• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں برطانوی اخبار ’’گارڈین‘‘ کی شائع کی گئی تحقیقاتی رپورٹ نے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔پاکستانی اور بھارتی انٹیلی جنس اہلکاروں کے انٹرویوز اور دستاویزی شواہد کی بنیاد پر مرتب کی گئی اس رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہےکہ ’’بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے 2020 سے لے کر اب تک پاکستان میں 20افراد کو اجرتی قاتلوں کے ذریعے قتل کروایا جس کی منصوبہ بندی بھارتی انٹیلی جنس ’’را‘‘ کے سلیپر سیلزنے کی۔‘‘ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بھارت نے قومی سلامتی کے نام پر بیرون ملک اپنے مخالفین کو قتل کروانے کی حکمت عملی 2019 میں پلوامہ واقعہ کے بعد اپنائی جس کیلئے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے اہلکاروں نے اسرائیل کی موساد اور روس کی KGB جیسی خفیہ ایجنسیوں سے خصوصی تربیت حاصل کی۔ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارتی ایجنسیاں بیرون ملک قتل کی کارروائیاں دبئی، ماریشس اور نیپال سے آپریٹ کرتی ہیں جہاں ان کے سیف ہائوسز ہیں اور یہ سارے کام افغانیوں یا پاکستانیوں کے ذریعے سرانجام دیئے جاتے ہیں جنہیں پیسوں کا لالچ دے کر قتل کروانے کیلئے راغب کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جن لوگوں کو ہدف بنایا گیا، اِن میں لشکر طیبہ یا حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف سرگرم عمل رہے۔ واضح رہے کہ پاکستان گزشتہ کئی سال سے مسلسل یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ پاکستان میں شہریوںکے قتل میں بھارت ملوث ہے۔ فروری کے اوائل میں سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد نے بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ’’بھارت، پاکستانی سرزمین پر پاکستانیوں کے قتل اور دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہے۔‘‘

پاکستان وہ واحد ملک نہیں جس نے بھارت پر اس طرح کے الزامات لگائے ۔ بھارت اس طرح کا گھنائونا کھیل کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ میں بھی کھیل رہا ہے اور پاکستان کی طرح ان ممالک میں بھی اپنے مخالفین کے قتل میں ملوث رہا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال 18 جون کو کینیڈاکے شہروینکور میں خالصتان تحریک کے سرگرم رہنما کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ کو گوردوارے کے باہر قتل کردیا گیا تھا۔ہردیپ سنگھ کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر مشتمل انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تنظیم ’’فائیو آئیز‘‘ جو انٹیلی جنس پر مبنی معلومات ایک دوسرے سے شیئر کرتی ہے، نے فراہم کئے تھے جس میں یہ انکشاف سامنے آیا تھا کہ ہردیپ سنگھ کا قتل کینیڈا میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ کے اسٹیشن چیف کی نگرانی میں ہوا جس کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارت کو قتل کا مورد الزام ٹھہرایا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت نے امریکہ میں بھی ایک سکھ رہنما کو اِسی طرز پر قتل کرنے کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی۔

بھارت نے پاکستان میں جس طرح 20 پاکستانیوں کی ٹارگٹ کلنگ کروائی، اگر پاکستان اِسی طرح کی کارروائی میں ملوث ہوتا تو بھارت، پاکستان کو عالمی سطح پر دہشت گرد ملک قرار دینے کا مطالبہ کرچکا ہوتا۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ بھارت کا قاتل نیٹ ورک دنیا بھر میں پھیل چکا ہے جس کا دنیا کو نوٹس لینا چاہئے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کو اپنی سلامتی اور خود مختاری کو درپیش ان سنگین خطرات کا اندرونی اور بیرونی محاذ پر مقابلہ کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہئے کہ جن خلیجی ممالک میں پاکستانیوںکے قتل کے بھارتی آپریشنز کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، ان ممالک کی سیکورٹی ایجنسیوں سے رابطہ کرے اور قتل کی وارداتوں کے حوالے سے جمع کئے گئے ثبوت و شواہد کو ان ممالک کی حکومتوں کے ساتھ شیئر کرے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ ساتھ ہی حکومت پاکستان یہ معاملہ عالمی فورمز اقوام متحدہ، انسانی حقوق کمیشن اور عالمی عدالت انصاف میں بھی اٹھائے اور کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ کی مشترکہ ٹیم سے ’’را‘‘ کے ہاتھوں پاکستانیوں کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے تاکہ قتل کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے۔

برطانوی اخبار ’’گارڈین‘‘ میں شائع حالیہ رپورٹ سے نریندر مودی کا 2019 میں کیا گیا یہ دعویٰ درست ثابت ہوا کہ ’’میں دشمنوں کو ان کے گھر میں گھس کر ماروں گا۔‘‘ توقع کی جارہی تھی کہ بھارتی حکومت گارڈین رپورٹ کی تردید یا مذمت کرے گی مگر بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا ڈھٹائی کے ساتھ پاکستانیوں کے قتل کا فخریہ اعتراف اور یہ کہنا کہ ’’بھارتی وزیراعظم کی پاکستانی شہریوں کے قتل کے حوالے سے یہی پالیسی ہے اور بھارت ہر اس پاکستانی کو قتل کرے گا جو ہمارے ملک میں کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ کارروائی کی کوشش کرے گا۔‘‘ سے یہ شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں کہ کہیں بھارت میں الیکشن کے موقع پر گارڈین رپورٹ شائع کرانے کا مقصد مودی کو اپنے دشمنوں کو گھر میں گھس کرمارنے والے ریمبو کے طور پر پیش کرنا، ان کی مقبولیت میں اضافہ کرنا اور انہیں انتخابی ایندھن فراہم کرنا تو نہیں؟

تازہ ترین