• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست پاکستان کا مصمم عزم ہے کہ کسی بھی ایسے شخص یا گروہ کیساتھ کوئی بھی اور کسی بھی طرح مفاہمت نہیں کی جائیگی جو بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنکر ملک میں انتشار برپا کئے ہوئے ہوں۔ 9مئی سانحہ کے منصوبہ سازوں، حوصلہ افزائی کرنیوالوں اور اس کو عملی جامہ پہنانے والوں کیساتھ کوئی مفاہمت یا رعایت کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ چہ جائیکہ مجرمان اس حملے کی کھلے عام مذمت نہ کرلیں اور ریاست پاکستان پر اس مذموم حملے کی ذمہ داری نہ قبول کرلیں۔ عوام کے سامنے آکر اس واقعہ پر معافی مانگیں اور عہد کرلیں کہ وہ آئندہ کسی بھی ایسے واقعہ میں شامل نہیں ہونگے۔ فساد پھیلانے والے لوگ جنہوں نے بیرونی آقائوںکی ایما پر اس قوم کو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا ہے اور ان میں نفرت کے ایسے بیج بو دیئے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے وجود سے انکاری ہیں ایسے فسادی لوگ کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ جو لوگ اپنے ذاتی مذموم مقاصد کیلئے بیرون ملک لابنگ کرکے ملک کو معاشی یا سیاسی سطح پر نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں ان کیساتھ کسی قسم کی رعایت یا مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ذرائع کے مطابق آج کل بعض لوگ اپنے لوگوں کو یہ تسلی دے رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی جلد رہا ہوجائینگے اور نہ صرف رہا ہونگے بلکہ عید کے بعد احتجاجی تحریک کی قیادت بھی کرینگے۔ یہ تاثر بھی دیا جارہا ہے کہ مقتدر قوتوں کیساتھ بیک ڈور مذاکرات چل رہے ہیں جس کے نتیجے میں بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر لوگ جلدرہا ہوجائینگے۔ ذرائع نے اس طرح کے بیانات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کے ساتھ کسی بھی سطح پر کسی قسم کے کوئی بیک ڈورمذاکرات نہیں ہورہے ہیں نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے۔دراصل جس طرح کی سہولیات بانی پی ٹی آئی کو جیل میں حاصل ہیں یہ بھی تاریخ میں ایک مثال ہے۔ کوئی دوسرا قیدی چاہے وہ سیاسی ہو یا کوئی اور، اس طرح کی سہولیات کا سوچ بھی نہیں سکتا۔کئی سابق وزرا ئےاعظم ان ہی جیلوں میں قید رہے ہیں لیکن اس طرح کی کوئی ایک بھی سہولت ان کو حاصل نہیں رہی۔ حالانکہ ان میں سے کسی پربھی اس قسم کا کوئی ایک ایسا الزام نہیں تھا جو بانی پی ٹی آئی پرہیں۔ بانی پی ٹی آئی کو جن کیسز میں قید بامشقت کی سزا ہوئی ہے قوم حیران ہے کہ وہ سزا کہاں گئی۔ ان کو اور ان کے دیگر لوگوں کو جس طرح ریلیف پر ریلیف ملا ہے اور اب بھی مل رہا ہے تو اس سے بجاطور پر ان باتوں کو تقویت ملتی ہے کہ وہ جلد رہا ہوجائیں گے۔ بلکہ بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر لوگ بھی باعزت بری ہوجائیں گے۔ اگرچہ ان کی رہائی سے متعلق بیانات کو خوش فہمی قرار دیا جارہا ہے لیکن جو کچھ قوم کو نظر آرہا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ ان بیانات میں کچھ تو حقیقت ہے۔ سائفر کیس اگلی سماعت پرختم ہوجائے گا یعنی اس کیس سے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی بری ہوجائیں گے۔ ہم اس بارے میں کوئی بھی تجزیہ کرنے سے اس لئے قاصر ہیں کہ ابھی یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ البتہ اس بارے میں مذکورہ بیانات یا جو نظر آرہا ہے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ذرائع کے مطابق اگر بانی پی ٹی آئی عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں رہا ہوتے ہیں تو یہ الگ بات ہے لیکن بعض مقدمات نہایت سنگین نوعیت کے ہیں۔ پھر بھی عدالتوں کا اختیار ہے وہ جو بھی فیصلے کریں یقیناً قانون کے مطابق ہی ہوں گے۔پراسکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا موقف مضبوط دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ عدالت کے سامنے رکھے۔ یہاں چند اہم سوالات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اگر بالفرض بانی پی ٹی آئی رہا ہوجاتے ہیں تو کیا پھر بھی احتجاجی تحریک چلائی جائے گی؟اس بارے میں پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ احتجاجی تحریک کے دواہم مقاصد ہیں بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی آزادانہ تحقیقات کرکے پارٹی کی وہ نشستیں واپس دلائی جائیں جو پارٹی کا حق ہے دوسری صورت میں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ اگر بانی پی ٹی آئی رہا ہوجاتے ہیں تو پھر احتجاجی تحریک کا محور انتخابی دھاندلی ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی کی رہائی ہوجاتی ہے تو کیا وہ رہائی محض ضمانتوں کی بنیاد پرہوگی یا وہ تمام مقدمات سے بری ہونگے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ان کی نااہلی بھی ختم ہوجائے گی یا وہ برقرار رہے گی ۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق بعض دیگر جماعتیں بھی اس تحریک کا حصہ ہونگی تواس تحریک کی قیادت اور اس الائنس کی قیادت کس کے پاس ہوگی۔تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس تحریک کے دبائو میں آکر انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے نتائج پی ٹی آئی اور تحریک میں شامل دیگر جماعتیں قبول کریں گی۔ آخری سوال یہ ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت نے واضح کیا ہےکہ کسی بھی احتجاج کی آڑ میں سرکاری ونجی املاک کو نقصان پہنچانے یا لوگوں کے کاروبار اور آمد ورفت میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ذرائع کے مطابق بیک ڈور مذاکرات اور رہائی سے متعلق بیانات صرف اپنے لوگوں کو مجتمع رکھنے کیلئے دئیے جارہے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے اندر شدید اختلافات ہیں۔ پی ٹی آئی میں وکلا اور سیاسی رہنمائوں کے الگ الگ گروپ ہیں جو ایک دوسرے کو پیچھے رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ پارٹی کے کچھ لوگ بڑی تعداد میں یا تو پارٹی کو چھوڑ رہے ہیں یا فارورڈ بلاک بنانے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ پارٹی کے بعض سنجیدہ لوگ تو احتجاجی تحریک کے حق میں ہی نہیں ہیں ان کا موقف ہے کہ اپنا مقدمہ پارلیمنٹ اور عدالتوں میں لڑا جائے ۔ ذرائع کے مطابق خوش فہمی پر مبنی بیانات کا مقصد پارٹی بقا کی آخری کوششیں ہیں اور پارٹی کے اکثر رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ احتجاجی تحریک سے کچھ حاصل نہ ہوگا بلکہ لینے کے دینے پڑسکتے ہیں۔

تازہ ترین