امریکہ میں چالیس سے زائد معروف یونیورسٹیوں میں غزہ میں جاری جنگ کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شدت آ گئی ہے جہاں طالب علم اپنے اساتذہ کے ساتھ خیمے لگا کر بیٹھے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل سے فوجی تعلقات فوری طورپر ختم کیے جائیں اور غزہ کی صحت اور تعلیم کے مسائل میں فوری مدد کی جائے۔امریکی حکومت نے نو سو سے زائدپرامن طالب علموں اور اساتذہ کو گرفتار کر لیا ہے اور بعض کو یونیورسٹیوں سے بھی نکال دیا گیا ہے۔طالب علموں کو یونیورسٹیوں کی جانب سے ایک تحریری فار م بھی دیا گیا ہے اور ان سے ایسے بانڈز پر دستخط کروائے جا رہے ہیں کہ وہ آئندہ ایسے احتجاجوں میں شامل نہیں ہوں گے۔یہ طالب علم مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں ان ڈیفنس کنٹریکٹرز اورانکی مالی معاونت کرنے والے اداروں کے بارے میں بتایا جائے جو غزہ میں نسل کشی کیلئے ہتھیار مہیا کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے کہ جہاں پرائیویٹ ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کو ریاست یہ ضمانت فراہم کرتی ہے کہ وہ جتنے بھی ہتھیاراور بم بنائیں گی، وہ ریاست نہ صرف خرید لے گی بلکہ ان ہتھیاروں کے ایکسپائر ہونے کی شکل میں بھی ریاست معاوضہ دینے کی پابند ہو گی۔
آج کل اکثر دانشور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں جاری احتجاجی مہم کاساٹھ کی دہائی میں شروع ہونے والی تحریک سے موازنہ کر رہے ہیں گو کہ ہمیں ابھی اس بات کا ادراک نہیں کہ آیا موجودہ احتجاجی مہم کے نتیجے میں غزہ میں جنگ بندی ہو سکتی ہے کہ نہیں۔لیکن یہ احتجاجی مظاہرے ساٹھ کی دہائی میں ہونے والے مظاہروں سے بہت مشابہت رکھتے ہیں جب امریکہ نے ویت نام اور جنوب مشرقی ایشیا میں تباہی اور بربادی کا ہوشربا مظاہرہ کیا تھا۔اس وقت بھی امریکہ میں عوام دوست دانشوروں جن میں نوم چومسکی ، ڈاکٹر اقبال احمد ، ایڈورڈ سعیداور ہاورڈ زن نے امریکی معاشرے میں ویت نام کی جنگ کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جو بالآخر امریکہ کی ویت نام میں شکست پر ختم ہوئی۔ یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکہ جیسے خواندہ معاشرے میں ریاستی مشینری پوری کوشش کرتی ہے کہ ان عوامی دانشوروں کی آواز عام آدمی تک نہ پہنچ سکے تاکہ امریکہ کو اپنا عالمی کردار تبدیل کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے جیسے ویت نام کی جنگ میں امریکی عوام نے ان دانشوروں کی ہاں میں ہاں ملا کر امریکہ کو ویت نام جنگ ہارنے پر مجبور کر دیا۔امریکہ میں ریاستی مشینری کے تسلط کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ویت نام کے خلاف جنگ کے دوران امریکی حکومت نے ڈاکٹر اقبال احمدپر ہنری کسنجر کو اغوا کرنے کی سازش کا الزام عائد کیاتھا ۔ان دانشوروںمیں نوم چومسکی آج بھی پورے جوش و خروش سے امریکی خارجہ پالیسی کے سب سے بڑے ناقد ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پالیسی دنیا کے امن اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ ویت نام کی جنگ میں بڑے امریکی عوام دوست دانشور بن کر ابھرے ۔ اس لیے آج بھی تیسری دنیا اور خاص طور پر لاطینی امریکہ کے ممالک میں ان کی جدوجہد کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے۔اس کے برعکس امریکی میڈیا کے اس غیر محسوس تسلط کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نوم چومسکی جن کا شماردنیا کے سب سے بڑے مفکرین میں ہوتا ہے، انکا کالم امریکہ کے بڑے اخباروں میں اشاعت کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔انہوں نے راقم کوایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ساٹھ کی دہائی میں جب انہوں نے ویت نام کی جنگ کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کا آغاز کیا توانہیں اور ڈاکٹر اقبال احمد کو کئی مواقع پر ایسے تین آدمی بھی میسر نہیں ہوتے تھے جن کو احتجاج کیلئے تیار کیا جائے۔ وہ اکثر و بیشتر اتوار کے دن چرچ کے باہر لوگوں کواس جاری جدوجہد کے اسرارورموز کے بارے میں آگاہ کرتے تھے اور یوں بالآخر اس جدوجہد کے نتیجے میں ویت نام کی جنگ کا خاتمہ ہوا ۔نوم چومسکی کہتے ہیں کہ یہ مزاحمتی تحریکیں ویت نام جنگ کے بعد اور منظم ہوگئیںجس سے لاطینی امریکہ میں امریکی تسلط کے خلاف عوامی تحریکیں چلانے میں انہیں بہت تقویت ملی۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ امریکہ کی ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی میں امریکی یونیورسٹیوں کا کلیدی کردار رہا ہے اور اس سلسلے میں فکری اور علمی حوالے سے ایم آئی ٹی یونیورسٹی کو امریکہ کی سب سے بڑی ترقی پسندیونیورسٹی قرار دیا جاتا ہے اور یہاں کے اسکالرز ، پروفیسرزاور طلباامریکہ کے عالمی ، عسکری اور استعماری کردار کے بڑے ناقد رہے ہیں۔موجودہ احتجاجی مہم میں بھی ایم آئی ٹی کے اساتذہ اور طلبا بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ طالب علموں کی مزاحمتی تحریک امریکہ کے جنگ کے ذریعے عالمی سامراجیت کے تصور کی راہ میں کس حد تک حائل ہو سکتی ہے اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے مفادات کے تحت چلنے والی امریکی خارجہ پالیسیوں میں کس قد ر تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ طالب علموں کی اس تحریک نے بائیڈن کی بطور صدر مقبولیت پر شدید ضرب لگائی ہے۔ اسی لیے جب صدر بائیڈن سے ان مظاہروں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے اسے یہود مخالف مظاہرے قرار دیتے ہوئے بظاہر نظرا ندازکر دیا ۔بعض مبصرین بائیڈن کی گرتی ہوئی ساکھ سے اس بات کا خطرہ محسوس کر رہے ہیں کہ بائیڈن کی شکست کی وجہ سے صیہونیت کے سب سے بڑے مبلغ ڈونلڈ ٹرمپ کہیں دوبارہ اقتدار میں نہ آ جائیں۔