• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ عیدالفطر کا تیسرا دن ہے، اپنے پیاروں کے ساتھ عید کی خوشیاں منانے کے بعد آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب سجائے مسافروں کی ایک بس اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے، رات کے گھپ اندھیرے میں اسلحے کے زور پر بس کو روک لیا جاتا ہے اور نقاب پوش زبردستی اندر گھس آتے ہیں، مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے جاتے ہیںاور صوبہ پنجاب کے ایڈریس درج ہونے کی بنا پر نو مسافروں کو اتار لیا جاتا ہے جبکہ بس کو آگے روانہ کردیا جاتا ہے، بعد ازاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کوایک پل کے نیچے بدقسمت مسافروں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ملتی ہیں۔ یہ وہ تفصیلات ہیں جو میڈیا کے توسط سے ہمیں بلوچستان کے علاقے نوشکی میں رونما ہونے والے ہولناک سانحہ کی موصول ہوئی ہیں جس نے ہر دردمند پاکستانی کو خون کے آنسو رْلا دیا ہے، اطلاعات کے مطابق صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مقتول مسافروں کی عمریں بیس سے پچیس سال کے درمیان تھیں اور وہ قانونی دستاویزات پر روزگار کے سلسلے میں ایران جارہے تھے۔اس المناک واقعے کی آڑ میں سوشل میڈیا پر ہر طرح کے لوگ اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کررہے ہیں جبکہ کچھ سماج دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر منفی بیانیہ بنا رہے ہیں۔ میرا بلوچستان سے آج کا نہیں بلکہ بہت پرانا تعلق ہے،جب سے میں نے ہوش سنبھالاہے ، میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ بلوچستان میں واقع ہنگلاج ماتا مندر کی یاترا کیلئے باقاعدگی سے جاتا ہوں، میںنے 2012ء میں سینیٹ کا الیکشن بھی بلوچستان صوبے سے لڑا تھا،اپنی سیاسی و سماجی مصروفیات کے حوالے سے بھی مجھے بہت مرتبہ بلوچستان کا دورہ کرنے کا موقع ملا، گزشتہ سال بطور چیئرمین ٹاسک فورس گندھارا سیاحت میری اہم ملاقات وزیراعلیٰ ہاؤس کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان سے ہوئی، ملاقات کے دوران ہم نے مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے پاکستان دوست ممالک سے بْدھسٹ یاتریوں کیلئے گندھارا کوریڈور کے قیام پر اتفاق کیا، میں جتنا عرصہ بلوچستان میں رہا وہاں کسی نے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔میرے حلقہ احباب میں بہت سے قریبی لوگوں کا تعلق بلوچستان سے ہے اور وہ سب مخلصی، مہمان نوازی اور دوستی نبھانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ تاریخی طور پر بلوچ بہت بہادر، مہمان نواز اور اعلیٰ اخلاقی اقدار پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں جنکے زمانہ قدیم سے روابط ایران، مشرق وسطیٰ اور خطے کے دیگر ممالک سے استوار رہے، لفظ بلوچ کے لغوی معنیٰ بلند تاج ہے، بلوچستان میں مہرگڑھ کے مقام پر آج سے سات ہزار سالہ قدیم تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں جہاں جنوبی ایشیا میں سب سے پہلے زراعت اور مویشی پالنے کو رواج دیا گیا، مقامی روایات کے مطابق معرکہ کربلا کے موقع پر بلوچوں نے یزیدی قوتوں کے خلاف حضرت امام حسین کا ساتھ دیا تھا اور وہ بعد میں سیستان، زاہدان سے ہوتے ہوئے پاکستان کے موجودہ بلوچستان میں بس گئے۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ہے جو پاکستان کے کل رقبے کاتقریباََ ساڑھے 43فیصد حصہ بنتا ہے ،پاکستان کی ساحلی سمندری پٹی کا بڑا حصہ بلوچستان میں واقع ہے، بلوچ قبائل کی بڑی تعداد ہمسایہ ممالک ایران، افغانستان اور عمان میں بھی رہتی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت حکومت برطانیہ کی جانب سے بلوچستان پانچ حصوں پر مشتمل تھا جن میں سے چار شاہی ریاستیں تھیں جبکہ موجودہ گوادر عمان کا حصہ تھا، بلوچستان نوزائیدہ مملکت پاکستان کا حصہ بنا تو بلوچ عوام کی جانب سے بے انتہاخوشیوں کا اظہار کیا گیا، بانی پاکستان قائداعظم کی ا?ٓمد پر انکا فقید المثال استقبال ہماری تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہے، تاہم پڑوسی قوتوں کے ایما پر کچھ شدت پسند عناصر کی جانب سے قدرتی وسائل سے مالامال صوبے میں گاہے بگاہے شورش برپا کرنے کی ناکام کوششیں بھی کی جاتی رہیں۔ یہ عناصر اپنے صوبے میں عوام کی ترقی و خوشحالی کے ہر منصوبے کے دشمن ہیں، نفرت آمیز رویوں کا مظاہرہ کرنے والے صوبے کی پسماندگی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں لیکن جو لوگ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کا خواہاں ہیں، انہیں یہ اپنے راستے سے ہٹانے میں دیر نہیں لگاتے۔اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں ہوسکتا کہ سانحہ نوشکی میں محنت مزدوری کیلئے ایران جانے والے مسافر کسی صورت بلوچستان کے وسائل پر قابض ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، انکو ناحق موت کے گھاٹ اتارنے سے صرف اور صرف پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کیا گیا اور عالمی سطح پر بلوچستان کے حوالے سے خوف و ہراس پھیلایا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا ہر مذہب مسافروں کی خدمت کرنے کا درس دیتا ہے، مسافروں کو بحفاظت اپنی منزل تک پہنچانا بہت بڑی نیکی ہے جبکہ مسافروں کو نقصان پہنچاناعذابِ الہٰی کو دعوت دینا ہے۔میری نظر میں یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ بلوچستان کے دیگر ایشوز پر تو سیاست چمکا لی جاتی ہے لیکن بے گناہ مسافروں کے قتل پر مقامی سطح پر احتجاج یا دھرنے کی کال نہیں دی جاتی۔تاہم، بلوچستان کے باشعور عوام نے سانحہ نوشکی کی بروقت مذمت کرکے مظلوم مسافروںکے لواحقین سے اظہارِ ہمدردی کیا ہے، ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والوں کی طرح بلوچ شہری بھی سانحہ نوشکی پر دْکھی ہیں کہ دہشت گردوں نے بلوچستان کے امن کوسبوتاژ کیاہے، وہ سمجھتے ہیں کہ انکی سرزمین کو بے گناہوں کے خون سے سرخ کرکے بلوچ قوم کی صدیوں پرانی مہمان نوازی کی عظیم روایات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔پاکستانی عوام کا یہ پرزور مطالبہ ہے کہ ملک کو امن کا گہوارا بنانے کیلئے سانحہ نوشکی میں ملوث دہشت گردوں کوہر صورت قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اورسفاکیت میں ملوث عناصرکو کڑی سزائیں دی جائیں۔ میری مالک سے دعا ہے کہ مہمان نوازوں کی سرزمین بلوچستان میں نفرتوں کا پرچار کرنے والے عناصرکو جلد شکست فاش ہو اور اعلیٰ روایات پر عمل پیرا محب وطن بلوچوں کا بلند تاج ہمیشہ اونچا رہے۔۔۔!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین