• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلمان اکابرین کی جانب سے 23مارچ 1940ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسۂ عام میں پیش کی جانے والی قراردادِ پاکستان کا سب سے بڑا محرّک یہ تھا کہ مسلمان اس خطّے کی سب سے بڑی قوم’’ ہندوؤں‘‘ کے مقابلے میں ہر اعتبار سے ایک الگ قوم ہیں۔ ان دونوں اقوام میں مذہبی و تہذیبی اعتبار سے نمایاں فرق پایا جاتا ہے اور ان کے مقاصدِ حیات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لہٰذا متّحدہ ہندوستان میں ہندو اکثریت کے ساتھ رہتے ہوئے مسلم اقلیت کا مستقبل کسی طور محفوط نہیں۔ اس ضمن میں مسلمان رہنمائوں کا ماننا تھا کہ مسلمانوں کا تحفّظ یقینی بنانے کے لیے ہندوستان کی تقسیم ہونی چاہیے یا پھر تقسیم کے بعد مسلمان اپنے زیرِ اقتدار علاقوں (پاکستان) میں اسلامی مملکت قائم کریں گے۔ 

درحقیقت، قیامِ پاکستان مسلمانوں کی اُس ہزار سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے، جس کے تحت مسلمان ہر زمانے میں اپنا جداگانہ تشخّص برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس عرصے میں مسلمانوں کی انفرادیت مٹانے اور اُنہیں اپنے اندر ضم کرنے کی غرض سے ہندوؤں نے ان پر مختلف محاذوں سے حملے کیے۔ ایک محاذ میدانِ جنگ تھا کہ ہندو وقتاً فوقتاً اپنی تمام تر عسکری قوّت مجتمع کر کے مسلمانوں کے مقابل آجاتے۔ محمّد بن قاسم سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک جس نے بھی ہندوستان میں اسلامی سلطنت کا آغاز یا احیاء کیا، اُسے ہندوؤں کے معاندانہ رویّے کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرا محاذ سیاسی اور تہذیبی تھا۔ 

مسلمانوں کو ایک علیٰحدہ قوم تسلیم کرنے کے باوجود ہندو کسی طور اُن کی جدا گانہ حیثیت ماننے پر آمادہ نہ تھے۔ گرچہ سیاسی میدان میں ہندوؤں کی جانب سے ہمیشہ ’’ہندو، مسلم بھائی چارے‘‘ کا نعرہ لگایا گیا اور دونوں اقوام کو ’’ایک قوم‘‘ ثابت کرنے پر سارا زور صَرف کر دیا گیا، لیکن درِ پردہ صورتِ حال اس کے برعکس رہی۔ ہندوؤں کا مقصد صرف یہ تھا کہ اکثریت کے بل بُوتے پر حکومتی اختیارات اُن کے پاس رہیں اور مسلمان ان کے محکوم بنے رہیں۔ 

ہندوئوں کے اس نفرت انگیز رویّے نے کبھی اُردو زبان کی مخالفت کا رُوپ دھارا اور کبھی ’’گئو ماتا‘‘ کے تحفّظ کا۔ کبھی مسلمانوں کو غیر مُلکی حملہ آور قرار دے کر عرب لوٹ جانے کی تلقین کی گئی اور کبھی اس بات پر زور دیا گیا کہ مسلمان اپنا مذہب، تاریخ، روایات اور تہذیب ترک کر کے خود کو ہندو قومیت میں جذب کر لیں اور ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا جزو بن جائیں اور اس قسم کی سازشیں آج بھی نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔

ہندوستان کے مسلمانوں نے ہندوئوں کی ریشہ دوانیوں کا ہمیشہ پوری قوّت سے مقابلہ کیا۔ برطانوی عہد میں مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ رویّہ مزید شدّت اختیار کر گیا، کیوں کہ انگریز، مسلمانوں سے اقتدار چھیننے کے بعد ضروری سمجھتے تھے کہ وہ زوال کی انتہا کو پہنچ جائیں اور اس کی وجہ محض یہ نہ تھی کہ مسلمان ہندوستان کے سابق حُکم ران تھے بلکہ انگریزوں کو ہندوستانی مسلمانوں کا دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ اخوّت کا رشتہ بھی ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ 

یہ رشتہ انگریزوں کے لیے اس لیے بھی تشویش کا باعث تھا کہ وہ دیگر اسلامی ممالک کے ضمن میں استعماری عزائم رکھتے تھے۔ چناں چہ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ہندوستان میں اسلام ایک بڑی قوّت کے طور پر نہ اُبھر سکے، جب کہ دوسری طرف مسلمانوں کے سامنے ہندوؤں اور انگریزوں کے ناپاک عزائم پوری طرح عیاں ہو چُکے تھے۔

مسلمان محض ہندوستان میں بسنے والی ایک قوم کی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ ایک مسلمان قوم کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہندوؤں کے خلاف متعدّد مرتبہ بغاوت کی۔ مثال کے طور پر حضرت مجدد الف ثانیؒ نے مسلمانوں کے ملّی وجود کو غیر اقوام کے ساتھ اشتراک سے روکا، جب کہ شاہ ولی اللہؒ نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کی قومی حیثیت کو مزید تقویّت پہنچائی۔ اسی طرح سیّد احمد شہید اور اُن کے رفقا ءنے ایک طویل عرصے تک دشمنانِ اسلام کے خلاف جہاد کیا، جو اُن کے پیروؤں کے طفیل بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہا۔

پھر 1857ء کی جنگِ آزادی میں بھی مسلمان ہی پیش پیش تھے، بلکہ یہ انہی کے دَم قدم سے شروع ہوئی تھی اور انہی کی تباہی پر منتج ہوئی۔ بعد ازاں، مسلمانوں نے اکثر مواقع پر اپنے اس مزاج کا مختلف تصوّراتِ آزادی اور ایک آزاد اسلامی مملکت کے تصوّر کی شکل میں اظہار کیا۔ یوں فی الحقیقت حضرت مجدّد الف ثانیؒ کی جدوجہد سے لے کر قراردادِ پاکستان کی متفقّہ منظوری تک ایک ہی رویّہ اور نظریہ مختلف صورتوں اور تحاریک میں کار فرما رہا۔

واضح رہے کہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا حتمی مقصد صرف ایک آزاد مملکت کا حصول ہی نہیں تھا، بلکہ اُس سرزمین پر اسلامی معاشرے کا قیام، شریعتِ اسلامیہ کا نفاذ اور عدل و انصاف کی ترویج تھا۔ پاکستان کی بنیادیں واضح اور ٹھوس نظریات پر رکھی گئی تھیں اور قراردادِ پاکستان سے اُن بنیادوں کی نشان دہی ہوتی تھی، جب کہ یہ معاملہ کہ یہ بنیادیں نئی مملکت میں کس آئین کے تحت استوار ہوں گی، قیامِ پاکستان سے پہلے بھی توجّہ کا مرکز رہا۔ قراردادِ پاکستان میں، جو ہمارے ملّی تشخّص اور قومی نصب العین کا مظہر ہے، آئینی نظام کی کسی قدر جھلک نظر آتی ہے۔

تاہم، تحریکِ پاکستان کے دوران قائد اعظم ؒنے پاکستان کے آئین کی تفصیلات پر اظہارِ خیال سے ہمیشہ گریز کیا۔ انہوں نے ہر موقعے پر یہی کہا کہ یہ کام پاکستان کی دستور ساز اسمبلی انجام دے گی، کیوں کہ قائداعظمؒ محض اپنی مرضی سے کوئی لائحہ عمل ترتیب نہیں دینا چاہتے تھے۔ وہ خود قانون دان تھے اور آئین پسندی کا دامن کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ البتہ انہوں نے آئین کی تیاری کو دستور ساز اسمبلی کی صوابدید پر چھوڑ دیا اور کبھی کسی پر اپنی رائے مسلّط نہیں کی۔

قراردادِ پاکستان کی کام یابی یا قیامِ پاکستان کے بعد ابتدا میں پاکستانی سیاست کو کٹھن صورتِ حال کا سامنا تھا۔ آزادی کے بعد پہلا سال نئی انتظامیہ کی تشکیل، لاکھوں مہاجرین کی آباد کاری اور دیگر گمبھیر مسائل سے عہدہ برآ ہونے میں صَرف ہو گیا۔ پھر چند ماہ بعد ہی بھارت نے کشمیر میں جنگ چھیڑ دی۔ گویا پاکستان پر حملہ کر دیا۔ تب پاکستان کے لیے ایک نئے آئین کی تیاری بھی ایک اہم معاملہ تھا۔ 

قیامِ پاکستان کے وقت قانونِ آزادیٔ ہند کے تحت 1935ء کے آئین ہی کو بعض ترامیم کے ساتھ عارضی طور پر مُلک کا نظم و نسق چلانے کے لیے نافذ کیا گیا تھا اور چُوں کہ یہ پُرانا قانون مُلک کے نظریاتی تقاضوں پر پورا نہ اُترتا تھا، اس لیے نظریۂ پاکستان اور قومی احساسات سے ہم آہنگ ایک نیا آئین مرتّب کرنے کے لیے فوری طور پر ایک نئی دستور ساز اسمبلی تشکیل دی گئی جس نے یہ فریضہ انجام دینا شروع کر دیا۔ اس دوران مُلک کے داخلی مسائل اور بیرونی خطرات نے قوم کو مسلسل مضطرب و منتشر رکھا اور قوم کو قائدِ اعظم ؒکی رحلت جیسے سانحے سے بھی دو چار ہونا پڑا۔ چناں چہ آئین سازی کی ذمّے داری پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم، نواب زادہ لیاقت علی خان کے کاندھوں پر آن پڑی۔

آئین سازی، ساز گار حالات میں بھی خاصا مشکل اور صبر آزما کام ہوتا ہے۔ چُوں کہ آئین کی تشکیل کے دوران زیادہ سے زیادہ نقاط ہائے نظر کو ملحوظِ رکھنا پڑتا ہے، لہٰذا نظریاتی کش مکش اور مفادات میں تصادم کے ساتھ لسانی و علاقائی سوالات بھی اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کو جن مسائل اور مشکلات سے عہدہ برآ ہونا پڑا، وہ گوناگوں اور پیچیدہ ہونے کے علاوہ بہت زیادہ بھی تھے۔ تاہم، اس کے باوجود دستور ساز اسمبلی نے مارچ 1949ء میں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ منظور کی۔ وزیرِ اعظم، نواب زادہ لیاقت علی خان نے اس قرار داد کی منظوری کو حصولِ آزادی کے بعد اپنی زندگی کا اہم ترین واقعہ قرار دیا۔ 

قراردادِ مقاصد مستقبل کے آئین کی بنیاد بننے والے رہنما اصولوں پر مشتمل تھی۔ مذکورہ قرارداد میں پاکستان کا دستور قرآن و سُنّت کے مطابق بنانے کے عہد کیا گیا ۔ قرارداد مقاصد میں کہا گیا تھا کہ ساری کائنات کی حاکمیت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اس کی مقرّر کردہ حدود میں رہتے ہوئے اہلِ پاکستان اقتدار کا استعمال کریں گے۔ پاکستان میں اسلام کے اصولوں کے مطابق جمہوریت، آزادی اور معاشرتی عدل کو پوری طرح ملحوظ رکھا جائے گا اور پاکستان کے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی و اجتماعی حیثیت سے اپنی زندگی کتاب و سُنّت کی تعلیمات کے مطابق ڈھال سکیں۔ اقلیتوں کو اپنے مذہب و ثقافت کے فروغ اور اس پر عمل درآمد کی معقول ضمانت دی جائے گی۔ بنیادی حقوق کا تحفّظ کیا جائے گا، عدلیہ کی آزادی محفوظ رہے گی اور مُلک کی سالمیت اور آزادی کا ہر قیمت پر تحفّظ کیا جائے گا۔

اب مسلمان ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنے خواب قراردادِ مقاصد کی صُورت حقیقت میں ڈھلتے دیکھ رہے تھے۔ اُن کی زندگی میں ایک طویل و صبر آزما جدوجہد اور کئی نسلوں کی قربانی کے بعد یہ خوش گوار اور مسرّت انگیز مرحلہ آیا تھا، لیکن افسوس کہ قیامِ پاکستان کے 76برس بھی اُن کے وہ خواب پورے ہوئے اور نہ ہی حقیقی اسلامی مملکت قائم ہو سکی۔ نتیجتاً، پاکستانی قوم کو وہ اتحاد و یگانگت اور ترقّی و خُوش حالی نصیب نہ ہو ئی، جس کی وہ مستحق تھی۔ البتہ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں مسلمانوں کو بھارت میں آباد مسلمانوں کے مقابلے میں ترقّی کے زیادہ مواقع میسّر آئے اور اُن کا معیارِ زندگی بلند ہوا، لیکن بھارت کو یہ بات بھی پسند نہیں کہ بھارت نے مجبوراً قیام پاکستان کو قبول تو کیا، لیکن کبھی برداشت نہیں کیا۔ 

چناں چہ وہ روزِ اوّل ہی سے پاکستان کو کم زور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس ضمن میں تمام تر اخلاقی و بین الاقوامی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیر پر اس کا قبضہ پاکستان کے خلاف اوّلین اقدام تھا، پھر بھارت نے سیاسی ریشہ دوانی، بیرونی اثرات اور خاموش دراندازی کے ذریعے پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کے جال میں گرفتار کر کے معاشی طور پر کھوکھلا کرنے کی کوششوں میں بڑی حد تک کام یابی حاصل کی۔ بعد ازاں، بھارتی سازشوں اور دراندازی ہی کے نتیجے میں ہمارا مشرقی بازو ہم سے الگ ہو گیا اور اب بلوچستان میں شورش کو ہوا دی جا رہی ہے۔

دوسری جانب بھارت نے ہمارے دانش وَروں میں بھی ایک ایسا طبقہ پیدا کر دیا ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ جو نہایت چالا کی سے مسلمانوں کے ذہن میں اپنی مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی روایات و اقدارسے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے۔ نیز، ہماری مُسلّمات کو متنازع کر کے ہمیں ہماری مذہبی و اخلاقی اقدار سے دُور کرنے کے ساتھ تاریخی حقائق کو جُھٹلانے اور اکابرین اور قائدین سے بدظن کرنے میں بھی پیش پیش ہے۔ یہ طبقہ قیامِ پاکستان تک کو متنازع بنانے اور ہمارے اکابرین کو نظریۂ پاکستان یا پاکستان کے بحیثیت اسلامی مملکت قیام سے منحرف قرار دینے سے بھی نہیں چُوکتا۔ 

اس ضمن میں ’’ففتھ کالمسٹ‘‘ دانش وَرتو اس بات پر بھی مُصر ہیں کہ پاکستان کا تصوّر پیش کرنے والے علاّمہ محمّد اقبال، اشتراکیت پسند تھے ، جب کہ قائداعظم ؒ ایک سیکولر یا لا دین ریاست کے حامی تھے۔ درحقیقت اس الزام کے پسِ پُشت جہاں کم علمی اور سطحیت کار فرما ہے، وہیں ہندو پراپیگنڈے اور تجارتی ترغیبات کی چاشنی بھی ہم پر اثرانداز ہو رہی ہے، جو ثقافتی یلغار کی صُورت ایک فیشن کے طور پر پورے معاشرے میں سرایت کر چُکی ہے۔ تاہم، ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو اس قسم کی منفی سوچ، پراپیگنڈے اور سرگرمیوں سے محفوظ رکھے۔ (آمین)