• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیبلشمنٹ سے بات کا مقصد ان کو آئینی کردار بتانا ہے، رؤف حسن

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے کہاہےکہ ڈیل کرکے اگر آنا ہوتا تو نو مہینے عمران خان جیل میں نہ بیٹھے رہتے،اسٹبلشمنٹ سے بات کرنے کا مقصد ان کو ان کا آئینی کردار بتانا ہے،ہم اپنے لیے کچھ نہیں مانگ رہے عمران خان اپنی پارٹی کا مینڈیٹ واپس مانگ رہے ہیں،صدر مسلم لیگ نون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا کہ موجودہ اسٹبلشمنٹ کے ہائی پروفائل لیول کے لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں ان کا کوئی پرسنل ایجنڈا نہیں ہے وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ملک مشکلات سے نکلے، میزبان شہزاد اقبال نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار پھر حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے گندم بحران پیدا ہو رہا ہے جس کا خمیازہ ملک بھر کے کسانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے اس سال گندم کی بہترپیداوار ہوئی ہے لیکن پچھلے نو ماہ کے دوران گندم کی درآمد اور حکومت کے پاس وافر گندم ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ملک گندم بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتوں سے ہمیں بات نہیں کرنی ہوتی تو چھ جماعتوں کا اتحاد نہیں بنا ہوتا تین سیاسی پارٹیوں کو عمران خان نے پوائنٹ آؤٹ کیا ہے جنہوں نے ہمارا مینڈیٹ چرایا ہوا ہے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ ہم اینگیج نہیں کریں گے باقی تمام سیاسی پارٹیوں کو اینگیج کر رہے ہیں اور چھ جماعتوں سے ہمارا اتحاد ہے جس میں مزید جماعتیں شامل ہوں گی۔اس وقت جو حکومت ہے وہ صرف مہرے ہیں ان کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے اور نہ ہی یہ قانونی طریقے سے حکومت میں آئے ہیں نہ ہی ان کے پاس طاقت ہے کہ یہ ہمیں کچھ دے سکیں۔ عمران خان نے پہلے ایک کمیٹی بنائی تھی کہ ہم اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اینگیج کرنا چاہتے ہیں لیکن کس کے ساتھ بات کرنی ہے اور کس لیے کرنی ہے وہ بات اس لیے نہیں کرنی ہم نے کہ ہم ان کے ساتھ کوئی ڈیل کر کے آنا چاہتے ہیں ہم ان کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں یہ بتانے کے لیے کہ آئین میں کچھ حدود رکھی گئی ہیں ہر ادارے کے لیے اور اسٹبلشمنٹ پر بھی وہ حدود مقرر ہیں ان حدود میں رہ کر پاکستان میں ہر ادارے کو کام کرنا پڑے گا اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے کیوں کہ جب تک فوج کی سیاست میں مداخلت رہتی ہے جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں۔ شہریار آفریدی کا بیان پارٹی پوزیشن نہیں ہے ۔ اسٹبلشمنٹ سے جو بات ہوگی اس کے مقاصد واضح کر دیئے ہیں دوسرا بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں سے ہماری اینگیجمنٹ جاری ہے ۔ سو فیصد اسٹبلشمنٹ نے ہمارا مینڈیٹ حکومتی پارٹیوں کو دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فوج کی سیاست میں مداخلت ہے جو نہیں ہونی چاہیے ہم چاہتے ہیں ادارہ اور مضبوط ہو لیکن اس رول کو ختم ہونے کی ضرورت ہے اس لیے ہم نے ان کے ساتھ اینگیجمنٹ کا آپشن رکھا ہے۔ہم نے اسٹبلشمنٹ کو بتانا ہے کہ پاکستان اس وقت نازک موڑ پر کھڑا ہے اور ان کی سیاست میں مداخلت نہیں چل سکتی یہ بات اُن پر واضح کرنی ہے کہ یہ معاملات 76 سال سے چل رہے ہیں جو آگے نہیں چل سکتے۔ نون لیگ نے اسٹبلشمنٹ سے بات کی تھی کہ ہمیں نکال کر انہیں لایا جائے جبکہ ہم اسٹبلشمنٹ سے بات کریں گے ان کا آئینی رول بتانے کے لیے پرسوں عمران خان سے بات ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ میں نو مہینے سے یہاں بیٹھا ہوں اور نو سال تک بیٹھنے کے لیے تیار ہوں لیکن میں ڈیل نہیں کروں گا۔ ڈیل کرکے اگر آنا ہوتا تو نو مہینے عمران خان جیل میں نہ بیٹھے رہتے ۔

اہم خبریں سے مزید