• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلز پارٹی کے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے گورنرز کیلئے فیصل کریم کنڈی اورندیم افضل چن کے نام ہارٹ فیورٹ ہیں ۔پنجاب کیلئے مخدوم احمد محمود آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے سابق مشیر چوہدری ریاض اورقمر زمان کائرہ کے نام بھی موجود ہیں۔ البتہ پختون خوا کیلئے نام تقریباً فائنل ہو چکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ندیم افضل چن اگر پنجاب کے گورنر بنا دئیے جاتے ہیں تو اس کے قوی امکانات پیدا ہوجائیں کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی موجودگی کا بھرپوراحساس دلا سکے ۔اس وقت چونکہ مسلم لیگ نون دوبارہ حکومت میںآگئی ہے اور خراب معاشی حالات کے سبب اسے غیر مقبول فیصلے کرنا پڑیں گے۔ پھران پر دھاندلی کے الزامات بھی واضح انداز میں لگے ہوئے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ نون لیگ کا بچا کھچا ووٹر بھی ادھر ادھر دیکھنا شروع کردے گا۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت اپنی انتہا پر ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکرائو کے سبب لوگوں کا پیپلز پارٹی کی طرف جانے کا امکان زیادہ ہے۔ یعنی بلاول بھٹو کا مستقبل تاریک نہیں لگتا۔پیپلز پارٹی نےریاستی عہدے حاصل کیے ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاید وہ پانچ سال پورے کریں۔

جہاں تک فیصل کریم کنڈی کا تعلق ہے تو میں ان کے متعلق لکھی ہوئی اپنی پرانی تحریر سے ایک پیراگراف درج کرتا ہوں’’فیصل کریم کنڈی اور میری دوستی کافی پرانی ہے۔ بحیثیت انسان ان کا کوئی جواب نہیں۔ وہ کنڈی قبیلے کے سردار ہیں۔ کہتے ہیں کہ کنڈی قبیلہ بھی نیازی قبیلے کی ایک شاخ ہے جو افغانستان سے آکر میانوالی، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں آ باد ہوا۔فیصل کنڈی کے والد فضل کریم کنڈی پیپلز پارٹی کے بنیادی رکن تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو انہی کے کہنے پر مفتی محمود کے خلاف ڈیرہ اسماعیل خان سے الیکشن لڑے تھے۔ وہ خود بھی مولانا فضل الرحمٰن کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے ممبر بنے تھے۔ فیصل کریم نے بھی مولانا فضل الرحمٰن کو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر شکست دی تھی اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔فیصل کنڈی کے الیکشن کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ وہ جن دنوں لندن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، شام کو پیپلز پارٹی کے دفتر میں جاکر کام کرتے تھے۔ وہیں محترمہ بینظیر بھٹو سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ ایک دن محترمہ نے انہیں کہا ’’فیصل میں نے تمہیں فضل الرحمٰن کے مقابلہ میں الیکشن لڑانا ہے۔ دنیا کو بتانا ہے کہ ایک رجعت پسند مولانا کو ہمارے ایک نوجوان لڑکے نے شکست دی ہے‘‘۔ جب انتخابات آئے تو آصف علی زرداری نے بہت کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن میرے دوست ہیں، ہم ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ کسی کو نہیں دیں گے مگر محترمہ بضد رہیں کہ فیصل کریم ضرور مولانا کے مقابلے میں الیکشن لڑیں گے۔فیصل کریم کنڈی اگرچہ پیپلز پارٹی کے ڈپٹی اسپیکر تھے مگر اپوزیشن ان کا بہت احترام کرتی تھی جب ان کے والد فوت ہوئے تو نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان تک نے بھی تعزیت کی‘‘۔

اب آتے ہیں ندیم افضل چن کی طرف ، پیپلز پارٹی میں چند سیاست دان رہ گئے ہیں جو ندیم افضل کی طرح حق سچ کی بات کرتے ہیں ۔ ناراض ہوجاتے ہیں اورراضی بھی۔ جس طرح عمران خان کے دل میں ذوالفقار علی بھٹوکیلئے اچھے جذبات ہیں۔اسی طرح ندیم افضل چن عمران خان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ان کی عوامی مقبولیت بے پناہ ہے مگرانہیں دوسری مرتبہ اسمبلی تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔عمران خان نے انہیں مشیر بنایا تھا مگر پالیسیوں پر اختلاف کے سبب ندیم افضل چن مستعفی ہو گئے تھے لیکن جب انہیں عمران خان کے خلاف گواہی کےلئے کہا گیا تو انہوں نے صاف الفاظ میں انکار کردیا۔وہ ان سیاست دانوں میں سے ہیں جن کی انگلیاں عوام کی نبض پر ہوتی ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی انہیں پنجاب میں گورنر لگاتی ہے تو پارٹی کو بے پناہ فائدہ ہوگااور میرے خیال میں بلاول بھٹو کو اس بات کا اندازہ بھی ہے ۔

بلاول بھٹو نے کچھ دن پہلے کہا تھا آصف علی زرداری صدر بننے کے بعد چاروں صوبوں کے گورنر خود لگائیں گے مگر میرےخیال میں نون لیگ کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا اس میں سندھ اور بلوچستان کے گورنر نون لیگ کے ہونے تھے ۔سندھ کے گورنر کیلئے ایم کیو ایم بھی ہاتھ پائوں ماررہی ہےکیونکہ نون لیگ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔ان میں زیادہ تر لوگوں کی خواہش ہے کہ خوش بخت شجاعت کو گورنر بنایا جائے مگر انہیں گورنرشپ ملنے کا امکان کم ہے۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ کامران ٹیسوری ہی گورنررہیں ۔

بلوچستان کے گورنر کیلئے مسلم لیگ نون کے صوبائی صدر شیخ جعفر مندوخیل کا نام بار بار لیا جارہا ہے ۔وہ مئی 2013ء سے مئی 2018ء تک قاف لیگ کی طرف سے ژوب سےبلوچستان اسمبلی کے رکن رہےمگر یہ بات طے ہے کہ یہ سارے فیصلے اسی وقت تکمیل کو پہنچیں گے جب اسٹیبلشمنٹ کوان کے گورنر بننے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ویسے یہ تمام نام ایسے ہیںجن پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مستقبل قریب میں ان گورنرز کی حیثیت بہت زیادہ اہم ہو سکتی ہے ۔ کسی بھی صوبے میں گورنر راج لگانا پڑ سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ چاہے گی کہ ایسے افراد گورنر ہوں جو صوبوں کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہوں ۔

تازہ ترین