چند دہائیاں قبل کی عیدالفطر، آج کی عید سے کس قدر مختلف تھی اور ہماری ثقافتی و تہذیبی روایات سے کتنی جُڑی ہوئی تھی، اِس کا اندازہ وہی افراد زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں، جنھیں ساٹھ یا ستّر کی دہائی کی عیدیں یاد ہیں۔ اُنہیں اب یہ باتیں خواب لگتی ہیں، جب ایک دوسرے سے جُڑی چھتوں پر کھڑے بچّے، عورتیں اور نوجوان سرِ شام گردو غبار سے پاک صاف و شفّاف آسمان پر عید کا چاند تلاش کرتے اور جو اُنہیں نظر بھی آجاتا۔ چاند کی ایک جھلک دیکھتے ہی’’ عید مبارک، عید مبارک‘‘ کا شور برپا ہوتا اور قریبی مسجد سے داغا جانے والا گولا چاند دیکھے جانے کی تصدیق کر دیتا۔
بچّوں، نوجوانوں اور خواتین کا پہلام کام، بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہو کر اُنہیں’’ عید مبارک‘‘ کہنا ہوتا کہ اس طرح وہ اپنے بڑوں، بزرگوں سے خُوب دُعائیں لیتے۔ ڈاکوئوں، رہزنوں کے خوف کے بغیر چاند رات کو چوڑیوں، جوتوں اور ملبوسات وغیرہ کی خریداری ہوتی۔لڑکیاں بالیاں مل بیٹھ کے ایک دوسرے کو منہدی لگاتیں۔ سویاں بالعموم گھر ہی میں چارپائی سے بندھی ایک مشین سے گندھے میدے سے نکالی جاتیں۔ عید کے روز اُجلے کپڑے پہنے لوگ، جب ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے، تو اُن کے دل بھی بغض و عناد سے پاک ہوتے۔ عید کا پورا دن گھر میں ایک دوسرے سے گپ شپ، مہمانوں کی خاطر مدارت اور میل ملاپ میں گزرتا۔
بچّے دادا، دادی یا نانا نانی کے گرد گھیرا ڈالے رہتے۔ کئی گھرانے ہم سایوں کے گھر سے بلاوے کا بے چینی سے انتظار کرتے، جہاں محلّے میں سیاہ رنگ کا بھاری بَھر کم واحد فون ہوتا اور بیرونِ مُلک گئے نوجوان، اپنے والدین کو عید کی مبارک باد دینے کے لیے کال کرتے۔ عید کے تینوں دن خُوب ہلّے گلے، گپ شپ، طرح طرح کے پکوانوں کی تیاری اور مہمانوں کی آمد و رفت میں گزرتے۔ گھنٹوں محفلیں جمتیں۔ لگتا تھا کہ وقت نے اپنا دامن کچھ اِس طرح پھیلا رکھا ہے کہ مصروفیات اور باہمی میل میلاپ کا ایک سمندر بھی اس میں سما جائے۔ یہ وہ دَور تھا، جب ٹی وی اور فون کسی کسی گھر میں ہوتے اور معاشرے پر کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹیب اور اسمارٹ فونز کے خوف ناک سائے نہیں پڑے تھے۔
پھر دنیا ہی بدل گئی…!!
لیکن… پھر دیکھتے ہی دیکھتے وقت کو گویا پَر لگ گئے اور وقت سے برکت ختم سی ہوگئی۔ سائنس، ٹیکنالوجی کے بطن سے جنم لینے والے الیکٹرانک آلات، مختلف قسم کے گیجٹس اور دیگر سیکڑوں قسم کی سہولتوں نے روز مرّہ زندگی کے رنگ ڈھنگ، طور طریقے، عادات اور رویّے بدل دیئے۔ہمارا روایتی معاشرہ یک سَر ایک نئی دنیا میں ڈھل گیا، جہاں کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ برسوں پرانی ثقافتی اور تہذیبی روایات ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو گئیں۔ جب روزمرّہ زندگی نئی تبدیلیوں سے ہم کنار ہوئی، تو ہمارے سماجی، ثقافتی اور دینی تہوار، بالخصوص (عیدین) بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ تہذیب و ثقافت سے وابستہ کئی روایات ماضی کا حصّہ بن گئیں، تو عید پر عہدِ جدید کے کئی لوازمات نے اپنا قبضہ جمالیا۔
عیدالفطر کے تقاضوں اور رویّوں کی تبدیلی میں اگرچہ درجنوں محرّکات کار فرما ہیں، لیکن انٹرنیٹ، اسمارٹ فونز اور کمپیوٹر نے جس طرح اِس کے رنگ ڈھنگ بدلے ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگر ہم صرف اسمارٹ فون ہی کے تناظر میں عہدِ جدید کی عیدالفطر کا سماجی اور ثقافتی منظر نامہ دیکھیں، تو یہ ماضی سے یک سَر جُدا اور مختلف نظر آئے گا۔ اِس پس منظر میں آج کی عید کچھ یوں دِکھائی دیتی ہے کہ عید کا چاند اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے امکانات تو تقریباً معدوم ہی ہو چُکے ہیں، کیوں کہ بڑھتی ٹریفک اور کارخانوں کی چمنیوں سے نکلتے دھویں نے آسمان کو گردو غبار سے گویا ڈھانپ سا دیا ہے۔ چاند ستارے بھی ماند پڑ گئے ہیں۔
بہرکیف، جب ٹی وی پر چاند نظر آنے کا اعلان ہوتا ہے، تو ساتھ ہی گھر کے تقریباً ہر فرد کے موبائل فون کی گھنٹیاں، کسی خاص رِنگ ٹون کی صُورت بجنے لگتی ہیں اور ہر شخص گردو پیش سے بے خبر اپنے اپنے موبائل فون میں گم ہو جاتا ہے۔ سربراہِ خانہ تک دوستوں سے مبارک باد وصول کرتے ہیں، انہیں واٹس ایپ میسیجز، انسٹا گرام، ایکس( ٹیوٹر)اور فیس بُک وغیرہ پر گپ شپ ہی سے فرصت نہیں ملتی۔
لڑکیوں بالیوں کا اپنی کلاس فیلوز، سہیلیوں سے چٹ چیٹ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ خواتینِ خانہ اپنے رشتے داروں سے ملبوسات کی خریداری اور پکوانوں کی ترکیبیں ڈسکس کرنے لگتی ہیں۔خصوصاً اِس موقعے پر ’’اِن لاز‘‘ کی طرف سے آئی فون کالز خاص پروٹوکول کے ساتھ سُنی جاتی ہیں۔قصّہ مختصر، اسمارٹ فونز پر گھمسان کی اِس جنگ میں بچّوں کے ساتھ بڑوں کو بھی یہ یاد کروانا پڑتا ہے کہ ان کے معمّر دادا، دادی بھی عید مبارک کا انتظار کر رہے ہیں۔کہیں بیمار معمّر والدین اپنی اولاد کی راہ تک رہے ہیں۔
طوعاً و کرہاً اگر وہ ان بزرگوں کے پاس حاضری دیں بھی، تو اس کا دورانیہ مختصر ہی ہوتا ہے اور وہ جتنا وقت اُن کے پاس گزارتے ہیں، اُن پر ایک بے چینی کی سی کیفیت طاری رہتی ہے، کیوں کہ موبائل پر مسلسل میسیجز، کالز آرہی ہوتی ہیں۔ آخر کار، وہ’’ Excuse Me ‘‘کہہ کر اجازت لے ہی لیتے ہیں۔ جن دوستوں، رشتے داروں کو موبائل فون پر خُوب صُورت ڈیزائنڈ مبارک باد کے میسیجز بھیجنے ہوتے ہیں، اُن کی فہرست ہی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ گروپس پر پیغامات بھیج کر فارغ ہوتے ہیں، تو پھر ٹک ٹاک دیکھنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جہاں ایک الگ ہی میلہ سجا ہوتا ہے۔
یوں کہیے، ہر شخص بس سوشل میڈیا ہی کے سحر میں گرفتار نظر آتا ہے۔کہیں رات گئے یہ سحر ٹوٹتا ہے، جب موبائل کی بیٹری دہائیاں دینے لگتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ اسے چارجنگ پر لگا کر سو جاتے ہیں۔ اور پھر عزیز و اقارب کے ساتھ’’ وقت کی اِس چوری‘‘ کا سلسلہ عید کے دوسرے اور تیسرے دن بھی جاری رہتا ہے۔ والدین سے بے نیاز بچّے ویڈیو گیمز میں مگن رہتے ہیں، تو نوجوانوں کی بھی مختلف گیمز اور ایکٹیویٹیز سے جان چُھڑانی مشکل ہوتی ہے۔خود سربراہِ خانہ کو واٹس ایپ گروپس پہ ساتھیوں کی بھیجی گئی ویڈیوز اور میسیجز ہی سے فرصت نہیں ملتی۔
سیاست سے لگائو رکھنے والے ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر ہزاروں کے حساب سے اَپ لوڈ ہونے والی سیاسی اور سماجی ویڈیوز سے دل بہلاتے رہتے ہیں اور بعض اوقات تو ان امور میں اِتنے مصروف رہتے ہیں کہ بیگم سے ڈانٹ بھی پڑ جاتی ہے۔ یعنی اگلے دن بھی یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے اور پھر علی الصباح بھی نیند سے بیدار ہوتے ہی سب سے پہلا کام موبائل فون چیک کرنا ہوتا ہے کہ رات دیر گئے کسی نے کوئی ہیلو ہائے تو نہیں کی۔
عیدین کے مواقع پر موبائل فونز معمول سے بہت زیادہ استعمال اِس لیے بھی بڑھ جاتا ہے کہ دوستوں، رشتے داروں، آفس کولیگز اور خصوصاً اِن لاز کی طرف سے مبارک بادوں کا جواب نہ دینے سے کئی غلط فہمیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔اور پھر…عید کا تیسرا دن بھی اسمارٹ فونز پر بہت بھاری گزرتا ہے۔رشتے داروں، دوستوں کی طرف جانا ہو، تو نئے ملبوسات میں بچّوں کی موبائل تصاویر بنانے سے تو کوئی بھی نہیں رک پاتا۔
جب موبائل فون نیا نیا متعارف ہوا تھا، تو ایک لطیفہ مشہور تھا کہ آج کل کوئی مہمان جب کسی سے ملنے جاتا ہے، تو گھر میں داخل ہوتے ہی میزبان سے سلام دُعا کے بعد پہلا سوال یہی کرتا ہے کہ’’ موبائل چارجر تو ہوگا آپ کے پاس؟‘‘صُورتِ حال اب بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ موبائل فون ہماری زندگیوں کا ایک ایسا لازمہ بن چُکا ہے، جس سے ایک لمحے کی جُدائی بھی بے چین کر دیتی ہے۔
اِس امر کا اندازہ آپ اس طرح بھی لگا سکتے ہیں کہ اگر کسی کا موبائل فون گم ہو جائے یا چند منٹوں کے لیے آنکھوں سے اوجھل ہی ہو جائے، تو اُس کی حالت بالکل بِن جَل مچھلی کی سی ہوجاتی ہے اور پھر جب فون مل جائے، تو چہرے پر پھیلا اطمینان بھی قابلِ دید ہوتا ہے۔ عیدین کے موقعے پر یہ چھوٹا سا آلہ ہمارے میل ملاپ اور بالمشافہ گفتگو کے کتنے قیمتی لمحات کھا چُکا ہے اور مسلسل کھا رہا ہے، اس کا پورے طور پر اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔
پاکستان میں موبائل فون 1990ء میں انسٹافون کے نام سے متعارف ہوا تھا اور اس کے بعد اس نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ جنگل میں آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا۔ آج صُورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن سرِفہرست سات ممالک میں ہوتا ہے، جہاں سب سے زیادہ موبائل فونز استعمال کیے جاتے ہیں۔ 2023ء کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں19کروڑ افراد اسمارٹ فونز استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، مُلک کی 78فی صد آبادی اِس سہولت سے فائدہ اُٹھا رہی ہے۔
ماضیٔ قریب تک پاکستان سیل فونز درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شامل تھا، لیکن اب مُلکی ڈیمانڈ پوری کرنے کے ساتھ50 کروڑ ڈالرز کے فونز برآمد بھی کررہا ہے اور چند برسوں میں یہ شرح5 ارب ڈالرز تک پہنچنے کی توقّع ہے۔ پاکستان میں سیل فونز کے استعمال کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں سب سے زیادہ فون استعمال کرنے والوں کی عُمریں21 سے 30سال کے درمیان ہیں اور پاکستان کی13فی صد (5کروڑ 80لاکھ) آبادی انہی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو موبائل فونز کے لت میں مبتلا ہو چُکی ہے اور عوام کو اس نشے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑرہی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق،2022-23ء میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کو 850ارب روپے کی آمدنی ہوئی۔ پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے ایک سروے کے مطابق،6 سے18 سال کی عُمر کے80فی صد بچّے روزانہ اوسطاً4 سے 6 گھنٹے موبائل یا ٹیب اسکرین کے سامنے صَرف کرتے ہیں۔ اِس سروے نے پاکستان میں نوجوان نسل سے متعلق سنگین سوالات اُٹھا دیئے ہیں، جو گھر میں والدین اور بہن بھائیوں سے گپ شپ کی بجائے اپنا زیادہ وقت موبائل فون کے ساتھ گزارتے ہیں۔
اِس سے نوجوان نسل امراضِ چشم اور دیگر بیماریوں کا شکار تو ہوتی ہی ہے، جذباتی اور نفسیاتی طور پر بھی والدین اور بچّوں میں کمیونی کیشن گیپ کے باعث شخصیت سازی کے عمل میں کئی رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ اِسی طرح گیلپ پاکستان کے ایک سروے کے مطابق، پاکستان کے ایک چوتھائی گھرانوں کے سربراہان نے اعتراف کیا کہ اُن کے ہاں6,5 سال کی عُمر کے بچّے بھی ٹیب یا سیل فونز استعمال کرتے ہیں۔ ایک اور سروے کے مطابق پاکستان میں دیہات میں87 فی صد اور شہروں میں96 فی صد افراد کو سیل فونز تک رسائی حاصل ہے اور یہ کہ90فی صد پاکستانیوں کے لیے موبائل فونز ہی معلومات کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔
اِن اعداد و شمار سے قطع نظر، پاکستانی سماجی ماہرین کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ مُلک میں اسمارٹ فونز کے بڑھتے استعمال نے لوگوں کے درمیان سماجی فاصلے پیدا کردیئے ہیں۔ ہر شخص موبائل کے ساتھ اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر رہ گیا ہے۔ گھر میں کوئی تقریب ہے یا آپ کسی محفل میں بیٹھے ہیں، شرکاء ایک دوسرے سے گپ شپ اور خیر خیریت دریافت کرنے کی بجائے اپنے اپنے موبائل فونز میں گم نظر آتے ہیں۔
حتیٰ کہ آپ کسی دینی محفل میں ہوں، کسی جنازے کے ساتھ ہوں، عید کے روز گھر میں والدین سے گپ شپ کررہے ہوں، کلاس روم میں ہوں، بیگم سے محوِ گفتگو ہوں، کسی کے غم میں شریک ہوں یا آفس ورک میں مصروف ہوں، اسمارٹ فونز کی گھنٹی آپ کو مجبور کردیتی ہے کہ آپ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اُس کی طرف دھیان دیں، بلکہ آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں، یہ آپ کے ساتھ ہوگا اور یہ صرف پاکستان کا احوال نہیں، پوری دنیا ہی آج موبائل کی گرفت، چنگل میں ہے۔
ترقّی پذیر ممالک ہی نہیں، ترقّی یافتہ ممالک بھی اِس صورتِ حال سے سخت پریشان ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی ماہرینِ نفسیات نے اِسے دورِ حاضر میں کورونا کے بعد دنیا کی سب سے بڑی ’’وبا‘‘ قرار دیا ہے، جس سے دنیا کی ایک کثیر آبادی متاثر ہے اور اِن ماہرین نے امریکا میں5 سے19 سال کی عُمر کے بچّوں کو اس وبا میں سب سے زیادہ مبتلا بتایا کہ جو ویڈیو گیمز کے نشے کا شکار ہیں۔
معروف موٹیویشنل اسپیکر اور سرجن، پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال سے اس ضمن میں بات کی گئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ’’عہدِ جدید میں کمیونی کیشن کی ترقّی نے انٹرنیٹ اور موبائل جیسے آلات کے ذریعے ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ اس اعتبار سے ہمارا یہ دَور پہلے ادوار سے بہت مختلف ہے بلکہ اب ہر آنے والا دن، پچھلے دنوں سے مختلف ہوگا۔ اِن آلات کو ایجاد کرنے والوں کی نیّت کیا تھی، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
گرچہ اس ٹیکنالوجی سے دنیا کو جنّت بھی بنایا جاسکتا تھا، لیکن بدقسمتی سے اِس کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے اور وہ یہ کہ یہ سب ترقّی جس قیمت پر ہو رہی ہے، وہ قیمت انسان کا’’ اپنا آپ‘‘ ہے۔ انسان ہمیشہ یہ سوچتا رہا کہ ترقّی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کو خُوب صُورت بنا دے۔ گدھا گاڑی کی بجائے ہوائی جہاز اور آب دوزیں بنا لیں، وہ چھتوں پر سوتا تھا، اس نے ایئرکنڈیشننگ سسٹم بنا لیا، لیکن اس ٹیکنالوجی کی ترقّی میں وہ یہ بھول گیا کہ اس کا اپنا آپ اور اس کی ذات کہاں رہ گئی ہے، جس کا ایک انسانی اور روحانی پہلو بھی ہے اور جس سے جُڑا تعلق اُس کی زندگی کی باہر کی دنیا کو خُوب صُورت کرنے کی بجائے، اس کے اندر کی دنیا خُوب صُورت کرتا ہے اور اُسی کا یہ باطن اُس وقت نشوونما پاتا ہے، جب انسانی رشتے ناتے مضبوط ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے اس ٹیکنالوجی نے اُس کی باہر کی دنیا تو تبدیل کردی، لیکن اندر سے اُسے بالکل کھوکھلا کردیا ہے اور اس کی بہت بڑی مثال موبائل فون کا بے دریغ استعمال ہے۔آج ایک کمرے میں بیٹھے لوگ دنیا میں سب لوگوں سے رابطے میں ہوتے ہیں، لیکن سامنے بیٹھے بیٹے، بیٹی یا بیگم سے رابطے میں نہیں ہوتے۔ ایک ہی کمرے میں موجود میاں، بیوی اپنے اپنے سائیبر گروپس اور ویڈیو لنک کے ذریعے لوگوں کے ساتھ میسیجنگ میں مصروف رہتے ہیں، لیکن ساتھ بیٹھے اپنے عزیزو اقارب کے ساتھ اُن کی کوئی گفتگو نہیں ہوتی۔
اب عید آنے والی ہے، تو میرا دل کرتا ہے کہ مَیں اپنے دوستوں سے کہوں کہ اِس عید پر آپ’’ تبدیلی‘‘ کا پہلا قدم اُٹھا سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ عید کے دنوں میں ہم موبائل کو کمیونی کیشن اور سماجی تعلقات کے طور پر استعمال نہیں کریں گے، یعنی اِس بار ہم’’ موبائل فِری عید‘‘ منائیں۔ یہ بات کہنا آسان ہے، لیکن عمل کافی مشکل ہے کہ ہم درحقیقت اس نشے کے عادی ہو چُکے ہیں۔ لیکن بہرحال، اگر ہم نے اِس طرف پہلا قدم اُٹھایا لیا، تو یہ اِس بات کا اعادہ ہوگا کہ ہم نے ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھانا ہے، اپنے آپ کا نقصان نہیں پہنچانا۔
اِس بار عید کے موقعے پر اپنے تمام عزیز و اقارب کو ملنے جایئے اور اُس وقت اپنے موبائل فونز بند رکھیے۔ عید کی نماز پڑھ کر آئیں، تو اس کے بعد اپنے لاؤنج، صحن یا ڈرائنگ روم میں بیٹھیں اور اہل و عیال اور بزرگوں سے بات چیت کریں۔ بچّوں سے گپ شپ لگائیں، بزرگوں کی تنہائی دُور کریں، عزیز و اقارب کو اپنے پاس بُلائیں یا خُود اُن کے پاس جائیں۔ یتیم اور بے سہارا لوگوں کو تلاش کر کے اُنھیں عید کی خوشیوں میں شریک کریں۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ، ٹیکنالوجی کے نشے سے بچنے کا یہ ہمارا پہلا قدم آئندہ کے لیے ایک سنگِ میل(نشانِ راہ) ثابت ہوگا۔‘‘