• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: طلعت عمران

سن ڈے میگزین کے پلیٹ فارم سے ہم نے آپ کو ’’مائوں کے عالمی یوم‘‘ کے موقعے پر پیغامات لکھ بھیجنے کا سندیسہ دیا تھا، جواباًلاتعداد پیغامات موصول ہوئے۔ چوں کہ تمام تر پیغامات کی اشاعت ایک شمارے میں ممکن نہیں، لہٰذا آج اس سلسلے کی پہلی اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔

پیاری امّی جان، نعیمہ بیگم کے نام

میری پیاری امّی جان! آپ میری زندگی کا روشن ترین باب ہیں۔ آپ محبّت، اُلفت اور قربانی کا استعارہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش باش اور آپ کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھے۔ آپ کی ہستی ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اور میری تمام تر محبّتوں کی حق دار میری پیاری ماں آپ ہی ہیں۔ (ثنا واحد، لاہور کا پُرخلوص ، دُعاؤں بھرا سندیسہ)

کلاس ٹیچرز اور کلاس فیلوز کے نام

اس ’’مدرز ڈے‘‘ کو مَیں اپنی ٹیچرز میڈم انیقہ شفیق، مس فوزیہ شعیب، مس زرِش تاج دار، مس زارا سلمان، سر زبلون اور کلاس ٹو اسپرنگ کے تمام کلاس فیلوز کے نام کرتا ہوں۔ میری دُعا ہے کہ ہم سب اپنے ان انتہائی قابل اساتذہ کی رہنمائی میں بے شمار کامیابیاں حاصل کر کے ملک و قوم کا نام خوب روشن کریں۔ (آمین) (حسّان عادل، کراچی کا پیغام)

امّی حضور کی نذر

دُنیا میں ماں جیسی کوئی نعمت نہیں۔ وہ اپنی تمام تر محبّت اور خلوص اپنی اولاد پر نچھاور کر دیتی ہے۔ ماں کی گود، اولاد کی پہلی درس گا ہے اوریقیناً دُنیا کے تمام اچھے انسانوں کی تعلیم و تربیت میں ماں ہی کا کردار ہوتا ہے کہ ماں کی تربیت کے بغیر کوئی آدمی، انسان ہی نہیں بن سکتااور ہمیں آج بھی اپنی ماں کی یاد بہت ستاتی ہے ۔ (ڈاکٹر ظفر فاروقی،ایسوسی ایٹ پروفیسر، گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج نشتر روڈ ، کراچی)

دُنیا بھر کی ماؤں کے نام

ایسا کیوں ہوتا ہے…مَیں اکثر سوچتا ہوں…ایسا کیوں ہوتا ہے… اولاد کو …اپنے باپ، مائیں یاد آتی ہیں… تو آنکھوں میں… فقط ماں باپ کے… بوڑھے سراپے ہی… اُبھرتے، ڈُوبتے اور جِھلملاتے ہیں …مَیں اکثر سوچتا ہوں… ایسا کیوں ہوتا ہے… ممتا سے بھرّائی …ماں باپ کی آنکھوں میں… اولا کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔ (محمد اقبال شاکر ، میاں والی کا زبیر رضوی کے کلام سے انتخاب)

پُر عزم و حوصلہ مند ماؤں کے لیے

مجھے صنفِ نازک کہتے ہو… نازک کے مفہوم سے ناآشنا ہو…جو مَیں ہوں صنفِ نازک…تو ہڈیاں ٹُوٹنے کی تکلیف کیسے سہہ جاتی ہوں؟…غیروں کو اپنا کیسے مان لیتی ہوں؟… لفظوں کے تیر کیسے سہہ جاتی ہوں؟…کام اور گھر کو کیسے متوازن کرلیتی ہوں؟… نہیں ہوں مَیں صنفِ نازک… مضبوط،در مضبوط ،ہمہ وقت مضبوط ہوں مَیں۔ (مبشرہ خالد، کراچی کا پیغام)

والدہ مرحومہ کے نام

عزیز ترین امّی جان! آج آپ ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن آپ کی یاد ہمیں بے چین کیے رکھتی ہے۔ بالخصوص عید، بقرعید پر آپ کی کمی بہت شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ آپ کی صلۂ رحمی کی باتیں اور پیار بھری یادیں ہمارے دِلوں کی گہرائی میں خوش بُو کی طرح بسی ہوئی ہیں اور اکثر انہیں یاد کر کے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ آپ کی سچائی، وفاداری، علم دوستی اور مذہبی یگانگت سے معمور زندگی کا ہر عمل ہمارے لیے مشعلِ راہ اور سرمایہ ٔصد افتخار ہے۔ ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمتوں کا نزول اور آپ کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔ (وقار احمد میر، ابرار احمد میر، اسراراحمد میر، بیٹیاں، نواسے اور نواسیاں، بحریہ انکلیو،اسلام آباد سے)

ماں کے نام

میرے گھر کی رونق جس کے دم قدم سے تھی، وہ میری ماں کی ہستی تھی۔ پنچ گانہ نماز کے علاوہ تہجّد، تسبیحات اور ذکر و اذکار سمیت دیگر عبادات اُن کے معمولات میں شامل تھیں۔ وہ چھوٹوں کے لیے سراپا شفقت و عنایت تھیں۔ ان کے پاکیزہ وجود کے باعث گھر میں ہر وقت رحمت برستی رہتی تھی۔ آج بھی جب مَیں اُنہیں عالمِ تصوّر میں دیکھتی ہوں، تو وہ مُجھے اللہ کے حضور سر بسجود ہی دکھائی دیتی ہیں۔ (ناز جعفری، بفرزون، کراچی کی یادیں)

ماں کو خراجِ عقیدت

بجھ گیا روشن سویرا، ماں تِرے جانے کے بعد …چھا گیا ہر سُو اندھیرا، ماں تِرے جانے کے بعد … غم کا بادل ہے گھنیرا، ماں تِرے جانے کے بعد …دم گُھٹا جاتا ہے میرا، ماں تِرے جانے کے بعد …کس کے چہرے میں تلاشوں، تیرے چہرے کی جھلک …کس کے آنچل میں ملے گی، تیری ممتا کی مہک …کس کی باتوں میں سُنوں گی، تیرے لہجے کی کھنک… کس ستارے میں بسے گی، تیری آنکھوں کی چمک… ڈھونڈتی ہوں عکس تیرا ماں، تِرے جانے کے بعد… دَم گُھٹا جاتا ہے میرا، ماں تِرے جانے کے بعد۔ (شہناز پروین شازی کی نظم’’ ماں تِرے جانے کے بعد‘‘ سے۔ (سمیع اشرف، لاہور کا انتخاب)

ماں کے نام

ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کُوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ میری ماں شفقت، خلوص، بے لوث محبّت اور قربانی کا دوسرا نام ہیں۔ اُن کا سایہ ہمارے لیے ٹھنڈی چھاؤں کی مانند ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں اُن کا دستِ شفقت شجرِ سایہ دار کی طرح سائبان بن کر ہمیں سکون کا احساس دلاتا ہے۔ اُن کی گرم گود، سردی کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ 

خُود بے شک کانٹوں پر چلتی رہیں، ہمیں ہمیشہ نرم بستر پر سلاتی ہیں اور دُنیا جہاں کے دُکھوں کو اپنے آنچل میں سمیٹے لبوں پر مسکراہٹ سجائے رواں دواں رہتی ہیں۔ بے شک، اُن سے سے زیادہ محبّت کرنے والی ہستی دُنیا میں نہیں۔ آندھی چلے یا طوفان آئے، اُن کی محبّت میں کبھی کمی نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ ہماری ماں کا سایہ ہمارے سَروں پر تادیر قائم رکھے۔ (آمین) (شفیق احمد، کراچی کا اپنی والدہ محترمہ کو خراجِ تحسین )