• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شرح سود اور اخراجات کم، برآمدات، ٹیکس نیٹ وسیع، نجکاری ضروری، توانائی سستی، ماہرین کی جیو گریٹ ڈیبیٹ میں تجاویز

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیونیوز کی معیشت پر خصوصی ٹرانسمیشن "دی گریٹ ڈیبیٹ" میں ماہرین نےمعیشت کی بہتری کیلئے شرح سود اور حکومتی اخراجات میں کمی، برآمدات میں اضافہ، ٹیکس نیٹ میں توسیع، سرکاری اداروں کی نجکاری کو ضروری اور توانائی کو سستی کرنے کی تجاویز دی ہیں،ماہرین نے اتفاق کیا کہ پاکستان کی معیشت کیلئے آخری لائف لائن ہے، مشکل فیصلے کرنا ناگزیر، دوست ممالک سے اب ’’من سلویٰ‘‘ ملنا مشکل ہے، "دی گریٹ ڈیبیٹ" میں گفتگو کرتے ہوئے بزنس مین عارف حبیب نے کہا کہ ملکی معیشت زیادہ شرح سود سے سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے، ساڑھے آٹھ ہزار ارب کے بجٹ خسارے میں سے ڈھائی ہزار ارب روپے کی کمی صرف شرح سود نیچے لاکر لائی جاسکتی ہے۔ صدر پاکستان بینکس ایسوسی ایشن ظفر مسعود نے کہا کہ ٹیکس مشینری سے ساڑھے تین ہزار ارب روپے کی لیکیج ہوتی ہے، صرف رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل کے شعبوں میں سے دو ہزار ارب روپے کی ٹیکس لیکیج ہے، یہ ٹیکس ہم وصول نہیں کرپاتے یا پھر استثنیٰ دے دیتے ہیں۔ صدر ایچ بی ایل ناصر سلیم نے کہا کہ پاکستان میں جس معیار کی تعلیم دی جارہی اور ہنر سکھائے جارہے ہیں اس سے ہماری افرادی قوت برآمد کرنے کے قابل نہیں رہے گی، کم عمر آبادی کو اچھی تعلیم اور ہنر نہیں دیے تو یہ اثاثہ بوجھ بن جائے گا۔ سی ای او لکی سیمنٹ علی ٹبا نے کہا کہ پاکستانی معیشت میں اگلے دو سال تک بہتری آنے کا امکان نہیں ہے، مہنگی توانائی، زیادہ شرح سود اور زیادہ ٹیکسیشن نے صنعتوں کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ان کا کہناتھاکہ مینوفیکچرنگ کو قابل مسابقت بنانے کیلئے توانائی کی قیمت اور شرح سود کم کرنا ناگزیر ہے۔ ڈائریکٹرگل احمد زیاد بشیر نے کہا کہ برآمدی شعبے سے مستقبل رابطہ، نجکاری میں مقامی سرمایہ کاروں کو ترجیح دی جائے، پاکستان میں پالیسیوں کا تسلسل نہیں ہے، صنعتی شعبہ کیسے منصوبہ بندی کرے؟ سب کو پتہ ہے کہ مسئلہ کیا ہے اور حل کیا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ایف بی آر کے پاس سارا ڈیٹا موجود ہے کہ کس کی کتنی آمدنی ہے، بینکوں میں کتنا پیسہ ہے، کتنی گاڑیاں اور کتنی جائیدادیں ہیں؟ کتنی بار بیرون ملک سفر کیا ہے؟ مگر ایف بی آر اس ڈیٹا پر کوئی کارروائی کرنے پر تیار نہیں ہے۔ سی ای اوسسٹمز لمیٹڈ آصف پیر نے کہا کہ اب معیشت سرحدوں سے ماورا ہوچکی ہے، کاروبار کیلئے سود مند ماحول پیدا کرنا اہم ہے، پاکستان سے ٹیلنٹ کے باہر جانے کا سلسلہ روکنا ہوگا، ہائی اسکلڈ لیبر کے باہر جانے سے برآمدی ویلیو ایڈیشن کم ہوجاتی ہے، اچھی تعلیم اور یونیورسٹیز پر توجہ نہیں دی ہے۔ سی ای او ٹاپ لائن سکیورٹیز محمد سہیل نے کہا کہ ہماری صنعتیں صرف وہی ٹیکس پورا دیتی ہیں جو ایٹ سورس کٹ جاتا ہے، ٹیکسیشن سے استثنیٰ ختم کرنا ہوگا، کرنسی کی قیمت گرنے سے پاکستان کی ایکسپورٹ کبھی نہیں بڑھی۔ لمز کے شعبہ معاشیات کےپروفیسر علی حسنین نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں کمی، صنعتی اصلاحات کرنا ہوگی، ہنگامی اقدامات کرنے سے برآمدات نہیں بڑھ سکتیں، 2013 سے 2017 تک ڈالر کی قدر روکنے کے بجائے بتدریج بڑھانی چاہیے تھی۔ ’’دی گریٹ ڈیبیٹ‘‘ کی میزبانی شاہزیب خانزادہ نے کی۔عارف حبیب (چیئرمین عارف حبیب گروپ) نے کہا کہ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ خراجات کا مسئلہ بہت بڑا ہے، شرح سوچ کم کرنا ہوگی، کیونکہ اس کی قیمت ملک بڑی ادا کر رہا ہے، توانائی کی قیمت کو کم کرنا ہوگا، برآمدات کیلئے ایکسل لوڈ کی شرط ختم کرنا ہوگی، حکومت کو سارے ادارے بیچ دینے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبہ ٹیکس فری ہے جو جی ڈی پی کا بیس فیصد بنتا ہے، ٹریڈرز پر ٹیکس ہے مگر وہاں وصولی کا مسئلہ ہے، ٹریڈرز کا جی ڈی پی میں حصہ 18فیصد ہے جبکہ ٹیکس صرف ایک فیصد دیتے ہیں، پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری لانے میں تین چیزیں رکاوٹ ہیں، پاکستان میں توانائی کی لاگت، شرح سود اور ٹیکس ریٹ خطے کے دیگر ممالک سے بہت زیادہ ہے، ان حالات میں غیرملکی سرمایہ کار کیوں پاکستان آئینگے، مقامی سرمایہ کاربھی اس صورتحال میں نئی سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ عارف حبیب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے میں نے کہا کہ سپر ٹیکس کو کم از کم پانچ فیصد کم کریں، سپر ٹیکس سے 450بلین روپے حاصل ہوتے ہیں حکومت آدھا کردے تو کاروباری سرگرمی بڑھے گی، اتنے سارے ٹیکسوں کے بعد ویلتھ ٹیکس لگایا گیا تو لوگ ملک سے باہر چلے جائیں گے، ٹیکس ریٹ بڑھانے سے نہیں کاروباری سرگرمیاں بڑھانے سے زیادہ ٹیکس حاصل ہوگا۔ کاسٹ میں الیکٹرک سٹی کی جو بات ہوتی ہے نگراں اینرجی مینسٹر نے ایک پرزنٹیشن دی تھی کہ تیرہ سینڈ والی اینرجی نو پر لا سکتے ہیں اس میں کوئی ایڈیشنل سبسڈی کا ایشو نہیں ہوگا کراس سسبڈی ویدھ ڈرا کرلیں ۔ پھر ایکسل لوڈ کا ایشو آیا سیمنٹ اور اسٹیل جو ہے contribution marginپر ایکسپورٹ کر رہی تھیں وہ ایکسل لوڈ کا چارج لگ گیا ان کا ایکسپورٹ بند ہوگیا۔ محمد ناصر سلیم (صدر/ سی ای او HBL) نے کہا کہ ڈیجیٹل معیشت پر کام کرنا ہوگا تاکہ معاشی سرگرمیوں کامکمل پتہ لگ سکے، ااستعداد بڑھانی ہوگی، برآمدات میں ویلو ایڈیشن کرنا ہوگی، حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ اس کا کام پالیسی بنانا ہے، نجی شعبہ ہی جدت لا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سپلائی چین میں نااہلی دیکھنی ہے ہمارا کافی سارا ٹیکسٹائل اور ایگریکلچر بیسڈ ہے ۔ ہمیں وہاں سے شروع کرنے کی ضرورت ہے جس میں کسانوں کیلئے بیج ،فریٹلائز وغیرہ تاکہ جو فصلیں ہماری ہیں وہ بہتر ہوسکیں اور یہ دیکھنا ہے کہ ایکسپورٹ کہاں آئیگی فوڈ سیکورٹی بھی دیکھنی ہے ۔ دس کلو چاول کا بیگ بھی ایکسپورٹ کرسکتے ہیں۔ انرجی کاسٹ بہت اہم ہے جس سے ایکسپورٹ انڈسٹری بلکہ تمام انڈسٹریز سفر کر رہی ہیں اسکو دیکھنے کی ضرورت ہے، انرجی ریٹ کم سے کم ہونگے تو ہم مقابلہ کرسکتے ہیں۔ فوری طور پر مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر سیالکوٹ کی بات کریں تو اب وہاں سے گرافائیڈ کی ہاکیز بن کر جارہی ہیں اور 15سو ڈالر کی ایک ہے۔ زیاد بشیر (ڈائریکٹر گل احمد ٹیکسٹائلز) نے کہا کہ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ ریٹیلرز کا مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 17فیصد لیکن ٹیکس میں صرف ایک فیصد ہے اسے بڑھانا ہوگا، حکومت برآمدی شعبے سے مستقل رابطے رکھنا ہونگے اور بیورو کریسی کو روڑے اٹکانے کیلئے نہیں مدد کیلئے متحرک کرنا ہوگا ، حکومت کو نجی کاری کے سلسلے میں مقامی سرمایہ کاروں کو ترجیح دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تین بڑے مسائل انرجی، ٹیکس ریٹ اور پالیسی ریٹ ہے اور یہ تینوں چیزیں کسی بھی بزنس کو چلانے کی بنیاد ہوتی ہیں۔ بنگلہ دیش پورا ملک ٹیکسٹائل پر چلتا ہے۔ کوریا نے جب ایکسپورٹ کو فوکس کیا تھا تو ان کے وزیراعظم یا صدر ہفتے میں ایک دفعہ ایکسپورٹرز کے ساتھ میٹنگ کرتے تھے۔پی او ایس کو فیل کرنے سے متعلق جو کہا کہ ریٹ اوپر کر دیا ٹرانسمیشن ڈسٹربیوشن کمپنی نے ایسے ریٹ دے دئیے جو بجلی سے بھی مہنگا ریٹ تھا۔انہوں نے کہا کہ اگر کرنسی کی قدر گریگی ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آٹھ دس سال روکدی جائے پھر ایک جھٹکے میں بڑھا دی جائیگی اس میں نہ ٹیکسٹائل کا فائدہ ہوتا ہے نہ معیشت کا ہوتا ہے سب کو نقصان ہوتا ہے۔گھر پر جو خواتین بیٹھی ہیں اور وہ ورک فورس کو استعمال نہیں کیا جارہا ہے اگروہ بھی کام کریں گی تو بہت سے مسائل حل ہو جائینگے۔ حکومت تاجروں ٹیکس وصول کرے ہڑتالوں سے نہیں ڈرنا چاہئیں، تاجروں کو پندرہ دن مارکیٹس بند کردیں یہ خود آئینگے کہ دوبارہ کھول دو، مارکیٹس بند ہوتی ہیں تو لوگ اسی دکان پر جائینگے جو ٹیکس دے رہا ہے، تاجروں کو پچھلے معاملات پر ایمنسٹی اسکیم دیدینی چاہئے، حکومت کے پاس لوگوں کا مکمل ڈیٹا موجود ہے مگر ایف بی آر نے ابھی کچھ نہیں کیا، حکومت کو بھی احساس ہوگیا ہے اب آخری موقع ہے اس لیے ٹیکس چوری پر کارروائی ہوگی۔ آصف پیر (سی ای او / ایم ڈی سسٹمز لمیٹڈ) نے کہا کہ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ مالیاتی خسارے کو طویل مدتی بنیادوں پر کم کرنے کیلئے نوجوانوں پر توجہ دینی ہوگی، تعلیم پر خرچ کرنا ہوگا، ڈیٹا کی کمی کو دور کرنا ہوگا تاکہ درست سمت کا تعین ہوسکے، حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ کاروبار کیلئے سود مند ماحول پیدا کرنا اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس جو سب سے بڑی کمی ہے وہ ڈیٹا کی ہے جو آئی ٹی انڈسٹری کا بھی فیکچوئل ڈیٹا موجود نہیں ہے کہ آئی ٹی کی سورسز کیا ہیں ایکسپورٹ کی سورس ہے ہم جیسی کمپنی جتنی بھی کمپنی کہہ لیں آپکے پاس کوئی نمبر موجود ہے پھر اس انڈسٹری میں کتنے لوگ ہیں جو کام کرتے ہیں ۔ ایک بلین ڈالر آئی ٹی ایکسپورٹ کرنے کیلئے آپ کو پچیس ہزار سے تیس ہزار اچھا انجینئر چاہیے ایک بلین کال سینٹر یا بی پی او ایک بلین ڈالر کال سینٹر یا بی پی او کیلئے آپ کو ایک لاکھ بندہ چاہیے یہ اعداد و شمار حقائق پر مبنی ہیں جو بدل نہیں سکتے۔ محمد علی ٹبا (سی ای او لکی سیمنٹ ) نے کہا کہ حکومت کو شارٹ کٹ حکمت عملی ترک کرنا ہوگی، اور ٹیکس نیٹ وسیع کرنا ہوگا، آئی ٹی خدمات کے شعبے اور زراعت سے جڑی برآمدات میں بہت کام کیاجاسکتا ہے، نجی کاری ہونی چاہیے لیکن یہ مائنڈ سیٹ نہیں ہونا چاہیے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مقامی سرمایہ کاروں پر فوقیت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی 9فیصد ہے،خطے کے دیگر ممالک کا جی ڈی پی 15 سے 18فیصد ہے، حکومت کو ریونیو بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے، نقصان میں جانے والے پبلک سیکٹراداروں کی جلد از جلد نجکاری کی جائے، ایس او ایز کو دیا جانے والا پیسہ بچے گا تو سوشل ویلفیئر میں استعمال ہوسکتا ہے، آئی ایم ایف سوشل سیکٹر کو سبسڈی دینے سے منع نہیں کررہا صرف یہ شر ط ہے کہ کوئی بھی سبسڈی بجٹ کے ذریعہ دی جائے، معیشت کی بہتری کیلئے ٹیکس نیٹ میں اضافے کی ضرورت ہے، وہ لوگ جو پہلے ہی ٹیکس ادا کررہے ہیں ان پر مزید ٹیکس لگانا حل نہیں ہے، پاکستان میں ہر حکومت شارٹ کٹ حکمت عملی اختیار کرتی ہے، ہر حکومت کی توجہ اپنی پانچ سالہ مدت کی کارکردگی پر ہوتی ہے، ملک کو چلانے کیلئے طویل مدتی پلان اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ انٹرسٹ ریٹ کی وجہ سے انڈسٹری کی جو سکت ہے وہ بالکل ہی سکڑ گئی ہے۔اتنی مہنگی بجلی اور گیس دے رہے ہیں تو کہاں سے مقابلہ کرینگے آپکا جو انٹرسٹ ریٹ ہے وہ بائیس فیصد ہے جن سے مقابلہ کیا جاتا ہے انڈیا چائنہ بنگلہ دیش وہاں پر آٹھ سے دس فیصد ہے۔ گیس کی قیمت دس ڈالر پر آچکے ہیں پاکستان میںجبکہ دنیا میں چھ ڈالر پر مل رہی ہے بجلی تقریباً سولہ ، اٹھارہ سینٹ پر آچکے ہیں جبکہ دنیا میں چھ سے آٹھ سینٹ پر ہے۔ ہمیں نقصان کر کے ایک حد سے زیادہ مال نہیں بیچ سکتے۔ پرائیوٹائزیشن کی بات کریں تو پی آئی اے، ریلوے نقصان میں ہے بہت پوٹیشنل ہے کہ وہ ٹرن آراؤنڈ ہو کر منافع بخش ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس مائنڈ سیٹ کو چینج کرنا ہوگا کہ باہر سے کوئی گورا آئے گا وہ ہی صحیح کرسکتا ہے اس مائنڈ سیٹ کو چینج کرنے کی ضرورت ہے پاکستانی بزنس اگر کوئی ایسٹ خریدتے ہیں پاکستان میں تو فائدہ پاکستان کو ہی ہے۔جبکہ فارنر جو پرافٹ لے کر جاتا ہے وہ دوبارہ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرتا وہ منافع لے جا کر کہیں اور سرمایہ کاری کرتا ہے۔ ٹاپ لیول پر اس طرح کی رلائزیشن ہونی چاہیے۔ ظفر مسعود (چیئرمین پاکستان بینکس ایسوسی ایشن) نے کہا کہ حکومت کے پاس یقینا اب آخری موقع ہے، اب دوست ممالک سے مدد نہیں آئے گی، اور سرمایہ کاری پر توجہ دینا ہوگی، مالیاتی خسارہ کم کرنا ہی حل ہے، مجموعی قومی پیداوار 93فیصد ہم خود کھا جاتے ہیں ہمیں ڈالر کھانا بند کرنا ہوگا، نجی کاری کریں لیکن ریگولیٹرز کو مضبوط بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی حل شارٹ ٹرم نہیں ہے ۔ کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ علامت ہے کاذ فزیکل اکاؤنٹ ہے ہمیں فزیکل اکاؤنٹ پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے حساب سے امپورٹ کم ہے یہ بات صحیح ہے مگر ہم جو 93 فیصد جو پروڈیز کرتے ہیں جی این پی ہمارا جو گروس نیشنل پراڈکٹ ہے اس کو 93 فیصد ہم استعمال کرلیتے ہیں اس مسئلہ کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے ۔شارٹ ٹرم حل اگر کوئی ہے تو وہ ترسیلات زر کا ہے۔چیئرمین پاکستان بینکس ایسوسی ایشن ظفر مسعود نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس ریٹ پورے خطے میں سب سے زیادہ ہے، یہ تنقید درست ہے کہ بینکس پرائیویٹ سیکٹر کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے، بینک اگر گورنمنٹ کو پیسے نہیں دیں تو فزکل خسارہ کہاں سے فنڈ کریں گے۔ علی حسنین (پروفیسر معاشیات LUMS) نے کہا کہ آمدن میں اضافے کی بہت گنجائش ہے، حکومت کو اخراجات بھی کم کرنا ہونگے، اقتصادی طور پر ہنگامی صورتحال ہے، صنعتی پالیسی اصلاحات کرنی ہونگی، قابلیت مقابلے سے ہی آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم بات کر رہے تھے فزیکل ڈیفسٹ کی تو ہم سب متفق تھے اس بات پر کہ مسائل کیا ہیں میں اس بات پر ظفر مسعود سے متفق ہوں کہ وہ بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن یہ بڑا مسئلہ نہیں ہے ایکسٹرینل سیکٹر میں درستگی لانا انڈیسٹری پالیسی میں اصلاحات کرنا میرے لیے معیشت کے سب سے بڑے مسائل میں سے ہے۔ ہم ایک مہنگے ڈالر سے ڈرتے ہیں پاکستان کا ڈیلوپمنٹ ماڈل کو مہنگا ڈالر سوٹ کرتا ہے۔ ہمارا ایکسپورٹ ٹو جی ڈی پی نو دس فیصد ہے اور امپورٹ اٹھارہ انیس فیصد ہے یہ جو رینج ہے یہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں بالکل ٹھیک ہے ہم امپورٹ ضرورت سے زیادہ نہیں کر رہے لیکن ہم ایکسپورٹ کم کر رہے ہیں۔ جب تک آپ ایکسچینج ریٹ پالیسی کو تسلسل کے ساتھ ایکسپورٹر کے حق میں نہیں لائیں گے تب تک فائدہ نہیں ہوگا۔ مشرف کے زمانے میں ڈالر کو ساٹھ روپے پر رکھا جس دوران ہمارا ایکسپورٹ ٹو جی ڈی پی ریشو سولہ فیصد سے باہر فیصد پر آیا چونکہ ہم نے نارمل ٹرمز پر رکھا ہوا تھا اس زمانے میں انفلو زیادہ ہو رہے تھے اور ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ جو کہ ایکسپورٹ سولہ فیصد پر اگر آج اگر کوئی دینے کو تیار ہوجائے تو ہم سولہ فیصد سے ہم خود بگاڑ لے کر آئے تو بارہ فیصد پر آیا اسحاق ڈار کے زمانے میں اسی طرح کا تیرہ فیصد سے آٹھ فیصد تک آیا اسحاق ڈار کے زمانے میں نارمل ٹرمز میں ڈالر کو فکس کیا ہوا تھا رئیل ٹرمز کے اندر چھبیس فیصد آپ نے روپے کو بڑھایا ڈالر کو سستا کیا ہوا تھا۔ محمد سہیل (سی ای او ٹاپ لائن سیکیورٹیز) نے کہا کہ حکومت کو سنجیدگی سے آمدن میں اضافے پر غور کرنا ہوگا، ٹیکس جمع کرنا بڑا مسئلہ ہے، اور اسی کی وجہ سے تمام سائل پیدا ہوتے ہیں، حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ تین سال کا آئی ایم ایف کا پروگرام ہوگا اب آئیڈیلی آئی ایم ایف بھی اصرار کرے گا اور ہمیں کرنا بھی چاہیے ہم نے اس کے پھل دیکھ لیے کے کرنٹ اکاؤنٹ یا تو سر پلس ہو آئیڈیلی یا بہت ہی کم ہو ہم نے پچھلے سال جو کرنٹ اکاؤنٹ جس طریقے سے بھی روکا کرنسی ایجنسی کے تھرو اب اس کا فائدہ یہ ہوا ہے جو شاید لوگون کو نہیں پتہ دو سال پہلے جو آئی ایم ایف کی رپورٹ آئی تھی جس میں لکھا تھا اگلے تین سال میں پاکستان کو 75 بلین ڈالر کی ڈیٹ ری پیمنٹ کرنی ہے۔ پچھلے ایک دو سال میں ہم نے ڈیڈ ری پے بھی کیا اپنی معیشت کو سیکڑا ریزو کو نیچے کیا ۔ اب آئی ایم ایف کی رپورٹ کہہ رہی ہے اگلے تین سال مین ہمیں پچاس بلین ڈالر دینے ہیں۔ ہمارا جو ایکسٹرنل ڈیڈ کریٹ ہوتا ہے وہ کریٹ کرنٹ اکاؤنٹ سے ہوتا ہے۔ تو آئیڈیلی ہمیں اگلے تین سال میں ایکسپورٹ بڑھا کر یا امپورٹ کم کر کے کرنٹ اکاؤنٹ کو یا تو زیرو کرنا ہے یا زیادہ سے زیادہ جی ڈی پی کا ایک فیصد کرنا ہے جو اس سال بھی ہم نے کیا ہے ۔کرنسی کے گرنے سے شاید ایکسپورٹ پاکستان میں نہیں بڑھی مگر امپورٹ ضرور کم ہوئی ہے۔ اگر ہائی کوالٹی ایکسپورٹ حکومت کو سپورٹ کرنی ہے تو جس طرح آصف نے کہا وہ ہے ٹیکنالوجی جہاں پر آپ کا conversion اَسی نوے فیصد ہے ٹیکسٹائل میں کوئی کہتا ہے تیس کوئی چالیس کوئی پچاس فیصد کہتا ہے ہم نے دیکھا 2022 کی جو ایکسپورٹ بتیس ارب تھی وہ اس لیے تھی کہ اَسی ارب کا امپورٹ تھا جب آپ کرنسی کو مصنوعی طریقے سے روکیں گے اور امپورٹس کو کھول دیں گے تو پھر آپ کی ایکسپورٹ بھی بڑھ جاتی ہیں۔

اہم خبریں سے مزید