• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

21 اپریل کو وہی ہوا جو 8 فروری کو ہوا تھا مگر جو 9 فروری کو ہوا تھا وہ اس مرتبہ 21 اپریل ہی کو کر دیا گیا، جو لوگ فارم 45 کے شور سے تنگ تھے، اس مرتبہ انہوں نے یہ چکر ہی ختم کر دیا، حکمت عملی تبدیل کر دی گئی، بھرے بھرائے ڈبے آگئے تو کہیں کوئی نا معلوم ایک ہی جست میں آٹھ نو سو ووٹ ڈال گیا، دن بھر پولنگ کے عملے کی بے بسی کے ویڈیو کلپس سامنے آتے رہے، ایک پریزائڈنگ افسر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ’’ہم مجبور ہیں‘‘۔ پنجاب میں ویسے تو گجرات پولیس کے قصے بڑے مشہور ہیں مگر اس مرتبہ تو انہوں نے انتہا ہی کر دی، نہ مجبور کو کچھ کہا، نہ مجبور کرنے والوں کا کھوج لگانے کی کوشش کی بلکہ ویڈیو بنانے والوں ہی کو گرفتار کر لیا۔ انتخابی تاریخ میں مجھے پہلی مرتبہ انتخابی عملہ ایسے لگا جیسے فروٹ منڈی میں پھل فروش ہوتے ہیں، جو یہ نہیں بتاتے کہ ریٹ کس نے بڑھایا مگر یہ بار بار کہتے ہیں کہ ’’پیچھے سے یہ ریٹ آیا ہے، ہم مجبور ہیں، کیا کریں؟‘‘ 21 اپریل کے انتخابی عمل کو دیکھ کر دکھ ہوا، تکلیف ہوئی اور بار بار یہ سوچ ڈستی رہی کہ آخر ہم ای وی ایم کی طرف کیوں نہیں جاتے؟ آخر ہمارے انتخابی عمل میں مداخلت رک کیوں نہیں جاتی؟ لڈیاں ڈالنے والے سیاستدانوں کو تو اس کا خیال نہیں آئے گا مگر ہر پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ یہ ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ یہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ رات گئے ایک دوست نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اصل رزلٹ موجود ہے، وقت کی مناسبت سے اصل رزلٹ سامنے لایا جائے گا فی الحال تو ڈنر کی بات ہے، کسی نے کسی سے کہا تھا ’’ہم خوشی سے ڈنر کرنا چاہتے ہیں، دکھی دل کے ساتھ نہیں‘‘۔ دلوں کی باتیں دل کی دنیا والے جانتے ہیں، ہمیں اس سے کیا؟ 21 اپریل کی شام نئی حکمت عملی کے تحت رزلٹ میں تاخیر نہیں کی گئی، ہاں البتہ آر او آفس کو جانے والے راستے بند کر دیئے گئے، اس بار یہ کرشمہ بھی ہوا کہ پولنگ کے آغاز سے پہلے فارم 45 پر تمام ایجنٹوں سے سائن کروا لیے گئے، بہانہ صرف یہ تھا کہ کہیں تاخیر نہ ہو جائے حالانکہ دستخط کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ نارووال اور گجرات میں پولیس کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ میرے لئے تین چار نتائج زیادہ حیران کن تھے، مثلاً مسلم لیگ ن کے صدر ہوتے ہوئے میاں شہباز شریف نے ایک صوبائی حلقے سے یوسف میو کو بمشکل نو سو ووٹوں سے شکست دی تھی، اب ن لیگ کے امیدوار ہزاروں کی لیڈ سے جیت گئے ہیں، اسی طرح رانا تنویر حسین جو صوبائی سیٹ بمشکل دو ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیتے تھے، ان کے بھائی کئی ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیت گئے ہیں، یہ وہی رانا تنویر ہیں، جن کے بارے میں ن لیگ کے ایک اور رہنما میاں جاوید لطیف کئی قصے کہانیاں سناتے ہیں۔ واضح رہے کہ میاں شہباز شریف اور رانا تنویر حسین پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ فارم 47 کے تحت جیتے تھے۔ اسی طرح کا الزام احسن اقبال پر بھی ہے کہ وہ بھی قومی اور صوبائی حلقے سے فارم 47 کے تحت جیتے تھے، جس صوبائی حلقے سے احسن اقبال بمشکل دو ہزار ووٹوں سے جیتے تھے، اب ان کا فرزند کم و بیش پندرہ ہزار کی اکثریت سے جیت گیا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں ہارنے والے اویس قاسم کے تایا چوہدری محمد سرور آف روپوچک اپنی زندگی میں چالیس برس قومی اسمبلی کے رکن رہے، انہیں کبھی شکست نہیں ہوئی تھی، اویس قاسم کے والد غلام احمد متعدد مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن رہے۔ میرے لئے اس سے بھی حیران کن وزیر آباد کی صوبائی نشست ہے، جہاں حامد ناصر چٹھہ کے فرزند احمد چٹھہ 8 فروری کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، انہوں نے صوبائی نشست پر اپنے مخالف امیدوار کو چالیس ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی مگر 21 اپریل کے کرشمے نے احمد چٹھہ کے بھائی فیاض چٹھہ کو ہزاروں ووٹوں سے ہروا دیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کے لئے مزید حیران کن حلقہ چوہدری پرویز الٰہی کا ہے، جہاں ٹھپے لگنے کی ویڈیوز سامنے آئیں مگر الیکشن کمیشن کی طرف سے خاموشی رہی۔ سیاسی تاریخ کو جاننے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی نے جب سے سیاست شروع کی ہے، ان کا صوبائی حلقہ یہی رہا ہے جس میں کنجاہ، منگووال اور شادیوال جیسے قصبے موجود ہیں مگر چوہدری پرویز الٰہی کی عمر بھر کی سیاسی کمائی کو ڈبے بھر کر لٹا دیا گیا، ان کے مقابلے میں چوہدری وجاہت حسین کے فرزند اور ایوب خان فیملی کے نواسے موسیٰ الٰہی کو جتوایا گیا ہے۔ویسے گجرات کے حوالے سے ن لیگی رہنما عابد رضا کوٹلہ نے جو حقائق بیان کئے ہیں ان سے انکار ممکن نہیں مگر مصلحت کے آنگن میں ہمیشہ سچائیوں کو مسل دیا جاتا ہے۔ ابھی الیکشن کمیشن سے پہلی بدنامی نہیں دھل پائی کہ اس نے اپنے ماتھے پر ایک اور داغ سجا لیا ہے، ہماری ہمسائیگی میں ای وی ایم کے ذریعے الیکشن ہوتا ہے، نہ دھاندلی کا شور بلند ہوتا ہے، نہ موبائل اور انٹرنیٹ بند ہوتا ہے، کاش ہمارے ہاں بھی ایسا ہو جائے، ہم کب تک ہر الیکشن میں دھاندلی کا رونا روتے رہیں گے؟ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی

ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ افسوس

جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ

تازہ ترین