’’ شَمالی،شَمالی…!!یہ تم عید کے روز کہاں جا رہی ہو؟غیر مُلکی خبر رساں ادارے کی رپورٹر نے فلسطینی خاتون سے سوال کیا، تو تیز تیز قدم اُٹھاتی ابیرہ شَمالی ایک لمحے کے لیے رُکیں، پیچھے مُڑ کر دیکھا اور پھر بولیں’’ ایک ماں کیسا محسوس کرے گی، جب وہ عید کے روز اپنی آنکھیں کھولے اور اُسے اپنے پاس اپنا بیٹا نظر نہ آئے؟مَیں اپنے بیٹے سے ملنے جا رہی ہوں۔‘‘’’مگر یہ تو قبرستان کا راستہ ہے…!!‘‘ اِس حیرت بَھرے انداز پر شَمالی کی آنکھوں میں آنسو تیر گئے، مگر کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولیں’’ ہاں،ہاں، میرا لختِ جگر اُدھر ہی ہے، کل ہی تو اُس کا پھول بدن مٹّی سے ڈھانپا ہے، آج مَیں اپنے ہاتھوں سے اُس کی قبر سنواروں گی، جیسے عید پر اُسے تیار کیا کرتی تھی۔‘‘ اور پھر وہ گھنٹوں بیٹے کی تازہ بنی قبر پر بیٹھی خود کلامی کرتی رہیں۔وہیں کہیں، ایک کونے میں، اپنے والدین اور بہن، بھائیوں کے غم میں آنسو بہانے والے ایک بچّے کو ایک دُکھیاری، فیض احمد فیض کی زبانی تسلّی دے رہی تھی؎’’ مت رو بچّے…رو رو کے ابھی…تیری امّی کی آنکھ لگی ہے…مت رو بچّے…کچھ ہی پہلے…تیرے ابّا نے…اپنے غم سے رخصت لی ہے…مت رو بچّے…تیرا بھائی…اپنے خواب کی تتلی پیچھے…دُور کہیں پردیس گیا ہے…مت رو بچّے…تیری باجی کا ڈولا… پرائے دیس گیا ہے…مت رو بچّے…تیرے آنگن میں…مُردہ سورج نہلا کے گئے ہیں…چندرما دفنا کے گئے ہیں…مت رو بچّے…امّی، ابّا، باجی، بھائی…چاند اور سورج…تو گر روئے گا تو یہ سب…اور بھی تجھ کو رلوائیں گے…تو مسکائے گا تو شاید…سارے اِک دن بھیس بدل کر…تجھ سے کھیلنے لَوٹ آئیں گے۔‘‘
وہاں شَمالی اکیلی نہیں تھی کہ اس قبرستان میں چند دنوں کے دَوران ایک ہزار سے زاید قبروں کا اضافہ ہوا تھا اور عید کے روز بھی نئی قبریں کھودی جا رہی تھیں کہ اسرائیل نہتّے، بے بس و مظلوم فلسطینیوں پر مسلسل گولا بارود برسا رہا تھا۔ یہ 2014ء کی بات ہے، جب اسرائیلی فوج نے عید کے تینوں دن حملے کرکے 318افراد کو شہید کردیا تھا، جن میں اکثریت عورتوں اور بچّوں کی تھی۔ اِن حملوں میں22 مساجد شہید ہوئیں، تو 28ہزار سے زاید رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچا۔2021ء کے ماہِ صیام کا آغاز ہوا، تو بدمست اسرائیلی فوج ایک بار پھر فلسطینیوں پر چڑھ دوڑی، یہاں تک کہ عید کے روز بھی اسرائیلی جنگی جہاز فضا سے بم برساتے رہے۔
اِن حملوں میں65 بچّوں سمیت232 فلسطینی شہید، جب کہ1900 زخمی ہوئے۔اسرائیلی بم باری سے 2ہزار گھر، ملبے میں تبدیل ہوئے اور 37ہزار مکانات کو نقصان پہنچا۔اور اب… 2024ء کی عید بھی ایک ایسے موقعے پر آئی ہے، جب غزہ، اسرائیل کی سفاکیت اور اپنوں(مسلم اُمّہ) کی بے حسی و بے حمیّتی کے نتیجے میں ملیا میٹ ہوچُکا ہے۔ چھے ماہ سے جاری اسرائیلی بربریت سے 32 ہزار سے زاید افراد شہید ہوچُکے، جب کہ 80 ہزار زخموں سے چُور ہیں، جن میں اکثریت بچّوں اور نوجوانوں کی ہے کہ غزہ کی45 فی صد آبادی 14 برس سے کم عُمر بچّوں ہی پر مشتمل ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق، اِن شہداء میں 13 ہزار بچّے شامل ہیں۔ بے شمار لاشیں اب بھی ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔اللہ سب کے پیاروں کو سدا سلامت رکھے، لیکن اگر کبھی کسی نے اپنے ہاتھوں میں اپنے جگر پارے کے کفن میں لپٹے وجود کو اُٹھایا ہو یا کوئی نوعُمری میں اپنی ماں، باپ یا بہن، بھائی کی میّت سے لپٹنے کے جگر پاش تجربے سے گزرا ہو، تو وہی اُس غم و الم کو محسوس کرسکتا ہے، جس سے ہمارے دینی و ملّی تہوار کے موقعے پر ہر ہر فلسطینی گزر رہا ہے۔
فلک پر ماہِ صیام کا چاند نمودار ہوا، تو جہاں اپنوں کی یاد میں سِسکیاں، آہیں اُبھریں، آنکھیں، پلکیں نم ہوئیں، وہیں اِس زندہ قوم کے پیر و جوان، مرد و عورت ماہِ مقدّس کو خوش آمدید کہنے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ فلسطین میں مدّتوں سے ماہِ رمضان کی آمد پر گھروں میں خصوصی لالٹینیں روشن کرنے اور گھروں، بازاروں کو جھنڈیوں سے سجانے کی روایت زندہ ہے، جو اِس سال بھی پناہ گزین کیمپس کے خیموں اور ملبے کا ڈھیر بنے گھروں میں پورے جوش و خروش سے دُہرائی گئی۔جوانوں نے گلی محلّے صاف کیے، شہید مساجد سے اینٹیں، روڑے ہٹا کر نمازِ تراویح کی جگہ بنائی گئی اور پھر سب اپنے پروردگار کے حضور سربسجود ہوگئے کہ اُسی کے آسرے پر تو اُن کے یہ انتہائی کٹھن دن گزر رہے ہیں۔
آگ و خون کے طوفان میں ایسا عزم و جذبہ، اپنی دینی و ملّی روایات سے ایسی پُرجوش وابستگی…دوست، دشمن سب ہی حیران تھے۔؎’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ ‘‘کی تشریح، غزہ کی گلیوں میں دیکھے گئے مناظر سے سمجھ میں آئی۔بچّوں کے ساتھ جشن میں شریک ایک بوڑھے نے کہا’’ سب کچھ ختم ہوگیا، اندر سے بُری طرح ٹوٹ چُکا ہوں، مگر پھر بھی کھڑا ہوں اور پورے حوصلے سے کھڑا ہوں تاکہ میرے پوتے، پوتیوں کی ہمّت نہ ٹوٹے۔‘‘17 لاکھ بے گھر فلسطینی خیموں میں مقیم ہیں، ایسا ہی ایک پناہ گزین کیمپ ،دیر البلح کے علاقے میں ہے، جہاں کی ننّھی سی گڑیا، شہاد کا خوشی اور جوش سے دمکتا چہرہ عالمی میڈیا نے بھی دیکھا، جس نے ماہِ صیام کی آمد پر کئی لالٹینیں روشن کی تھیں۔ وہیں امیرہ نامی ایک خاتون کہہ رہی تھیں’’ دُکھ بہت ہیں، نقصانات کی طویل فہرست ہے، عزیزوں، رشتے داروں سے محرومی کا غم بھی جاں گسل ہے، مگر ہم رمضان کی خوشیاں ضرور منائیں گے۔ بچّوں کی خوشی، ہماری خوشی ہے، ہم اُن کے چہرے مرجھانے نہیں دیں گے۔‘‘
اور اب عید آگئی۔ اللہ کا شُکر ہے کہ ہماری عید کی تیاریاں مکمل ہوچُکی ہیں اور اگر کوئی کسر رہ بھی گئی ہے، تو وہ بھی آج، کل میں پوری ہو جائے گی۔ایک دوست نے خوشی خوشی بتایا’’عید کے تینوں دنوں کے لیے کپڑوں کے الگ الگ جوڑے سلوائے ہیں کہ بھلا اس گرمی میں ایک ہی سوٹ کون پہنے پہنے گھومے اور اِس بار تو شوز بھی بہت اچھے مل گئے کہ ہمارے پسندیدہ مال میں ورائٹی کی بہار آئی ہوئی تھی۔ پھر دوستوں کے اصرار پر کلائی کی گھڑی بھی نئی لی ہے، جو خاصی اسٹائلش ہے۔
سچ پوچھیں، تو منہگائی کے باوجود اِس بار عید خریداری میں بہت مزہ آیا کہ شاپنگ مالز بہترین اشیاء سے بَھرے ہوئے تھے۔‘‘اللہ سب کو عید کی خوشیاں مبارک کرے، مگر ہمارے وجود کے ایک حصّے،’’ غزہ‘‘ سے عرب میڈیا نے خبر دی ہے کہ وہاں مائیں تباہ شدہ مکانات کے ملبے سے پرانے کپڑے تلاش کر رہی ہیں تاکہ عید پر اپنے بچّوں کو پہنا سکیں، جب کہ نوجوان بھی کھنڈرات سے ایسے ملبوسات، جوتے ڈھونڈ رہے ہیں، جنھیں وہ عید پر پہن سکیں،کیوں کہ عید تو عید ہے۔
مگر…وہ نئے کپڑے کیسے بنائیں کہ بازاروں میں اشیاء کی شدید قلّت ہے اور اگر کپڑے، جوتے دست یاب ہیں بھی، تو جیبیں خالی ہیں۔اقوامِ متحدہ کے مطابق،11 لاکھ افراد کے پاس خوراک مکمل طور پر ختم ہوچُکی ہے۔ ایک چھے بچیوں کی ماں نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہا’’ مَیں تو ایک ٹماٹر تک نہیں خرید سکتی، باقی چیزیں کہاں سے لاؤں؟‘‘دنیا بَھر میں فاقہ کشی کی صُورتِ حال پر نظر رکھنے والے ادارے، آئی پی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ’’مقبوضہ فلسطین کے علاقے، غزہ کے تمام شہری مئی تک قحط کا شکار ہوجائیں گے۔‘‘
اُدھر، عالمی ادارۂ صحت کی ترجمان، مارگریٹ ہیرس نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ’’ غزہ میں بھوک اور فاقہ کشی کے سبب بوقتِ پیدائش کم وزنی کے باعث بچّوں کی اموات واقع ہو رہی ہیں۔‘‘جب کہ عالمی ادارۂ محنت کا کہنا ہے کہ’’غزہ میں پانچ لاکھ سے زاید افراد کے روزگار مکمل طور پر ختم ہو چُکے ہیں۔‘‘ایسے میں وہاں کیا عید اور کیا عید کی خریداری…؟؟ ہاں…البتہ کفن بہت بِک رہے ہیں اور وہ بھی گز، ڈیڑھ گز کے،صاف ستھرے کفن…جن میں نرم و نازک ،ننّھی کلیاں مٹّی سے محفوظ رہ سکیں۔
عموماً عید سے پہلے گھروں کی صفائی ستھرائی کی جاتی ہے، چادریں، پردے تبدیل ہوتے ہیں، مکان کے قابلِ مرمّت حصّوں کی حالت بہتر بنائی جاتی ہے کہ آنے والے مہمان کیا کہیں گے، کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ یہ سب کام غزہ میں بھی ہو رہا ہے، ہاں، بس فرق اِتنا ہے کہ اُن کے مکانات تو کھنڈربن چُکے اور اُن کے باسی قبرستانوں میں جابسے، تو وہ قبرستانوں ہی میں صفائی اور روشنی کے انتظامات کر رہے ہیں کہ سارے پیارے تو وہیں ہیں اور عید کا دن پیاروں ہی کے ساتھ گزارا جاتا ہے۔ جانے کیوں غزہ کی لڑکیاں بالیاں بھی اِس بار منہدی کی باتیں نہیں کر رہیں، شاید اِس لیے کہ اُن کے ہاتھ تو پہلے ہی اپنے پیاروں کے خون کی سُرخی سے سجے ہیں۔
یہ جو بچّے، آج غزہ کی گلیوں میں بھوکے پیاسے، در در کی ٹھوکریں کھاتے پِھر رہے ہیں، یہ بھی کسی کے جگر پارے تھے، کسی کی زندگی تھے، کوئی اِنہیں بھی عید کو بناتا، سنوارتا تھا، اِن کے لیے بھی نئے کپڑے سِلتے تھے، یہ بھی نئے کپڑے، جوتے پہن کر اِتراتے چلتے تھے، کلائی پر بندھی گھڑی میں بار بار وقت دیکھتے تھے، مگر آج ،سوا ارب مسلمانوں کے ہوتے یہ یتیم بے آسرا ہیں، نئے کپڑوں سے محروم ہیں، اِنہیں کوئی عیدی دینے والا نہیں۔ یہ کھلونوں کو حسرت بَھری نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچ رہے ہیں کہ اے کاش…ماں زندہ ہوتی۔
اِنہیں طرح طرح کے پکوان کہاں سے ملیں کہ سادہ روٹی تک دست یاب نہیں۔آپ کو اور مجھے عید مبارک، مگر اِن کی عید کہاں ہے…؟؟ یہ جو بوسیدہ کپڑے پہنے، پھٹے جوتوں والی، روتی بِلکتی، لاوارث بچّی نظر آ رہی ہے ناں، اِس کا باپ اِسے اپنے ساتھ عیدگاہ لے جاتا تھا، اِس کے پاس بھی کھلونے ہوتے تھے، یہ بھی سب گھر والوں کو بھاگ بھاگ کر، گھوم گھوم کر بڑی چاہت سے اپنے خُوب صُورت ریشمی فراکس دِکھاتی تھی، مگر اب نہ کوئی کندھے پر بِٹھانے والا رہا، نہ کوئی کپڑے دِلانے اور اُنھیں دیکھ کے خوش ہونے والا۔ سب منوں مٹّی تلے جا سوئے۔
حسرت و یاس کی تصویر بنے، ملبوں پر بیٹھے اور قبروں سے لپٹے یہ بچّے، اُس اُمّتِ مسلمہ کی طرف دیکھ رہے ہیں، جو اُن رحمتِ عالمﷺ کی پیروکار ہے، جن سے متعلق کہا گیا’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا…مُرادیں غریبوں کی بَر لانے والا…مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا…وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا…فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ…یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ۔‘‘وہی یتیموں کے والیؐ، جنھوں نے ایک بار غزوۂ اُحد میں شہید ہونے والے، حضرت عَقرَبہ رضی اللہ عنہ کے یتیم بیٹے، بشيرؓ کو روتے دیکھا، تو قریب آکر بہت شفقت اور پیار سے پوچھا’’ يَا حبيبُ ما يُبکیکَ‘‘ اے پیارے! کیوں روتے ہو؟ کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ مَیں تمہارا باپ اور عائشہؓ تمہاری ماں ہو جائے؟‘‘ ( یعنی ہم دونوں تمہیں ماں، باپ کا پیار دیں اور محبّت و شفقت سے پرورش کریں)۔‘‘حضرت بشیر بن عقربہؓ فرماتے ہیں’’ مَیں نے عرض کیا’’ کیوں نہیں، اور یہ سُن کر میرے اداس، غم زدہ دل کو سکون و قرار آ گیا۔‘‘عید کا موقع ہے اور غزہ کے یتیم و لاوارث بچّے ہر آتے جاتے شخص کو دیکھتے ہیں کہ کوئی بڑھ کر اُنہیں اپنے سینے سے لگائے، تو ہے کوئی، جو اپنے نبیٔ رحمتﷺ کی سُنّت ادا کرتے ہوئے آگے بڑھ کر اِنہیں اپنائے، اِنہیں اپنی پیار بھَری بانہوں میں سمیٹ لے…!!
اگر ہم کچھ اور نہیں کرسکتے، تو کم از کم یہ عید اہلِ غزہ کے نام تو کر ہی سکتے ہیں۔اپنے بچّوں کو عیدی دیتے ہوئے اُس بچّی کو بھی تصوّر میں لائیں، جو دن بَھر، بموں کے شور میں اِس لیے گلیوں میں تنِ تنہا پِھرتی رہی کہ اُس کا گھر اور گھر والے اسرائیلی بم باری کا نشانہ بن گئے ہیں۔ وہ باپ بھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے، جو اپنے تین لختِ جگر سپردِ خاک کرکے واپس لَوٹا، تو گھر میں دو جنازے مزید تیار تھے۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے وہ مائیں بھی بھولنے نہ پائیں، جن کا غم اُن کا ربّ ہی جانتا ہے کہ ممتا پر ایسی قیامتیں کم ہی گزری ہیں۔
ہم اپنے عید کے اخراجات میں کچھ کمی کرکے باقی رقم غزہ کے مظلوم و بے کس عوام کے لیے بھیج سکتے ہیں، اپنے بچّوں کو ترغیب دی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی عیدی اپنے غزہ کے بھائی، بہنوں کے ساتھ شئیر کرلیں۔پکوانوں کی تعداد کم کرکے رقم اُن افراد کے لیے بھیج سکتے ہیں، جو روٹی کے دو لقموں تک کو ترس گئے ہیں اور اِس فریضے کی تکمیل کے لیے’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ سمیت بہت سے ادارے موجود ہیں، جن کے ذریعے اہلِ غزہ کو عید کی خوشیوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ غزہ اور اہلِ غزہ ہمارے ہیں اور ہم اُن کے ہیں۔ آج اِس رشتے کی آزمائش ہے اور اُمّتِ مسلمہ کو اِس آزمائش پر ہر صُورت پورا اُترنا چاہیے۔ (اِن شاء اللہ تعالیٰ)۔