پاکستان کو کئی دہائیوں سے بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے، جس کے باعث ہر سال بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات اُٹھانے پڑ رہے ہیں۔ موسمی تغیّرات کے باعث بارشیں معمول سے ہٹ کر ہو رہی ہیں، جب کہ متعلقہ ادارے پیشگی منصوبہ بندی سے قاصر ہیں، جس کا خمیازہ کروڑوں افراد کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ماہرینِ موسمیات کی پیش گوئی کے عین مطابق، رواں برس مُلک کے دیگر حصّوں کی طرح بلوچستان میں بھی غیر معمولی موسلا دھار بارشوں کے باعث کافی جانی و مالی نقصانات ہوئے۔
محکمۂ موسمیات کی جانب سے کہا گہا کہ پاکستان میں اپریل کے مہینے میں معمول سے 99 فی صد زیادہ بارشیں ہوئیں اور اپریل میں بارشوں کا تیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ بلوچستان میں معمول سے 353 فی صد اور خیبر پختون خوا میں نوّے فی صد زائد بارشیں ہوئیں، جب کہ گزشتہ 30 سال کے مقابلے میں رواں برس یکم سے اٹھارہ اپریل تک ہونے والی بارشیں، اوسط بارش سے ننانوے فی صد زاید تھیں۔ ماہرین کے مطابق، غیرمعمولی بارشیں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہوئیں، جس سے بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ندلی نالوں میں طغیانی، دریائوں میں پانی کے بہائو میں تیزی اور بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔
بلوچستان کے عوام تو ابھی 2022ء میں ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں برسنے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے نقصانات سے باہر نہیں آئے تھے کہ اُنہیں ایک بار پھر شدید موسمی حالات سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔موسمِ گرما کے ابتدائی ہفتے ٹھنڈے موسم کے سبب بغیر پنکھوں کے گزرے۔ یاد رہے، بلوچستان میں موسمِ گرما اور سرما چھے، چھے ماہ پر محیط ہوتے ہیں، لیکن گزشتہ چند برس سے سردی کے موسم میں گرمی اور گرمی میں سردی پڑ رہی ہے۔ صوبے میں موسمِ سرما میں بارشیں نہ ہونے کے برابر تھیں، لیکن مارچ کے پہلے ہفتے میں شروع ہونے والی شدید بارشوں کا سلسلہ تا دمِ تحریر جاری ہے، یہاں تک کہ سرد علاقوں میں شدید بارشوں کے باعث کسی ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنا پڑے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان، شاہد رند کے مطابق،’’ آسمانی بجلی اور چھتیں گرنے کے سبب8 افراد جاں بحق، جب کہ 9 زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں کا تعلق سوراب، پشین، ڈیرہ بگٹی، لورالائی اور چمن سے ہے۔ بارشوں سے جاں بحق ہونے والوں میں2 خواتین اور2 بچّے بھی شامل ہیں۔بارش اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے لگ بھگ40 گھر منہدم ہوئے، جب کہ 92 کے قریب گھروں کو نقصان پہنچا۔ علاوہ ازیں، متاثرہ اضلاع میں سڑکیں بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہوئیں۔عوامی مشکلات کے پیشِ نظر ذرائع مواصلات کی بحالی کا کام ہنگامی بنیادوں پر جاری ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ بین الصوبائی اور مقامی رابطہ سڑکیں بحال رہیں۔ متاثرہ اضلاع میں مقامی انتظامیہ کے توسّط سے نقصانات کے تعیّن کے لیے سروے بھی جاری ہے۔‘‘
اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ صوبے میں بارشوں کی غیر معمولی صُورتِ حال سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ابھی تک نقصانات کی ابتدائی رپورٹس موصول ہوئی ہیں، جب کہ حتمی اعداد و شمار سروے کی تکمیل پر جاری کیے جائیں گے۔‘‘اِس ضمن میں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ’’ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ گزشتہ بارشوں اور سیلاب سے صوبے میں1.6 بلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔ عالمی برادری نے بحالی سرگرمیوں کے لیے 2.6 بلین ڈالرز کا وعدہ کیا، لیکن عالمی کمٹمنٹ پوری نہیں ہوئی۔‘‘
میر سرفراز بگٹی نے وزیرِ اعظم، میاں محمّد شہباز شریف کے زیرِ صدارت ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ویڈیو لنک اجلاس میں مشاورتی کمیٹی کے قیام سے متعلق وزیرِ اعلیٰ سندھ، سیّد مراد علی شاہ کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ’’ صوبوں کی مشاورت ضروری ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے باہمی اتفاقِ رائے سے قومی پالیسی اور گائیڈ لائن تشکیل دی جاسکے۔ اس کے ساتھ، مجوّزہ فیس اسٹرکچر صوبوں کی ضروریات کی بنیاد پر طے کیا جائے تاکہ یہ تمام صوبوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔نیز، حکومتِ بلوچستان ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے باہمی مشاورت سے طے کردہ گائیڈ لائن پر گام زن رہنے کے لیے پُرعزم ہے۔‘‘
بلوچستان میں ایک دہائی قبل تک بارشیں بہت کم ہوا کرتی تھیں، جس کے باعث زرعی شعبہ بُری طرح متاثر ہو رہا تھا، چراگاہیں خشک ہوجاتیں اور مال مویشی مر جاتے،زیادہ تر خشک سالی رہتی، لیکن اب صوبے کے بیش تر اضلاع مسلسل موسلادھار بارشوں کی زَد میں ہیں۔ صورتِ حال کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صوبے میں اب تک بارشوں کا باقاعدہ سیزن شروع نہیں ہوا، لیکن دو ماہ سے برف باری اور بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، جو رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ جب کہ اگلے ماہ مون سون بارشوں کا بھی آغاز ہوجائے گا۔
مون سون میں تو ویسے ہی مُلک کے کئی علاقوں میں شدید بارشوں کے باعث دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی آ جاتی ہے اور عوام کو بڑے پیمانے پر نقصانات اُٹھانا پڑتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تغیّر، خطّے کی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث بارشوں کی شدّت میں اضافے اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بچاؤ کے لیے مؤثر اقدامات کا فقدان ہے، حالاں کہ ماہرین بارہا متنبّہ کر چُکے ہیں کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ زمین، بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دَور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی ہمارا طرزِ زندگی بدل دے گی، جس سے پانی کی قلّت پیدا ہوگی اور خوراک کا حصول مشکل ہو جائے گا۔موسمیاتی ماہرین اِس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ کچھ خطّے خطرناک حد تک گرم ہو سکتے ہیں اور دیگر سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔دنیا بَھر میں ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل تیز ہو چُکا ہے، جس کی وجہ سے بارشوں کی شدّت میں اضافہ ہوا اور بغیر موسم کے بھی بارشیں ہورہی ہیں، جن سے تباہی اور نقصانات کا دورانیہ بڑھ گیا ہے اور اس صورتِ حال کے منفی اثرات مُلکی معیشت پر بھی مرتّب ہو رہے ہیں، جو حکومتوں اور انتظامیہ کے لیے پریشانی کا باعث ہیں کہ حکومتی بجٹ کا ایک بڑا حصّہ سیلاب سے پیدا شدہ نقصانات کے ازالے پر صَرف کرنا پڑ رہا ہے۔دوسری جانب بلدیاتی، ضلعی اور صوبائی حکومتی اداروں کی کارکردگی کا معیار بہتر ہونے کی بجائے زوال پذیر ہے۔
بد انتظامی اور ادارہ جاتی اختیارات و فرائض میں عدم توازن کا خمیازہ عوام بُھگت رہے ہیں۔ میونسپل اور صوبائی محکموں کے افسران، ملازمین کی تعداد لاکھوں میں ہے، اُنھیں سرکاری خزانے سے تن خواہوں اور مراعات کی مَد میں ہر ماہ کئی ارب روپے ادا کیے جاتے ہیں، لیکن اُن کی کارکردگی کا معیار انتہائی پست ہے۔ہر برس مون سون بارشوں سے پہلے حکومتی اور انتظامی سطح پر بڑے بڑے دعوے سامنے آتے ہیں، لیکن جب بارشیں ہوتی ہیں، تو ان دعووں کی سب قلعی کُھل جاتی ہے۔
کوئٹہ، صوبائی دارالحکومت ہونے کے ساتھ صوبے کا سب سے بڑا شہر بھی ہے، لیکن اِدھر بارش ہوئی اور پورا شہر ندی، نالے کا منظر پیش کرنے لگتا ہے، کیوں کہ بیش تر برساتی نالے قبضوں کی نذر ہو چُکے ہیں، تو پانی کی نکاسی ہی نہیں ہو پاتی۔ کوئٹہ کے 82 برساتی نالے تجاوزات کی وجہ سے 40 کی بجائے صرف20 فِٹ کے رہ گئے ہیں اور ماہرین کے مطابق زیادہ تر نقصانات اِن تجاوزات کی وجہ ہی سے ہو رہے ہیں۔
گرچہ کمشنر کوئٹہ ڈویژن اور ایڈ منسٹریٹر،حمزہ شفقات کے متحرّکانہ طرزِ عمل کے سبب رواں سال غیر معمولی بارشوں کے باوجود کوئٹہ ڈویژن میں کچھ بہتر حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر صفائی بھی کی جا رہی ہے۔
تاہم، کمشنر کوئٹہ نے صحافیوں کے ساتھ ایک نشست میں اعتراف کیا کہ’’ کوئٹہ صوبے کا سب سے بڑا شہر اور مرکز ہونے کے باوجود دیہات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ یہاں انفرا اسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘ اُنہوں نے صفائی عملے کی کمی اور تین ماہ سے تن خواہوں کی عدم ادائی کا بھی ذکر کیا، حالاں کہ محکمۂ مواصلات و تعمیرات میں قلّی، سپر وائزر اور دیگر کیڈرز کی ہزاروں اسامیاں ہیں، جنہیں ڈائنگ کیڈر قرار دیا گیا ہے اور ان ملازمین کی اکثریت گھر بیٹھے تن خواہیں وصول کر رہی ہے، تو اگر انہیں محکمۂ بلدیات کے ساتھ منسلک کر دیا جائے، تو نہ صرف عملے کی کمی پوری ہو جائے گی، بلکہ کوئٹہ سمیت پورے صوبے کو صفائی کے لحاظ سے مثالی بھی بنایا جا سکتا ہے۔
اِسی طرح جنگلات اور جنگلات کی کٹائی دو اہم عوامل ہیں، جو پاکستان کی آب و ہوا اور ماحول پر نمایاں اثرات مرتّب کرتے ہیں۔ ایک ایسے مُلک میں، جو پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے، جنگلات کی کٹائی، درپیش چیلنجز میں اضافے کا سبب ہے۔ حالیہ برسوں میں، پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بہت سے معاملات کا تجربہ کیا ہے، جیسا کہ درجۂ حرارت میں اضافہ، بارشوں کے بے ترتیب نمونوں اور بار بار شدید موسمی تغیّرات۔
سو، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے کے لیے جنگلات میں اضافے کے ساتھ، جنگلات کی کٹائی روکنے کی کوششیں تیز کرنا ہوں گی۔واضح رہے کہ کسی علاقے میں درخت لگانے کا عمل، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے میں نہایت معاون ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان میں جنگلات کے خاتمے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، تو جنگلی حیات بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے اور جانوروں کی کئی نسلیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔پھر ہریالی کی کمی کی وجہ سے فضا میں تازہ آکسیجن کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
واضح رہے، جنگلات کی کمی سیلاب کا باعث بنتی ہے، کیوں کہ ماہرین کے مطابق درخت، زمین پر کیل کی مانند ہوتے ہیں اور پاکستان خطّے میں کم جنگلات والے ممالک میں شامل ہے، جس کا صرف4فی صد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے، بلکہ اگر درست اور سائنسی پیمائش کی جائے، تو شاید جنگلات کا رقبہ دو فی صد سے بھی کم نکلے۔ جنگلات کسی بھی علاقے کی آب و ہوا کو خوش گوار بناتے اور درجۂ حرارت کی شدّت میں کمی لاتے ہیں۔ نیز، یہ بارشیں برسانے کا بھی ذریعہ ہیں، کیوں کہ ان کے سبب ہوا میں آبی بخارات بڑھ جاتے ہیں۔پھر درختوں کی جڑیں مٹّی کو آپس میں جکڑے رکھتی ہیں، جس سے زمین کی زرخیزی قائم رہتی ہے۔
جنگلات کے نہ ہونے سے دریا اپنے ساتھ ریت اور مٹّی کی بڑی مقدار بہا لے جاتے ہیں، جس سے ڈیمز یا جھیلیں سلٹ سے بَھر جاتی ہیں اور زراعت کے لیے پانی کا زیادہ ذخیرہ نہیں ہوپاتا۔ سیم و تھور زدہ علاقوں میں درخت بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں، کیوں کہ یہ زمین سے پانی جذب کر لیتے ہیں، جس سے زیرِ زمین پانی کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے اور اس کی سطح نیچے چلی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں جنگلات کے پھیلاؤ اور تحفّظ کی بجائے ان کے کٹائو میں اضافہ ہو رہا ہے۔
محکمۂ جنگلات کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ’’ بلوچستان میں قدرتی آفات اور تباہی سے بچاؤ کے لیے سالانہ1.5 ٹریلین سے دو ٹریلین درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں203 اقسام کے پودے یا درخت پائے جاتے ہیں، جو مُلک بَھر کے کُل درختوں کا چار فی صد ہیں۔ صوبے میں جونیپر کے جنگلات زیارت اور ہربوئی میں واقع ہیں، جو133 کلومیٹر شمال میں سطحِ سمندر سے 2449 میٹر کی بلندی پر ہیں۔
وادیٔ زیارت میں موجود صنوبر کا قدیم جنگل دنیا میں پائے جانے والے صنوبر کے تین قدیم ترین جنگلات میں سے ایک ہے، جب کہ ضلع ژوب اور شیرانی میں بھی لاکھوں ایکڑ اراضی پر زیتون اور چلغوزے کے قدرتی، قیمتی جنگلات پائے جاتے ہیں۔ چوں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور جنگلات کی کٹائی کے باعث جنگلی حیات کو بے حد نقصان پہنچ رہا ہے، لہٰذا ماہرین کی طرف سے تجویز پیش کی گئی ہے کہ درختوں اور جنگلوں کے تحفّظات کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عمل بھی کیا جائے۔‘‘
عوام گزشتہ کئی برسوں سے حکومتی اور متعلقہ اداروں کی غفلت و لاپروائی کے نتائج بُھگت رہے ہیں اور اب تو غربت و منہگائی کے ستائے عوام کی قوّتِ برداشت مکمل طور پر جواب دے چُکی ہے۔ پاکستان کے تمام چھوٹے، بڑے شہر گندگی کی لپیٹ میں ہیں، گلی، محلّے سیوریج کے گندے پانی میں ڈوبے نظر آتے ہیں اور حکومتی مشینری تب حرکت میں آتی ہے، جب مکمل تباہی و بربادی ہوجاتی ہے۔اس کے بعد بھی قومی خزانے سے کروڑوں روپے محض آنیوں، جانیوں پر خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔
اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کو روکا نہیں جاسکتا، لیکن ان سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم سطح پر رکھنا تو ممکن ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک نے سیلاب اور زلزلوں کی تباہ کاریاں کم سے کم رکھنے کی کام یاب حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی کی ہے۔ پاکستان کو بھی اِس سمت آگے بڑھنا ہوگا۔
یہ کام مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ وطنِ عزیز میں ہر شعبے کے ماہرین اور افرادی قوّت موجود ہے، پھر دنیا کے تجربات بھی ہمارے سامنے ہیں، تو ان سے استفادہ کرتے ہوئے سیلاب یا زلزلوں کے نقصانات محدود رکھنے کے منصوبے تشکیل دیئے جائیں اور ان پر مرحلہ وار عمل کیا جائے، تو کوئی وجہ نہیں کہ بار بار ہونے والے نقصانات سے بچا نہ جاسکے۔بلوچستان، مُلک کا سب سے پس ماندہ صوبہ ہے، جہاں ہر طرف غربت کا راج ہے۔ اِن حالات میں حکومت کے ساتھ، مخیّر افراد اور فلاحی تنظیموں کو بھی ماضی کی طرح اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا تا کہ متاثرین جَلد سے جَلد اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہو سکیں۔