ہلکے زرد اور سیاہ زیتون کے نرم و نازک اور سر سبز درختوں کی سر زمین، ’’ارضِ فلسطین‘‘ آج آگ و خون میں ڈُوبی ہوئی ہے اور اسرائیلی حکومت فلسطینی مسلمانوں کو اپنے وطن ہی میں اجنبی بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ واضح رہے کہ فلسطین، انبیاء کرامؑ کی سرزمین ہے، جہاں حضرت یعقوبؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت سلیمانؑ اور حضرت داؤدؑ کی قبورِ مبارک ہیں اور یہی سرزمین حضرت عیسیٰؑ کی جائے پیدائش بھی ہے۔
یہیں شمالی محراب والے کونے میں حضرت مریمؑ عبادت میں مشغول تھیں کہ ایک فرشتہ انسانی شکل میں ظاہر ہوا اور آپؑ کو حضرت عیسیٰؑ کی غیر معمولی پیدائش کی خبر دی۔ فلسطین ہی وہ سرزمین ہے کہ جہاں مسجدِ صخریٰ، مسجدِ اقصیٰ اور مسلمانوں کا قبلۂ اوّل، بیت المقدس واقع ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کو یہ غیر معمولی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں معراج کی رات ہمارے پیارے نبی، حضرت محمدﷺ کی امامت میں تمام انبیائے کرامؑ نے نماز ادا کی اور پھر آپؐ سوئے منتہیٰ روانہ ہوئے۔ نیز، یہیں وہ چٹان بھی واقع ہے، جس سے معراج کی رات برّاق کو باندھا گیا تھا۔
ارضِ فلسطین تمام الہامی مذاہب کے ماننے والوں یعنی مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے یک ساں محترم ہے۔ تاہم، عالمی طاقتوں کی ملی بھگت اور عسکری امداد کے ذریعے یہاں اسرائیل نامی یہودی ریاست کی بنیاد رکھی گئی ۔گرچہ اسرائیلی ریاست کا قیام مئی 1948ء میں ہولو کاسٹ اور دوسری عالمی جنگ کے بعد عمل میں آیا، لیکن اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازع کی تاریخ اس سے بھی خاصی پرانی ہے۔
البتہ تاریخ کا یہ باب کب شروع ہوا، اس بارے میں مؤرخین اور مبصّرین کی آرا مختلف ہیں۔الجزیرہ پر اپنی سیریز’’ النقبہ (2008ء) ‘‘میں دستاویزی فلم ساز روان الضامن نے اپنی کہانی کا آغاز نپولین بوناپارٹ سے کیا، جس نے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف اپنی جنگ کے دوران محاصرۂ عکہ کے تناظر میں 1799ء میں فلسطین میں یہودی وطن کی تجویز پیش کی تھی۔
فرانسیسی کمانڈر کو بالآخر شکست ہوئی لیکن مشرقِ وسطیٰ میں یورپی مضبوط گڑھ قائم کرنے کی اس کی کوشش کو 41سال بعد برطانیہ نے پھر دہرایا کہ جب وزیرِ خارجہ لارڈ پالمرسٹن نے استنبول میں اپنے سفیر کو خط لکھا، جس میں انہیں کہا گیا کہ وہ سلطان پر زور دیں کہ وہ مصر کے گورنر، محمد علی کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے فلسطین کو یہودی تارکینِ وطن کے لیے کھول دے۔
گرچہ اُس وقت فلسطین میں صرف 3ہزار یہودی رہتے تھے، لیکن فرانسیسی اشرافیہ بیرن ایڈمنڈ اور جیمز ڈی روتھشیلڈ جیسے امیر لوگوں نے یورپ سے دیگر کو ان کے ساتھ شامل ہونے اور بستیاں قائم کرنے کے لیے اسپانسر کرنا شروع کیا، جن میں سب سے قابلِ ذکر (شہر) ريشون لتسيون ہے، جس کی بنیاد 1882ء میں رکھی گئی تھی۔
آسٹریا کے مصنّف، نیتھن برن بام نے 1885ء میں ’’صیہونیت‘‘ کی اصطلاح اُس وقت ایجاد کی کہ جب یہودی، خاص طور پر مشرقی یورپ سے، فلسطین میں مسلسل آتے رہے۔آسٹریا اور ہنگری کے صحافی، ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل کی کتاب، ’’دی جیوش اسٹیٹ‘‘ ایک دہائی بعد منظر عام پر آئی، جس میں 20ویں صدی کی آمد کے ساتھ اس طرح کے مُلک کے قیام کا تصور پیش کیا گیا تھا۔
اسرائیل نے عسکری کارروائیوں اور امریکا سمیت دُنیا کے دیگر طاقت وَر ممالک کی مدد سے بتدریج فلسطینی باشندوں کی زمین پر قبضہ کرتے ہوئے اُنہیں غزہ کی پٹّی تک محدود و محصور کر دیا اور فلسطینی مسلمانوں کو بیت المقدس جانے اور نماز ادا کرنے کی بھی بہ مشکل اجازت دی جاتی ہے۔
آج مغربی دُنیا خود کو سب سے زیادہ تہذیب یافتہ اور امن کی علم بردار قرار دیتی ہے۔ امریکا اور مغربی طاقتوں کی ایما پر اقوامِ متّحدہ جنگوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز بلند کرتی ہے، جب کہ یونیسیف سمیت یو این او کے دیگر ذیلی ادارے خواتین اور بچّوں کی فلاح و بہبود کے نام پر بے تحاشا رقم خرچ کرتے ہیں، لیکن فلسطین میں کم و بیش گزشتہ 6ماہ سے اسرائیل کی وحشیانہ بم باری کے نتیجے میں 30ہزار سے زاید اموات پر، جن میں خواتین اور بچّوں کی بڑی تعداد شامل ہے، مغربی طاقتوں اور اُن سے وابستہ مذکورہ بالا اداروں کا مصلحت آمیز رویّہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
فلسطینی مسلمانوں پر وحشیانہ بم باری کے علاوہ فلسطین میں موجود اسرائیلی فوج بھی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے میں مصروف ہے۔ اسرائیلی فوجی آئے روز نہتّے، معصوم مسلمانوں کے گھروں میں زبردستی داخل ہو جاتے ہیں اور گھروں میں گُھس کر توڑ پھوڑ کے علاوہ خواتین، بچّوں اور بزرگوں کو زدو کوب بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، معصوم لڑکوں اور نوجوانوں کو کسی جُرم کے بغیر ہی گرفتار کرلیتے ہیں اور اُن پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا جاتا ہے۔
گزشتہ برس 7اکتوبر سے فلسطین پر شروع ہونے والی اسرائیل کی وحشیانہ بم باری آج بھی جاری ہے، جس کے نتیجے میں شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چُکے ہیں۔ حالیہ اعدادو شمار کے مطابق فلسطینی آبادیوں پر کی جانے والی بم باری کے سبب اب تک 30ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق، جب کہ 50ہزار سے زائد زخمی ہو چُکے ہیں۔ اور اس وقت فلسطین میں ایک قیامتِ صغریٰ برپا ہے۔
اسرائیل کے بم بار طیّاروں نے انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے اُن اسپتالوں کو بھی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا کہ جہاں زخمیوں کا علاج جاری تھا۔ علاوہ ازیں، غزہ کی پوری بستی مسمار کر دی گئی اور اس دوران معصوم بچّے ملبےتلے دب گئے، جب کہ دوسری جانب اسرائیلی فورسز مظلوم فسلطینیوں کو امدادی سامان کی فراہمی میں بھی رُکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔
اسرائیل کے ان انسانیت سوز مظالم پر پاکستان سمیت پوری دُنیا سراپا احتجاج ہے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس سمیت دُنیا بھر سے فلسطینیوں کی حمایت میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود فیصلہ ساز عالمی قوّتوں کا ضمیر مستقلاً سویا ہوا ہے۔ گرچہ اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے سفیر نے اپنی تقریر سے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ کافی نہیں۔
ہمیں عالمی قوّتوں کا ضمیر جگانے اور مظلوم اہلِ فلسطین کی ہرممکنہ مالی و اخلاقی مدد کرنی چاہیے۔ماہِ مبارک کی وساطت سے ہماری دُعا ہے کہ فلسطین میں جاری آگ و خون کا خوف ناک کھیل جلد از جلد ختم ہو اور فلسطینی مسلمان بھی سُکھ کا سانس لیں۔