• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیکھم میں مظاہرین کی جانب سے پناہ گزینوں کی کوچ منتقلی ناکام بنا دی گئی، درجنوں افراد گرفتار

لندن (پی اے) پیکھم میں مظاہرین کی جانب سے پناہ گزینوں کے کوچ کی منتقلی کو ناکام بنانے کے بعد درجنوں افراد گرفتار کر لئے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ڈورسیٹ کے بیبی اسٹاک ہوم بارج میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی طے شدہ منتقلی پر جنوبی لندن میں احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے دوران 45افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کارکنوں نے برطانوی وقت کے مطابق تقریباً 08:40 بجے پیکھم کے ایک ہوٹل میں ایک کوچ کو گھیر لیا۔ تقریباً 15:00بجے اسے ہوٹل سے مسافروں کے بغیر بھگا دیا گیا۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب بدھ کو 711افراد چھوٹی کشتیوں میں انگلش چینل عبور کرتے ہوئے پائے گئے، جو اس سال اب تک ایک ہی دن میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ میٹ پولیس نے کہا ہے کہ احتجاج کے دوران اس کے کچھ افسران پر حملہ کی اطلاع ہے۔ گرفتاریاں ہائی وے میں رکاوٹ ڈالنے، پولیس کے کام میں رکاوٹ اور پولیس پر حملہ سمیت دیگر جرائم میں کی گئیں۔ میٹ نے کہا کہ ایک شخص کو نسلی طور پر بگڑنے والے پبلک آرڈر جرم پرگرفتار کیا گیا تھا لیکن یہ شخص احتجاجی گروپ کا حصہ نہیں تھا۔ ہوم آفس کے ترجمان نے مظاہرین کے رویئے کو دھمکی آمیز اور جارحانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہوٹلوں کے استعمال کو نمایاں طور پر کم کرنے کے ہمارے عزم کے ایک حصے کے طور پر ٹیکس دہندگان پر لاگت کم کرنے کیلئے پناہ کے متلاشیوں کو متبادل رہائش میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ پناہ کے متلاشیوں کو بغیر کسی انتخاب کی بنیاد پر رہائش مختص کی جاتی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ سیاسی پناہ کے متلاشی اگر انہیں یقین ہے کہ وہ بیبی اسٹاک ہوم منتقل ہونے کے لئے نامناسب ہیں تو وہ نمائندگی کر سکتے ہیں۔کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ان پر مکمل غور کیا جاتا ہے۔ بہت سے مظاہرین سڑک پر بیٹھے نعرے لگا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیبی سٹاک ہوم سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو رکھنے کے لئے مناسب جگہ نہیں تھی اور جن لوگوں کو وہاں لے جانا تھا، انہوں نے پیکھم میں کمیونٹی میں تعلقات بنائے تھے اور وہ منتقل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ ہوم آفس نے گزشتہ ہفتے مارگیٹ میں ہونے والے مظاہروں کے تناظر میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے ایک گروپ کو بیبی بارج میں منتقل کرنے کا منصوبہ ترک کر دیا تھا۔ وزیر داخلہ جیمز کلیورلی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ہوٹلوں میں مہاجرین کی رہائش پر برطانوی ٹیکس دہندگان کو روزانہ لاکھوں پاؤنڈز کا خرچہ آتا ہے۔ ہم طالب علموں کے اس چھوٹے سے گروپ کو سوشل میڈیا پر ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں برطانوی عوام کیلئے صحیح کام کرنے سے روکے۔ تقریباً 14:00 بجے تک 150 کے لگ بھگ لوگوں کا ایک ہجوم جائے وقوعہ پر موجود تھا، جس میں ہمیں منتقل نہیں کیا جائے گا، کے نعرے گونج رہے تھے۔کمیونٹی ایسا ہی دکھائی دیتی ہے اور کوئی سرحد نہیں، کوئی قوم نہیں، ملک بدری بند کرو، جمع ہونے والوں کی طرف سے بنائے گئے دوسرے نعروں میں شامل تھے۔ ایک موقع پر پولیس کی آٹھ گاڑیاں جائے وقوعہ پر کھڑی تھیں، ساتھ ہی تین فسادات کی وین بھی موجود تھیں۔ سڑک کو دونوں طرف سے ٹریفک کے لئے بند کر دیا گیا تھا۔ میٹ پولیس کے ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر ایڈی اڈیلیکن نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ میرے افسران فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور مظاہرین کے ساتھ دیر تک مصروف رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہمیشہ پرامن احتجاج کے حق کا احترام کریں گے لیکن ہم نے واضح کیا ہے کہ جہاں سنگین رکاوٹیں اور جرائم ہوں گے، وہاں ہم فیصلہ کن کارروائی کریں گے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت دکھ ہوتا ہے کہ آج پیکھم میں پیش آنے والے ایک واقعے کے بعد اپنی ڈیوٹی کے دوران متعدد افسران پر حملہ کیا گیا، جہاں انہوں نے قانون کی بالادستی کی کوشش کی۔ ہوم آفس نے کہا کہ وہ مئی کے آغاز تک پناہ کے متلاشیوں کے لئے 150 ہوٹلوں کو بند کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ایک ترجمان نے کہا کہ وہ رہائش فراہم کرنے والوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ باہر نکلنے کے عمل کو اس طرح منظم کیا جا سکے، جس سے مقامی حکام اور پناہ کے متلاشیوں پر یکساں اثرات محدود ہوں۔ بدھ کے روز تقریباً 14 چھوٹی کشتیاں انگلش چینل کو عبور کرتے ہوئے پائی گئیں۔ ہوم آفس کے عارضی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس سال اب تک 8000 سے زیادہ لوگ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ پہنچے ہیں۔ یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں 34 فیصد زیادہ ہے۔

یورپ سے سے مزید