• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال مئی کا پہلا دن ہمیں دنیا بھر میں قوموں کی ترقی اور خوشحالی کیلئے محنت کشوں کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کی متحرک افرادی قوت ہماری ترقی کے پیچھے اصل قوت ہے۔ حکومت کا تیز رفتار، جامع اور پائیدار ترقی کا ہدف صرف ہماری محنتی اور پرعزم افرادی قوت کی وجہ سے حاصل ہو رہا ہے۔ زندگی کی چمک دمک میں اگر کسی کا مرکزی کردار ہے تو وہ پاکستان کا محنت کش ہے۔ یوم مئی، جسے لیبر ڈے یا مزدوروں کا عالمی دن بھی کہا جاتا ہے، یہ ایک تعطیل ہے جسے دنیا کے بہت سے ممالک میں تسلیم کیا جاتا ہے، بشمول امریکہ، کینیڈا،یورپ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک۔ لیکن یہ دن ہم کیوں مناتے ہیں، اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ یوم مئی کی جڑیں 19ویں صدی کے اواخر کی مزدور تحریک میں ہیں۔ امریکہ میں یکم مئی کی چھٹی پہلی بار 1886ء میں دی گئی۔ اسی سال یکم مئی کو ملک بھر میں لاکھوں مزدوروں نے کام کے بہتر حالات اور کم اوقات کار کا مطالبہ کرتے ہوئے ہڑتال کی۔ ہڑتال پہلے تو پرامن تھی، لیکن 4 مئی کو شکاگو میں مزدوروں کے مظاہرے میں ایک بم دھماکہ ہوا، جس میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس واقعہ نے مزدور تحریک کو تقویت بخشی اور یوم مئی مزدوروں کی یکجہتی اور احتجاج کے دن کے طور پر منانے کا باعث بنا۔

یکم مئی مزدوروں کیلئے اکٹھے ہونے اور بہتر کام کے حالات، منصفانہ اجرت اور مزدور کے دیگر حقوق کا مطالبہ کرنے کا دن بن گیا ہے۔ بہت سے ممالک میں، مزدور یونینیں اور دیگر مزدور تنظیمیں مزدور تحریک کی کامیابیوں کا جشن منانے اور کام کے حالات میں مزید بہتری لانے کیلئے پریڈ، ریلیاں اور دیگر تقریبات کا انعقاد کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پسماندہ طبقے زیادہ شراکتی، منصفانہ اور جامع حکمت عملی کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہتر انسانی حقوق کے لئے پیرامیٹرز قائم کرے، خاص طور پر لیبر پالیسیوں کو مزید بہتر کرے اور ان پر 100فیصد عملدرآمد کروائے۔ پاکستان کی تاریخ، فوجی آمریتوں اور بکھری ہوئی جمہوری حکومتوں کی طرف سے نشان زد، مزدوروں کے مسلسل جبر کو ظاہر کرتی ہے۔کچھ مثبت اقدامات کے باوجود، حکمران اشرافیہ کے پلوٹوکریٹس اور کارپوریٹوں کے ہاتھ میں رہتی ہے، جو لیبر پالیسیوں اور صنعتی تعلقات کے آرڈیننس میں جھلکتی ہے۔لیبر قوانین کا مشاہدہ کریں تو کہیں نہ کہیں صنعتکاروں کو دیا گیا تحفظ نظر آتا ہے۔ آخر کیوں ؟

پاکستان میں 1955ءسے 2018ءتک پھیلی چھ بڑی لیبر پالیسیوں کا مقصد مزدوروں کیلئے سماجی خلا کو دور کرنا اور معاشی مساوی انصاف اور جمہوری اقدار کو یقینی بنانا تھا۔ بدقسمتی سے ان پالیسیوں پر رتی برابر عمل نہ ہوا۔ پاکستان کی تخلیق کا مقصد نوآبادیاتی ہندوستان کی مسلم اقلیت کیلئے ایک آزاد جمہوری ریاست فراہم کرنا تھا1951میں پاکستان نے ILO کنونشنز کی توثیق کی1969ءمیں اعلان کردہ پالیسیاں ILO کنونشنز کیساتھ منسلک تھیں لیکن بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کی 1972 ءکی لیبر پالیسی ترقی پسند تھی، لیکن اس کے بعد کی فوجی اور جمہوری حکومتوں نے اکثر مزدوروں کے حقوق کو پامال کیا۔سندھ کی 2018 کی پالیسی نے مزدوروں کے حقوق کو جمہوری طریقے سے آگے بڑھایا۔ آج خواتین مردوں کی اجرت کا نصف کماتی ہیں، اور زرعی کارکنوں کو کم از کم اجرت سے خارج کر دیا جاتا ہے۔اصلاحات کا فقدان عدم مساوات میں معاون ہے اور ایک غیر منصفانہ نظام کو برقرار رکھتا ہے۔ کم اجرت اور کام کے خراب حالات کی وجہ سے غیر یقینی کام کا عروج غیر متناسب طور پر کمزور گروہوں کو متاثر کرتا ہے۔سرکاری اور غیر سرکاری شعبے کی یونینوں کو دھمکیوں، پنشن کے حقوق کی کمی اور یونین بنانے کے حق سے انکار کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مزدوروں کو کم از کم اجرت دی جاتی ہے، بغیر معاوضے کے اوور ٹائم کرنے کا پابند کیا جاتا ہے، اور سماجی تحفظ اور پنشن کے فوائد کی کمی بھی ہے۔آئین پاکستان چائلڈ لیبر کو ممنوع قرار دیتا ہے اور انجمنیں بنانے کی آزادی کو برقرار رکھتا ہے، پھر بھی اس پر عمل درآمد ناکافی ہے۔انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ (اسٹینڈنگ آرڈرز) آرڈیننس 1968 اور پنجاب شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ آرڈیننس 1969 جیسی قانون سازی ورکرز’ کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک بنیاد فراہم کرتی ہےمگر پنجاب ، سندھ، بلوچستان یا خیبرپختونخوا ہر جگہ مزدوروں کا استحصال کیا جارہا ہے۔مزدوروں کے معاشی قتل عام پر ہر شخص خاموش ہے۔ اقتصادی ترقی کے ساتھ لوگوں کی فلاح و بہبود پر توجہ دینابھی بہت ضروری ہے۔توجہ ٹریڈ یونینوں کو مضبوط بنانے، یونین کے حقوق کے قیام اور توسیع کی پیش رفت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر ہونی چاہئے۔ 1926ء کے ٹریڈ یونین ایکٹ کو جدید بنانےکی ضرورت ہے اور مزدوروں کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کیلئے پارلیمنٹ کو متحرک کرنا چاہیے۔پارلیمان اور صوبائی حکومتوں کو مزدور دشمن قوتوں کو لگام دینا ہوگی۔ آخر میں سندھ حکومت کو بینظیر مزدور کارڈ کی کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔

تازہ ترین