• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوڈ ڈلیوری بوائے کی ٹکر سے ہلاک ہونے والی لڑکی کے عزائم بہت بلند تھے

لندن (پی اے) یکم اپریل2022کواپنے والد کے ساتھ اسکول سے گھر جاتے ہوئے سڑک کراس کرتے ہوئے ایک فوڈ ڈلیوری بوائے کی ٹکر سے ہلاک ہونے والی لڑکی منہال کی والدہ نے پہلی مرتبہ لب کشائی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کے عزائم بہت بلند تھے۔ منہال کو ٹکر مار کر ہلاک کرنے والا ڈلیوری بوائے کے پا س کام کرنے کا بیمہ نہیں تھا۔ منہال کو ٹکر مارنے کے بعد ڈلیوری بوائے سامان پہنچانے کیلئے چلا گیا تھااور سامان پہنچانے کے بعد جائے وقوعہ پر واپس آیا۔ منہال کی والدہ کا کہنا تھا کہ میری بیٹی میری بہن، دوست اور ساتھی تھی، ایک بلند عزائم کی پیاری لڑکی تھی، اسے یہ اچھا لگتا تھا کہ کوئی اسے شہزادی کہہ کر پکارے۔ یکم اپریل 2022 کو منہا ل کے والد نے اسکول سے گھر لے جانے کیلئے اسے ساتھ لیا، وہ سڑک کراس کرنے کیلئے انتظار کر رہے تھے کہ منہال نے قدم آگے بڑھایا اور اسی لمحے ایک 63 سالہ ڈلیوری ڈرائیور اسٹوان زرقا نے ٹکر مار دی۔ گزشتہ سال ہونے والی تفتیش کے دوران یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ کار کی ٹکر سے لڑکی کار کے بونٹ پر آگئی تھی اور اس کے بعد آگے جا کر پشتے پر جا کر گری، ڈرائیور نے تھوڑی دیر کیلئے گاڑی روکی اور پھر سامان پہنچانے چلا گیا اور سامان دے کر واپس آگیا۔ منہال کے والد، جو نیورو سرجن ہیں، منہال کا CPR کیا لیکن اپنی بیٹی کی جان بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ کورونر نے اس کی ہلاکت کو المناک ہلاکت قرار دیا تھا۔ ڈلیوری ڈرائیور زرقا کو بزنس انشورنس کے بغیر ڈرائیونگ کرنے کے الزام میں اس کے لائسنس پر 8 پینالٹی پوائنٹس کی سزا دی گئی۔ وہ ایک مشہور فوڈ کمی فوڈ حب کا کھانا ڈلیور کرتا تھا۔ منہال کی والدہ کا کہنا ہے کہ فوڈ حب نے اب تک ان سے رابطہ نہیں کیا ہے جبکہ اپنے ڈرائیوروں کے عمل کی ذمہ دار ہے جبکہ اس کمپنی نے کوئی ڈرائیور ملازم رکھا ہی نہیں ہے اور ایسے ہی باہر کے لوگوں سے کام چلا رہا ہے۔ فوڈ حب سے رابطہ کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ وہ منہال کی والدہ سے رابطہ کرے گی۔ اس کا کہنا تھا کہ منہال سلام کی المناک موت سے انھیں بہت دکھ ہوا ہے اور وہ متوفی کی فیملی سے دلی تعزیت کرتے ہیں۔ مس انعم نے اسکول کے باہرحفاظتی انتظامات بہتر نہ بنائے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسکول کے باہر وارننگ کی نئی علامات نصب کی گئی ہیں اور دہری زرد لائنیں لگائی گئی ہیں، جہاں کاریں پارک کی جاسکتی ہیں لیکن مس انعم اس کو کافی تصور نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکول میں کم وبیش 400 بچے ہیں اور روزانہ اسکول سے آتے جاتے انھیں سڑک کراس کرنا ہوتی ہے لیکن سڑک کراس کرنے کی کوئی مخصوص جگہ نہیں ہے، وہاں ایک زیبرا کراسنگ ہونی چاہئے، جس پر لائٹ لگی ہو۔ انھوں نے ڈرائیوروں کو مشورہ دیا کہ اسکول کے قریب اپنی رفتار کم کرلیں اور ذرا نرم دلی کا مظاہرہ کریں۔
یورپ سے سے مزید