• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی ایئر لائن نجکاری، منافع بخش روٹس جاری رکھنے کی ضمانت نہیں مانگی گئی

اسلام آباد (مہتاب حیدر) قومی ایئرلائن نجکاری، منافع بخش روٹس جاری رکھنے کی ضمانت نہیں مانگی گئی، ترجمان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی برانڈنگ، کاروبار اور روٹس پر سرمایہ کاروں کی ذمہ داریاں سیلز پرچیز ایگریمنٹ میں ظاہر ہوں گی۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کو دوبارہ بحال کرنے کی تمام کوششوں کی ناکامی کے درمیان حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں بچا کہ وہ اسے کسی بھی ممکنہ سرمایہ کار کو فروخت کردے۔ تاہم ماضی میں مختلف لین دین کی نجکاری کے سلسلے میں کی گئی غلطیوں کی تکرار سے بچنے کے لیے مطلوبہ کام کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ پی آئی اے کے اظہار دلچسپی (ای او آئی)کے سامنے آنے کے بعد کچھ متعلقہ سوالات سامنے آئے ہیں جیسا کہ متعلقہ حلقوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ نجکاری کمیشن (پی سی) نے ایک ناقص حکمت عملی بنائی جبکہ ای او آئی نے بعض منافع بخش راستوں پر فلائٹ آپریشن جاری رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں مانگی۔ اگر کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پی آئی اے حاصل کرتا ہے اور اسے دنیا بھر میں منافع کمانے والے تمام مقامات کے لیے صرف مقامی یا کنیکٹنگ فلائٹس میں تبدیل کرتا ہے تو حکومت اس پر کیسے پابندی عائد کرے گی جب کہ ای او آئی میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ہوابازی کے ماہرین نے کچھ اندازے لگائے اور دی نیوز کے ساتھ شیئر کئے جس سے انکشاف ہوا کہ کسی بھی بین الاقوامی خریدار کی ٹکٹنگ کی رقم اور منافع کے لیے سالانہ بنیادوں پر تقریباً 1 ارب ڈالر کا زرمبادلہ درکار ہو سکتا ہے۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ اگر 800 ارب روپے سے زائد کی تمام واجبات الگ الگ کمپنی میں رکھی جائیں گی اور صاف ستھرے پی آئی اے کو منافع بخش روٹس پر آپریشن جاری رکھنے کی ضمانت کے بغیر نجکاری کر دی جائے گی تو پھر ’’ذہانت سے اختتام‘‘ کے آپشن پر غور و فکر کیا جانا چاہیے۔ جب ذہانت سے اختتام کا آپشن عام ہو جائے گا تو تمام قرض دہندگان اپنے بقایا قرضوں اور واجبات کی وصولی کے لیے جلدی کریں گے۔
اہم خبریں سے مزید