دور جتنا مرضی جدید ہوجائے ،ہماری کچھ چیزیں ، باتیں اور عادتیں کبھی نہیں بدلیں گی، مثلاًمہمان کی دعوت پر کبھی دال یا سبزی نہیں پکے گی، چکن یا مٹن لازمی ہے ، بے شک مہمان سبزی کو ترستا رہ جائے۔ سالگرہ پر کیک ہی کاٹا جائے گا، کبھی ایسا دیکھنے کو نہیں ملے گا کہ کسی نے پیزے پرموم بتی جلائی ہو۔ جنازوں میں کٹا ہوا فروٹ ہی ملے گا، حالانکہ ثابت کیلا رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں!گٹکیں کھجور کی ہی پڑھی جائینگی۔حالانکہ اور بھی پھل گٹکوں کی صلاحیت رکھتے ہیں۔محبت کا اظہارI love you سے ہی ہوگا، I like you سے بات نہیں بنے گی۔جوئیں انگوٹھے پر ہی رکھ کر ’ٹک ‘ کی جائیں گی حالانکہ باقی انگلیوں کے ناخن بھی یہ فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں! بالآخر شوہر ہی ’سوری‘ کرے گا....اسے ہی کرنی چاہئے۔گلا خراب ہونے کی صورت میں ڈاکٹر سے یہ ازلی سوال ضرور پوچھا جائے گاکہ’کوئی پرہیز؟‘ .... اور ڈاکٹر بھی ازلی جواب دے گا کہ مصالحے والی اور کھٹی چیزوں سے پرہیز کریں۔ ڈاکٹر سے علاج کرایا جائے گا، گولیوں کا ڈھیر خریدا جائے گا اور تین دن بعد گولیاں ویسے کی ویسے ہی پڑی رہ جائیں گی۔جوس کے ڈبے کا آخری سپ وہی تصور ہوگا جب ’گڑ گڑ‘ کی آواز آئے گی حالانکہ بعض اوقات یہ آواز بلاوجہ بھی آجاتی ہے۔مہمان اگر تین گھنٹے بیٹھے گا تو رخصت ہوتے ہوئے دروازے میں چھ گھنٹے کا ٹائم مزید لے گا۔شادی میں سلامی دیتے وقت لفافے پر اپنا اور فیملی کا تعارف جلی حروف میں لکھا جائے گا۔گھر میں بیس تالے لگانے کے باوجود سائیکل ضرور چوری ہوگی۔ چھ خربوزوں میں سے ایک ضرور پھیکا نکلے گا۔گھر میں بے شک کاٹن بڈ موجود ہو، کان میں گاڑی کی چابی ضرور پھیری جائے گی۔ٹوتھ پکس سامنے بھی پڑی ہو پھر بھی ماچس کی تیلی سے خلال کیا جائے گا۔بیگم کی عدم موجودگی میں فریج میں پڑی پانی کی بوتل منہ لگا کر ہی پی جائے گی۔شیمپو کے اختتام پر شیمپو کی بوتل میں پانی ڈال کر غسل کیاجائے گا۔یو پی ایس کی بیٹری میں اُس وقت تک پانی نہیں ڈالا جائیگا جب تک چارجنگ کا ٹائم آدھا گھنٹہ نہ رہ جائے۔ اپنے ہر کم تر رشتہ دار کو پینڈو کے لقب سے نوازا جائے گا۔ رات کو گھر کا جو بھی فرد پانی پینے کیلئے اٹھے گا، سب کی آوازیں آنا شرو ع ہوجائیں گی’’مینوں وی اک گلاس دئیں‘‘خراب پھل، خراب کھانا اور سڑی ہوئی روٹی ہمیشہ فقیر کو پیش کی جائے گی۔گھر میں تمام تر بے برکتی کا ذمہ دار شوہر حضرات کو ٹھہرایا جائے گا۔تولئے ہمیشہ باتھ روم سے غائب ہوں گے اور آوازیں دے دے کر منگوانے پڑیں گے۔بیویاں ہمیشہ شکوہ کرتی رہیں گی کہ ’’مجھے تو ٹی وی دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا‘‘۔گھر سے ہمیشہ کسی نہ کسی بچے کا فون آتا رہے گا کہ ’’بابا انٹرنیٹ نہیں چل رہا‘‘۔بجلی کا بل ہمیشہ اُس وقت آئے گا جب پیسے ختم ہوچکے ہوں گے۔گھر میں جب بھی چکن بنے گا، اُسی دن ختم ہوجائے گا، بینگن بنیں گے تو ایک ہفتے تک فریج میں پڑے رہیں گے۔بجلی تین چار گھنٹوں کیلئے جائے گی تو طعنے شوہروں کو پڑیں گے۔جب بھی خاوند ڈیڑھ درجن انڈے لے کر آئیں گے، ایک لازمی ٹوٹ جائے گا۔
سگریٹ پینے والے شوہروں کو ہمیشہ ایش ٹرے کی بجائے کپ میں سگریٹ بجھانے پر سوسو باتیں سننا پڑیں گی۔اتوار کے دن لازماً گھر میں کوئی نہ کوئی فساد ہوگا۔بیویوں کو ہمیشہ لڑائی کے دوران پچیس سال پرانے شکوے یاد آئیں گے۔ پرانے کپڑے غریبوں کو دیتے وقت 10 میں سے 9جوڑے اپنے آپ کو ہی پسند آجائیں گے۔گھر میں بے شک ہر وقت سر درد کی گولیوں کے انبار لگے رہتے ہوں، عین اس وقت جب سر درد ہوگا پتا چلے گا کہ گولیاں ختم ہو چکی ہوں گی ۔رات کو اکثر موبائل چارجنگ پر لگا کرصبح پتا چلے گا کہ پن ٹھیک سے نہیں لگی تھی۔گاڑی کے ڈیش بورڈ میں پڑے خیراتی سکے اکثر اپنے ہی کام آئیں گے۔عین کھانے کے وقت باتھ روم جانا یاد آئے گا۔رات بستر پر لیٹتے ہی بیگم کی آواز آئے گی’صبح بل جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے‘۔بیگم کو اگر دو ہزار روپے کی ضرور ت ہو اور آپ کے پاس پانچ ہزار کا نوٹ ہو تو ان شاء اللہ رات کو آپ کو یہی اطلاع ملے گی کہ کچھ اور ضروری چیزیں بھی منگوانی تھیں لہٰذا پورے پانچ ہزار ختم ہوگئے ہیں۔بات ختم۔گھر میں جس دن مقدار سے زیادہ چکن اور پھل آئینگے اسی دن اتفاقاً سسرال والے بھی آجائینگے۔ شیونگ کریم عین اس دن ختم ہوگی جب آپ کو ضروری میٹنگ میں جانا ہوگا، مجبوراً شیمپو سے کام چلانا پڑے گا۔شوہر وں کو ہمیشہ یہ جملہ سننے کو ملتا رہے گا’کچھ مستقبل کے بارے میں بھی سوچیں۔ شوہروں کو کبھی عقل نہیں آسکے گی کہ کون سی پلیٹ میں سالن ڈالتے ہیں اور کون سی پلیٹ میں روٹی۔بچوں کی تربیت ٹھیک نہ ہونے کا ذمہ دار ہمیشہ خاوند ہوگا۔عید کے اگلا روز نانی کے گھر کے لیے مخصوص ہوگا۔سالا جب بھی آپ کی بائیک لے کر جائے گا پٹرول ختم کرکے آئے گا۔
پردوں پر لگے داغ کا شک ہمیشہ شوہر پر کیا جائے گا۔ماں باپ کی لڑائی میں بچے ہمیشہ ماں کا ساتھ دیں گے بے شک وہاں سے تھپڑ کھا کرآئے ہوں۔گھر میں معاشی پریشانی کی وجہ شوہر کی دین سے دوری قرار دی جائے گی۔بجلی جانے کی صورت میں پورا محلہ اس بات کا منتظر رہے گا کہ کوئی دوسرا جاکر بجلی کے دفتر میں شکایت درج کرائے۔آپ بے شک سبزی منڈی جاکر جتنی مرضی سستی سبزی لے آئیں گھر آ کرپتا چلے گا کہ ریڑھی والا اس سے بھی زیادہ سستی دے رہا تھا۔فریج میں رکھے پھل خراب ہوجائیں گے لیکن کوئی کھانے کی زحمت نہیں کرے گا۔صبح سویرے گھر کی بیل ہوگی تو ساری رات کے جاگے ہوئے افراد یکدم ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے خراٹے لینے لگیں گے۔صبح سویرے باہر والے گیٹ کی چابی کھو جائے گی۔دھلنے کے بعد جرابیں پوری تگ و دو کے بعد ڈھونڈنی پڑیں گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)