رابعہ، کراچی
ہجرتِ مدینہ کے بعد رسولِ کریم ﷺ نے سب سے پہلے مسجدِ نبویؐ کی تعمیر فرمائی اور مسجد کے ایک حصّے میں ایک چبوترا تعمیر کیا، جو بعد ازاں ’’صُفّہ‘‘ کے نا م سے مشہور ہوا۔ صُفّہ دراصل اسلام کی پہلی باقاعدہ درس گاہ ہے، جہاں آپ ﷺ اہلِ ایمان کو دینی تعلیم دیا کرتے تھے۔ یہ طلباء رات میں اسی چبوترے پر قیام کرتے اور دن میں یہاں دینی احکامات اور مسائل کی تعلیم حاصل کرتے، جس کی وجہ سے انہیں’’اصحابِ صُفّہ‘‘کہا جاتا ہے۔
صُفّہ میں حضرت عبداللہ بن سعیدؓ، جو خوش نویس اور زمانۂ جاہلیت میں کاتب کی حیثیت سے مشہور تھے، طلبا ءکو لکھنا سکھاتے، جب کہ مشہور صاحبِ علم صحابی، حضرت عبادہ بن صامتؓ قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھاتے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ حضرت عُمرؓ نے اپنے دَورِ خلافت میں حضرت عبادہ بن صامتؓ کو فقہ اور قرآنِ مجید کی تعلیم دینے کے لیے فلسطین بھیجا تھا۔ مذکورہ بالا صحابہ کرامؓ کے علاوہ دیگر معلّمین بھی صُفّہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی اس پہلی درس گاہ میں تحصیلِ علم کے لیے آنے والے افراد کی تعداد بڑھتی گئی اور بعض مؤرخین نے ایک دن کی حاضری چار سو طلباء بتائی ہے ۔ ان میں 70سے80ایسے طالبِ علم شامل تھے کہ جن کے شب و روز صُفّہ ہی میں گزرتے تھے۔ صُفّہ میں رسول ِکریم ﷺ طلبا کو حفظِ قرآنِ پاک، علمِ تجوید، قرآن و حدیث اور فقہی مسائل کی تفہیم سمیت دیگر اسلامی علوم کا درس دیتے تھے۔
صُفّہ میں نبی ٔرحمت حضرت محمدﷺ درس و تدریس کے مختلف طریقے بروئے کار لاتے تھے، جن میں سے ایک طریقہ یہ تھا کہ مختلف قبائل کے چید ہ چیدہ افراد چند ہفتے یا ایک سے دو ماہ تک خدمتِ اقدس میں رہ کر قرآن و حدیث، عقائد اور فقہ کے ضروری مسائل کی تعلیم حاصل کرتے اور پھر اپنے قبائل میں واپس جا کر لوگوں کو تعلیم دیتے۔ مثال کے طور پر حضرت مالک بن الحویرثؓ جب اپنے قبیلے کی طرف سے سفارت لے کر آئے، تو انہوں نے مسجدِ نبویؐ میں رسولِ کریم ﷺکے پاس 20دن قیام کیا اور ضروری مسائل کی تعلیم حاصل کی۔
جب وہ واپس جانے لگے، تو آپ ﷺ نے فرمایا،’’ اپنے خاندان میں واپس جاؤ، ان میں رہ کر ان کو شریعت کے احکامات کی تعلیم دو اور جس طرح مُجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے، اسی طرح نماز پڑھو۔“ نبیٔ کریمﷺ کا تدریس کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ مدینے میں مستقلاً رہائش پذیر افراد کو اکثر اوقات درس دیتے اور عموماً قرآنِ مجید اور دینی مسائل کی تشریح اور احکامات بیان فرماتے ۔ نیز، عقائد، شریعت اور اخلاق کی تعلیم بھی دیتے ۔ تیسرا طریقۂ تدریس گفتگو تھا۔
لوگ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے، کسی مسئلے کے بارے میں دریافت کرتے، تو آپ ﷺ اُس کا جواب دیتے اور اُن کے ذوقِ تجسّس و تحقیق کی تشفّی فرماتے اور بعض اوقات مثالوں کے ذریعے مسائل کی تشریح فرماتے۔ چوتھا تدریسی طریقہ تقریر پر مبنی تھا۔ نبی اکرمﷺ جمعے اور عیدین کے موقعے پراپنے خطبات میں دینی مسائل اور احکامات کی تعلیم دیتے۔ علاوہ ازیں، آپﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعے پر جو عدیم المثال خطبہ دیا، وہ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ اور منشورِ انسانیت کا درجہ رکھتا ہے۔
تدریس کا پانچواں طریقہ عملی نمونہ پیش کرنے پر مشتمل ہے۔ یعنی آپ ﷺ نے جن باتوں کی تعلیم فرمائی، اُن پر عمل کر کے دکھایا۔ اس ضمن میں ہمیں کئی مثالیں سیرتِ طیبّہ ﷺ سے بھی ملتی ہیں، جیسا کہ وضو کی سُنّتیں، واجباتِ نماز، نماز کا طریقۂ کار،حقو ق العباد اور حُسنِ اخلاق۔ اسی لیے قرآنِ پاک میں آپ ؐ کے اسوۂ حسنہ کو مثالی اور بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ رسولِ کریمﷺ نے تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت پر بھی بہت زور دیا، جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ تعلیم کے لیے ایسے کارآمد طریقے استعمال کیے جائیں، جو وقت، ماحول اور طلبہ کے مزاج کے عین مطابق ہوں تاکہ تعلیم زیادہ بہتر اور مؤثر ہو۔ صُفّہ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اس کا اقامتی ہونا بھی ہے۔ یہاں مسافر طلباء کے لیے’’ دار الاقامہ ‘‘یعنی ہاسٹل کی سہولت بھی موجود تھی۔ نیز، اس درس گاہ سے فارغ التحصیل حضرات کو ’’قاری‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ صاحب ِعلم ہوتے تھے اور اُنہیں تدریس کی ذمّے داریاں سونپی جاتی تھیں، جو وہ اپنے قبیلے میں جا کر انجام دیتے تھے۔
رسولِ کریم ﷺ نے دورانِ تدریس کبھی کسی طالب علم کے ساتھ امتیازی رویّہ اختیار نہیں فرمایا۔ آپﷺ اصحابِ صفّہ کو عصری علوم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا۔ اس حوالے سے زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریمﷺ نے مُجھے حُکم دیا کہ مَیں آپؐ کے لیے یہود کی کچھ تحریریں سیکھ لوں۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ قسم اللہ کی! مَیں یہود کی تحریر پر اعتماد نہیں کرتا، چناں چہ ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ مَیں نے آپؐ کے لیے اسے سیکھ لیا۔ پھر جب مَیں نے سیکھ لیا اور آپﷺ کو یہودیوں کے پاس کچھ لکھ کر بھیجنا ہوا، تو مَیں نے لکھ کر اُن کے پاس بھیج دیا اور جب یہودیوں نے کوئی چیز لکھ کر آپ کے پاس بھیجی، تو مَیں نے اُن کی تحریر پڑھ کر آپ ﷺکو سُنا دی۔“
واضح رہے کہ یہود سے اگر کچھ لکھوایا یا پڑھوایا جاتا، تو دونوں ہی صُورتوں میں اُن کی طرف سے کمی، بیشی کا امکان تھا اور اسی خطرے کے پیشِ نظر آپ ﷺنےحضرت زید بن ثابتؓ کو سریانی زبان سیکھنے کا حُکم دیا۔ اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے دوسری زبانوں اور مختلف فنون میں مہارت حاصل کرنا ازحد ضروری ہے، جب کہ ایسے کسی بھی علم و ہُنر اور فن و کسب سے اجتناب کرنا چاہیے، جنہیں اسلامی شریعت نے لغو قرار دیا ہے، جیسا کہ شطرنج اور نردشیر وغیرہ۔
حضورِ اکرمﷺ مختلف علوم سیکھنے کے علاوہ صحابہ کرامؓ کو تیر اندازی، گُھڑ سواری اور تیراکی کی تربیت حاصل کرنے کی بھی تاکید فرماتے تھے، کیوں کہ آپﷺ صحابہ کرامؓ اور دیگر اُمّتیوں کو مختلف فنون کا ماہر ہونے کے علاوہ جسمانی طور پر بھی مضبوط دیکھنا چاہتے تھے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے حصولِ علم کے ساتھ کسی فن میں مہارت حاصل کرنا بھی ضروری ہے اور اس ضمن میں کبھی بھی عار یا بُخل سے کام نہ لیا جائے۔ نیز، کوئی بھی مفید علم سیکھنا دین داری کے خلاف نہیں۔ علاوہ ازیں، حصولِ تعلیم کے ساتھ ہی درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔ جیسا کہ نبیٔ پاکﷺ نے اپنی تعلیمات پھیلانے کے لیے اپنے طلباء کو دُور دراز علاقوں میں بھیجا۔
رسولِ کریم ﷺ نے بہ طور معلّم کبھی بھی اپنے کسی طالبِ علم کو سزا نہیں دی۔ اگر کسی طالب علم سے کوئی نازیبا حرکت سرزد ہو جاتی، تو آپؐ نہایت مشفقانہ انداز میں مثالوں کے ذریعے اُس کی رہنمائی فرماتے۔ تاہم، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ طلبہ کو اُن کی غلطیوں پر سزا دینا دُرست نہیں، بلکہ ہمیں زندگی کے دیگر پہلوئوں کی طرح درس و تدریس میں بھی رسولِ اکرمﷺ کے اسوۂ حسنہ کی تقلید کرنی چاہیے اور اگر سزا دینا ناگزیر ہو، تو آپؐ کی بیان کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، جیسا کہ رسولِ کریمﷺ نے بچّوں کو نماز کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ”جب تمہارے بچّے سات سال کے ہو جائیں، تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حُکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں، تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو اور ان کے سونے کے بستر الگ کردو۔“ اس روایت میں گرچہ مار پیٹ کا ذکر ملتا ہے، لیکن فقہائے کرام نے اس کی کچھ حدود مقرّر کی ہے۔ جیسا کہ لکڑی وغیرہ کی بجائے ہاتھ سے مارا جائے۔ ہلکے ہاتھ سے مارا جائے۔ تین دفعہ سے زیادہ نہ مارا جائے اور چہرے اور جسم کے نازک اعضا پر نہ مارا جائے۔
نبی آخر الزّماں حضرت محمدﷺ کا طریقۂ تدریس ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمیں ایک ایسا تعلیمی نظام تشکیل دینا چاہیے کہ جو علوم و فنون کے ساتھ تربیتی پہلوئوں کا بھی احاطہ کرتا ہو، تاکہ طلبہ جدید علوم و فنون سے آراستہ ہونے کے علاوہ اسلامی و اخلاقی اقدار بھی سیکھیں اور پھر ایک بہتر اور پاکیزہ معاشرے کا قیام ممکن بنائیں۔ ایک معلّم کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ سیرتِ طیبّہ کی روشنی میں طلبہ کو تعلیم و تربیت فراہم کرے اور اُنہیں دینی علوم کے ساتھ جدید علوم حاصل کرنے کی بھی ترغیب دے۔ (مضمون نگار، پی ایچ ڈی اسکالرو معاون استاد’’ صُفّہ و بحریہ یونی ورسٹی‘‘، کراچی ہیں)