن میں کارنر اور بائونڈری وال کے اندر تھا، تو یہ کچرا دیوار کے ساتھ باہر کی جانب ڈالا جانے لگا، جو میرے گھر کے عین سامنے تھا۔ ایک روز اتوار کو چُھٹی ہونے کی وجہ سے مَیں اپنے گھر کی اوپری منزل کی بالکونی میں یہ سوچ کر بیٹھ گیا کہ آج اس کا کھوج لگا کر ہی رہوں گا کہ یہ حرکت کون کرتا ہے۔ ابھی میں تاک میں بیٹھا سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک خاکروب ٹرالی کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔
پھر جب وہ ٹرالی میں بھرا ہوا ڈھیر سارا کچرا پھینک کر جانے لگا، تو مَیں نے اوپر ہی سے آواز لگا کر اُسے رُکنے کے لیے کہا، نیچے آکر جب اس سے درشت لہجے میں بات کی اور پوچھا کہ ’’یہاں کچرا کیوں پھینکتے ہو؟‘‘ تو کہنے لگا کہ ’’انوار صاحب (جنرل سیکرٹری) نے کہا ہے۔‘‘ مجھے غصّے کے ساتھ اس بات پر حیرت ہوئی کہ انھوں نے میرے گھر کے سامنے کچرا پھینکنے کی اجازت کیوں دی۔
مَیں اُسی وقت سیدھا اُن کے گھر پہنچ گیا اوراس حوالے سے استفسار کیا، تو بڑی اعتنائی سے کہنے لگے ’’تو کیا ہوا، پندرہ بیس دن کے بعد کے ایم سی کی گاڑی آکر لے جائے گی۔‘‘ حالاں کہ مَیں نے کبھی کے ایم سی کی گاڑی وہاں آتے نہیں دیکھی تھی۔ مَیں نے بڑے تحمّل سے دوبارہ کہا، ’’آپ نے یہی جگہ کیوں منتخب کی، جہاں پہلے کچرا پھینکا جاتا تھا، وہاں کیوں نہیں پھنکواتے؟‘‘ کہنے لگے ’’وہاں کسی نے اعتراض کیا تھا‘‘ مَیں نے کہا ’’وہاں تو اچھی خاصی جگہ ہے، وہاں اعتراض کی کیا بات ہوسکتی ہے؟‘‘ کہنے لگے، ’’معلوم نہیں، مجھے کچرے والے نے یہی بتایا تھا۔‘‘ مَیں نے کہا ’’آپ کو تصدیق کرنی چاہیے تھی، ہوسکتا ہے، اس نے اپنی آسانی کے لیے جھوٹ بولا ہو۔‘‘ کہنے لگے ’’کچرا آپ کی بائونڈری وال کے پیچھے ہی پھینکا جاتا ہے، اس میں کیا حرج ہے۔‘‘ مجھے اُن کے اس رویّے پر بہت غصّہ آیا، وہ پچھلے تمام احسان بھول کر مجھ سے انتہائی اجنبیت کے ساتھ بات کررہے تھے۔
بہرحال، گھرآکر مَیں سوچنے لگا کہ کیا کرنا چاہیے۔ یہ شخص تو بڑا کم ظرف اور احسان فراموش نکلا۔ پھر مَیں نے سخت قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا، دوسرے دن مَیں نے آفس سے چھٹی کی۔ یہ علاقہ چوں کہ کنٹونمنٹ کی حدود میں آتا تھا، لہٰذا سیدھا کنٹونمنٹ آفس چلا گیا۔ سی او ڈی کے پاس مین گیٹ پر ایک چھوٹی سی چوکی پرآرمی کا ایک جوان بیٹھا ہوا تھا، مَیں نے اُس سے مخاطب ہوکر کہ ’’مجھے آپ کے انچارج سے ملنا ہے۔‘‘ اُس نے وجہ پوچھی، مَیں نے کہا ’’کچھ مسئلہ ہے، اُن ہی سے بات کرنی ہے۔‘‘ لیکن اس نے کچھ خاص توجّہ نہیں دی، لیت و لعل سے کام لینے لگا، جب مَیں نے نیوی میں اپنی سابقہ ملازمت کا حوالہ دیا توکچھ نرم پڑا اور کہنے لگا ’’مَیں صاحب سے پوچھ لیتا ہوں، اگر وہ اجازت دیں گے، تو آپ کو بھیج دوں گا۔‘‘
اس نے میرے سامنے ہی انٹرکام پر اپنے صاحب کو اطلاع دی، جنہوں نے ساری بات سُن کر مجھے اندر بلا لیا۔ کمرے میں داخل ہوا، تو وہ اپنے کام چھوڑ کر میری طرف متوجہ ہوگئے۔ ماشا اللہ! بڑی باوقار شخصیت کے مالک تھے، میں نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ میری بات بہت توجّہ سے سُننے کے بعد میرا نام، گھر اور فون نمبر، نیز انوار صاحب کے گھر کا نمبر بھی نوٹ کیا اور کہنے لگے ’’آپ بے فکر رہیں، مَیں اپنے ادارے کے اہل کاروں کو وہاں سروے کے لیے بھیج دوں گا، جو سروے کے بعد آپ کا مسئلہ حل کردے گا۔‘‘ مَیں ان کا بے حد شکریہ ادا کرنے کے بعد کسی حد تک مطمئن ہوکر واپس آگیا۔
وہ بااخلاق اور مہذّب انسان، کمانڈنٹ شاہ جہاں تھے۔ دوسرے دن میں آفس چلا گیا، تو تقریباً صبح گیارہ بجے کے قریب ان کی ایک ٹیم، آرمی کی گاڑی میں وہاں سروے کرنے پہنچی، کچرے کے ڈھیر کی تصویرلی، پورے پراجیکٹ میں کھلبلی مچ گئی، خاکروب پچھلی دیوار سے کُود کر بھاگ گیا، باقی لوگ اِدھراُدھرہوگئے۔ انہوں نے چوکیدار سے میرا پوچھا، چوکیدار نے گھر سے معلوم کر کے بتایا کہ وہ آفس میں ہیں، پھر وہ لوگ چوکیدار کے ساتھ انوار صاحب کے گھر گئے ، وہاں سے جواب ملا، گھر پر نہیں ہیں۔ (حالاں کہ وہ ریٹائرڈ آدمی تھے اور عموماً گھر ہی میں رہتے تھے) بہرحال، وہ اُن کے گھر پر یہ پیغام دے کر چلے گئے کہ’’ کل ہم پھر اسی وقت آئیں گے، ان سے کہیں گھر پر رہیں۔‘‘ اُن کے جانے کے بعد شام سے پہلے پہلے ایک دوسری گاڑی آکر تمام کچرا اٹھا کر لے گئی اور چوکیدار کو سختی سے تاکید کی کہ آئندہ یہاں کوئی کچرا نہ پھینکے۔
میرے آفس سے آنے کے بعد انوار صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے ’’آپ نے کیا کیا، چھوٹا سا مسئلہ تھا ،اِسے ہم مل کر حل کر لیتے، آپ نے وہاں رپورٹ کر دی۔ وہ کل میرے یہاں دوبارہ آنے کا کہہ کر گئے ہیں، یہ تو بڑی بدنامی والی بات ہے۔‘‘ مَیں نے کہا ’’یہ بات آپ نے پہلے کیوں نہیں سوچی، کسی کو اتنا کم زور نہیں سمجھنا چاہیے، اگر آپ اُس وقت گھر میں ہوتے، تو کچرے کے ساتھ ساتھ وہ آپ کو بھی اُٹھا کرلے جاتے۔‘‘
یہ سننے کے بعد مجھ سے معافی مانگنے لگے اور کہنے لگے ’’آپ اس معاملے کو رفع دفع کریں اور عملے کے اہل کاروں کو دوبارہ یہاں آنے سے روک دیں، مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ میں نے کہا ’’میرا جو کام تھا، وہ مَیں نے کردیا، اب آپ جانیں اور وہ جانیں۔‘‘ وہ بڑے مایوس اور پریشان ہوکر چلے گئے، دوسرے دن کنٹونمنٹ سے عملے کے کچھ اور لوگ آئے اور انوار صاحب کے گھر تالا لگا دیکھ کر واپس چلے گئے، لیکن جاتے ہوئے چوکیدار کو سختی سے تاکید کرگئے کہ آئندہ یہاں کوئی کچرا نہیں پھینکے۔
میں جب شام کو آفس سے آیا تو چوکیدار نے یہ ساری باتیں مجھے بتائیں، تو میں سوچنے لگا کہ اس عظیم اور فرض شناس شخص نے میری ایک معمولی شکایت پر اتنا سخت ایکشن لیا، اُس کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہیے۔ سو، مَیں نے فوراً ایک شکریہ کا خط کمانڈنٹ صاحب کو لکھ دیا اور ساتھ میں یہ گزارش بھی کی کہ انوار صاحب کو معاف کر دیا جائے۔ خط غالباً انہیں مل گیا تھا، خط بھیجنے کے تیسرے دن ان کا ایک جوان دوبارہ آیا، اس جگہ کا دوبارہ جائزہ لیا۔ اور چوکیدار کو یہ پیغام دے کر چلا گیا کہ کمانڈنٹ صاحب نے تعریفی خط بھیجنے پر شمیم صاحب کا شکریہ ادا کیا ہے۔ (محمد شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)