السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
لکھنا زیب نہیں دیتا
’’ ڈائجسٹ‘‘ میں آپ کا افسانچہ ’’عورت‘‘ کیوں شائع ہوا۔ آپ تو اِس جریدے کی ایڈیٹر ہیں۔ آپ کو صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں لکھنا زیب نہیں دیتا۔ ایڈیٹر کا کام ’’سنڈے میگزین‘‘ کی نگرانی کرنا ہے، نہ کہ میگزین میں لکھنا۔ اگر آپ نے ’’ڈائجسٹ‘‘ ہی کے لیے لکھنا ہے، تو ایڈیٹر کا عہدہ چھوڑ دیں اور لکھاری کی حیثیت سے کام کریں۔ کیا منور راجپوت نے کبھی ’’ڈائجسٹ‘‘ میں لکھا ہے، جو آپ لکھ رہی ہیں۔ اس بارتو آپ نے لکھ لیا، لیکن آئندہ احتیاط کیجیےگا اور صرف ایڈیٹر کی ذمّےداریوں پرتوجّہ دیجیے۔ اور یہ بتائیے کہ مُلک میں بجلی کے بِل اتنے زیادہ کیوں آرہے ہیں، شہباز شریف کو بتائیں کہ ہمارے گھرمیں کوئی نوٹوں کا کارخانہ نہیں لگا ہوا، بجلی کے بلزفوراً کنٹرول میں لائیں۔ بھلا ایک غریب آدمی یہ چار چار ہزار کے بل کہاں سےدے، منہگائی نے ویسے ہی کمر توڑ رکھی ہے۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: منہگائی نے صرف کمر ہی نہیں توڑ رکھی، آپ کی مَت بھی ماردی ہے (یہ بھی ایک رعایت ہی ہے۔ پہلے بھی کبھی عقل، مَت سے کوئی مستند تعلق ثابت تو نہیں ہوا) ویسےہماری سمجھ سے قطعاً بالاتر ہے کہ ہمارے ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحے پر لکھنے سے آپ کیوں اس قدر بھڑک اُٹھے۔ یہ صفحہ کوئی شجرِ ممنوعہ ہے، نہ علاقہ غیر، جہاں کسی کا داخلہ بند ہو۔ ہمارے لیے تو پورا جریدہ، ہماری اولاد کی طرح ہے، اگر ہمارا کسی کے بھی بال سہلانے، گال تھپتھپانے کوجی چاہے گا، تو ہمیں اُس کے لیے ہرگز ہرگز آپ کا اجازت نامہ درکار نہیں۔ آپ اپنی یہ خُود ساختہ طرّم خانی سنبھال رکھیں۔ اور بجلی کا بَل بھرنے کے لیے کچھ ہاتھ پائوں ماریں،سپلائی منقطع ہوگئی تو پھر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں، مزید بونگیاں مارتے پھریں گے۔
کم ہی جرائد نے حق ادا کیا
’’سنڈے میگزین‘‘ اِس دورِ ابتلا میں بھی محض اپنی مقبولیت کی وجہ سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے کہ اِس کی خُوب صُورتی و دل کشی اِس کے پہلے ہی صفحے سےعیاں ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ جس عُمدگی سے پڑھنے والوں کے لیے ’’قصص القرآن‘‘ سےایک قصّے کا انتخاب کیا جاتا ہے، اُس کا تو کوئی ثانی ہی نہیں۔ اِس بار بھی بہت ہی اعلیٰ قصّہ بیان ہوا، پڑھ کے ایمان تازہ، مقصدِ حیات واضح ہوگیا۔ پھر مُلکوں کی سیر ہو یا پاکستان کے پیارے شہروں، مقامات کی کہانی، سب کا اپنا ہی حُسن و جمال ہے۔ ہرایک تحریر پڑھ کے خُود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔
اِسی طرح جب موسم و مواقع کے لحاظ سے ملبوسات کے انتخاب کی بات آتی ہے، تو طرزِ لباس کا خاص لحاظ رکھا جاتا ہے۔ سیاست و قیادت، کھیل کا میدان ہو یا تعلیم و صحت، تفریحِ طبع کا ذکر، جریدہ ہرایک پلیٹ فارم سے اپنی ذمّےداریاں بحسن و خُوبی نبھاتا دکھائی دیتا ہے۔ اِس کی اُجلی اُجلی تحریروں سے ہمیں جو معلومات اور سبق حاصل ہورہا ہے، بخدا کم ہی جرائد نے یہ حق ادا کیا۔
نیز، اندرون اور بیرونِ مُلک سے بھی ایک سے بڑھ کر ایک دانش وَر سنڈے میگزین میں لکھ کراپنا مثبت کردار ادا کررہا ہے، تو پھر نوجوان نسل کے جذبات کا خیال رکھ کربھی آپ نے بہترین حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے۔ آخرمیں میری تمام لکھاریوں،قارئین سے التماس ہے کہ ہرایک فرد کوشش کرے کہ اپنی اپنی جگہ اپنی ذمّےداریوں کو احسن طریقے سے سرانجام دے کر مُلک کی تعمیر و ترقی میں اپنا اپنا حصّہ ڈالے۔ (حسن علی چوہدری، سرگودھا)
ج:جی، ہماری تو روزِ اوّل سے یہی کوشش و سعی ہے کہ اِس چھوٹے سے پلیٹ فارم سے جس حد تک مثبت و تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں، ضروراداکریں اورالحمدللہ، اپنی اس کوشش میں بہت حد تک کام یاب بھی ہیں، جس کا ایک اعتراف آپ کا یہ عریضہ بھی ہے۔
اسلوب وقواعد سے انحراف
متفق علیہ احادیث میں حضرت محمّد ﷺ کے اسمِ مقدّس میں ’’وآلہ‘‘ نہ لکھنے یا بولنے کو اسفل السافلین کے بخل سے بھی بدترین قرار دیتے ہوئے تاکید کی گئی ہے کہ لازماً ’’وآلہ‘‘ کہا اور لکھا جائے۔ نماز میں التّحیات کے بعد صرف اور صرف جو درود شریف پڑھنے کا حُکم ہے اُس میں آلِ ابراھیمؑ اور آلِ محمدﷺ لازمہ ہے، کیوں کہ اس کے بغیر نماز قبولیت نہیں پاتی۔ اس تمہید کے بعد 17 مارچ کے شمارے کے حوالے سے محمود میاں نجمی کی بابت گزارش ہے کہ بنی اسرائیل والے مضمون میں دو بار سرکارِدوعالم ﷺ کے اسمِ مقدّس میں ’’وآلہ‘‘ نہیں ہے۔
اُمید ہے، آئندہ حضرت محمّدﷺ پورا لکھا جائے گا۔ اوراِسی مضمون کی سُرخی کی آخری سطرہے۔ ’’وہ تاریخ رقم کی، جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔‘‘ یہ الفاظ تو امرِ صالح یا اچھی بات کے لیے لکھے جاتے ہیں، جب کہ مذکورہ مضمون میں بنی اسرائیل کی حُکم عدولی، سرکشی، منافقت، بدعہدی اور مکر و فریب کا ذکر ہے، تو یہ نہ صرف اُردو کے اسلوب وقواعدسےانحراف ہےبلکہ نفسِ مضمون مجروح کرنے کی بھی غلطی ہے۔ (محمّد فاروق، معلم مکتبۂ فاروقیہ، دستیار کمپلیکس، یونی ورسٹی روڈ، کراچی)
ج:بےشک، سُرخی میں ہونے والی غلطی سے متعلق آپ کی نشان دہی بالکل درست ہے، آئندہ مزید احتیاط برتنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن جہاں تک نبی کریم ﷺ کے اسمِ مقدّس کے ساتھ ’’والہ‘‘ نہ لکھنے کا سوال ہے، تو کوئی مسلمان دانستہ ایسا کرنے کا بھلا تصوّر بھی کیسے کر سکتا ہے، جب کہ ہمارے یہاں جو جدید اِن پیج سافٹ وئیراستعمال ہورہا ہے، اُس میں تو keyboard کی محض ایک ’’key‘‘ پریس کرنے پر نبی کریم ﷺ کے نام کے ساتھ خُودکار طور پر پورا ’’صلی اللہ علیہ والہ وسلم‘‘ لکھا جاتا ہے۔
بہرحال، بعض اوقات کمپوزر اگر جلد بازی میں پورا اسمِ مقدّس نہیں لکھتے، اورایڈٹ کرنے والے کی نظرسےبھی چُوک جاتا ہے، تو خدارا! اِسےانسانی غلطی کے تناظر ہی میں دیکھا جائے، نہ کہ کوئی فتویٰ ہی جاری کردیا جائے کہ خاتم النبیین ﷺ کانام تو جریدے میں سیکڑوں بار لکھا جاتا ہے، جب کہ ایسی غلطی خال ہی کبھی ہوتی ہے۔ اور ہاں ایک بات اور، مذکورہ مضمون نگار اپنی ہر تحریر ہاتھ سے لکھ کے بھیجتے ہیں، تو یہ غلطی کمپوزنگ کی ہے، لکھاری کی ہرگز نہیں۔
لاتوں کا بھوت
’’حالات و واقعات‘‘ میں منورمرزا ہمیشہ کی طرح چھائے ہوئے تھے۔ اُن کا ہرمضمون ہی بڑا فکرانگیز ہوتا۔ اللہ کرے، یہ مضامین حُکم رانوں کو بھی پڑھنے نصیب ہوں تاکہ کسی طور اُن کی بھی آنکھیں کُھل سکیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں محمود میاں نجمی نے قرآن کا ایک اور قصّہ ’’معجزۂ شق القمر‘‘ بیان کیا اور ہمیشہ کی طرح بہت ہی عُمدگی سے۔ حفصہ طارق نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل سے تجارت کا خاتمہ ناگزیر قراردیا۔ بےشک، اسرائیل لاتوں کا بھوت ہے، یہ باتوں سے قطعاً نہیں مانے گا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں فاروق اقدس نے پاکستان کے سب بڑے صوبے، پنجاب میں مریم نواز کے وزیرِاعلیٰ کا منصب سنبھالنے پر خُوب صُورت خراجِ تحسین پیش کیا۔
منور راجپوت ’’ہمارے ادارے‘‘لےکرحاضر ہوئے اور قائد ِاعظم اکادمی، کراچی کی لائبریری کا احوال بیان کیا۔ افسوس کی بات ہےکہ ایسےتاریخی ادارے بھی انتظامیہ کی لاپروائی کی نذر ہو رہےہیں۔ حکومت کواِس طرف توجّہ دینی چاہیے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹرشکیل نے آپ کو جو چارٹ بنا کر دیا، میرا نہیں خیال کہ وہ ہر مریض کو سمجھ آیا ہوگا۔ اِسےتھوڑا آسان انداز سے بنانا چاہیے تھا۔
ماہین سلیم کا مضمون بھی کافی گنجلک سا تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم کے پورے مضمون کا نچوڑ یہ تھا کہ ’’ماہِ صیام، دراصل آخرت کی تیاری کا مہینہ ہے‘‘، جب کہ صبیحہ طاہر نے چاولوں کی پِیچ سے نمکیات کی کمی دُور کرنے کا بہترین نسخہ پیش کیا۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں وحید زہیر نےڈاکٹرشرجیل بلوچ سے اچھی بات چیت کی اور اب آئیے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، جس میں ہمارا خط بھی شامل تھا۔ بہت بہت شکریہ کہ آپ نے مجھ ناچیز کو قدر دانی کے لائق سمجھا۔ ہاں، مگر ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا صفحہ شامل نہیں تھا، جس کا دُکھ ہوا۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: ڈاکٹر شکیل نے ذیابطیس سے متعلق جو چارٹ پیش کیا، وہ تو اِس قدرعام فہم تھا کہ مریض تو کیا، عام افراد کو بھی بآسانی سمجھ آگیا ہوگا۔ جب کہ مریضوں کے لیے تو اُسے سمجھنا ہرگز مشکل نہ ہوگا کہ وہ تو اُن تمام تر اصطلاحات سے ویسے ہی بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ آپ نے بھی سمجھنے کی کچھ خاص کوشش نہیں کی ہوگی، ورنہ آپ کو بھی سمجھ آہی جاتا۔
عُمدہ کھانوں کا انتظام
جناب! تازہ سنڈے میگزین پڑھا جارہا ہے۔ ’’ریڈ لائن بس پراجیکٹ‘‘ پر رستم علی خان کی ’’رپورٹ‘‘ لائقِ مطالعہ ہے۔ واقعی، اہلِ کراچی جو اذیت اس بس پراجیکٹ کے سبب اُٹھا رہے ہیں، وہ بس وہی جانتے ہیں۔ مگر کہیں کوئی سُننے، دیکھنے والا نہیں ہے۔ سرِورق کی ماڈل کی تعریف نہ کرنازیادتی ہوگی، اِس بار ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ اور ٹائٹل کو گویا ہزار چاند لگے ہوئے تھے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں لبنیٰ آصف نے بہت عُمدہ کھانوں کا انتظام کیا، بے حد شکریہ۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں آپ کا ’’اچھی عورت‘‘ کے ساتھ موجود ہونا بہت حیران کر گیا۔ مختصر سی تحریر، مگر کمال جادو اثر۔ ہمارا تو پڑھ کر جی ہی بَھر آیا۔ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ایک ہی واقعہ تھا، مگراُسے روبینہ ادریس نے بہت ہی عُمدہ انداز سے تحریر کیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: آپ کا زیادہ ترفوکس سرِورق، سینٹر اسپریڈ اور پیارا گھر کی تراکیب ہی پرکیوں رہتا ہے۔
اظہار کی پوری اجازت
سنڈے میگزین کے صفحات میں صرف ایک ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہی ہے، جس میں قارئین کو اپنی آراء کےاظہار کی پوری اجازت ہے اور قارئین بھی کوئی بھی تجویز، شکایت ہو تو ضرور لکھ بھیجتے ہیں، جو ان کے ناموں کے ساتھ شائع بھی کردی جاتی ہیں۔ میرا خیال ہے، اب تو شاید ہی کوئی جریدہ رہ گیا ہے، جس میں اس نوعیت کی خط و کتابت ہوتی ہے اور غالباً اِسی لیے یہ مُلک بھر کے عوام کا پسندیدہ رسالہ ہے۔ (شری مُرلی چند، گوپی چند گھوکھیلہ، ریلوے اسٹیشن روڈ، ضلع شکارپور، سندھ)
ج: آپ کہہ رہے ہیں تو مانے لیتے ہیں، لیکن ہمیں ہرگز ایسا کوئی گمان نہیں کہ یہ مُلک بھر کے عوام کا پسندیدہ رسالہ ہے۔ مُلک بھر کے عوام کو سوشل میڈیا کی واہیاتیوں سے فرصت ملے تو اُنھیں کسی معیاری جریدے کے مطالعے کی توفیق بھی ہو۔
فی امان اللہ
رسالہ موصول ہوا۔ ماڈل کے کان کا بالا خاصا منفرد تھا، اُسے ہی دیکھتے ہوئے آگے بڑھے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا انتخابات کے بعد سیاسی قیادت کو معاشی بحالی کے لیے مِل جُل کر کام کرنے کی تلقین کررہے تھے، بھائی! ایک بار پھر دھرنوں کی سیاست شروع ہوچُکی ہے۔ بھان متی کا کنبہ مخلوط حکومت بنا رہا ہے، تو یوٹرن خان کےآزاد ممبر بھی اپنی قیمت لگا رہے ہیں۔ عوام کی معاشی حالت پرتوجّہ دینے کی تو کسی کو بھی فرصت نہیں۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’قصّۂ جنّات‘‘ لے کر آئے، جن کا قرآن میں سورۂ جن کے علاوہ بھی بارہ سورتوں میں ذکر ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں رابعہ فاطمہ ریڈیو پاکستان کی تاریخ اور خدمات سے آگاہ کررہی تھیں۔
ستّر کی دہائی تک ریڈیو کا کیا عروج تھا، تب یہ تقریباً ہر گھر کی زینت ہوا کرتا تھا، پھر اس کی جگہ ٹیلی ویژن نے لے لی اور اب ’’اسمارٹ فون‘‘ سب کا باپ ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں اخترالاسلام صدیقی اہم مواقع پر جاری ہونے والے ڈاک ٹکٹس کا جائزہ لے رہے تھے، حالاں کہ اب تو محکمۂ ڈاک بھی ہمارے پرنٹ میڈیا کی طرح نزع کی حالت میں ہے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں رئوف ظفر گلوبل ٹیچر پرائز جیتنے والی سسٹر زیف سے بات چیت کر رہے تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کا مِشن تعلیم ہی کو بنا رکھا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ایسے ہی جذبے سے معمور خواتین و حضرات مُلک سے جہالت کی تاریکی دُور کر سکتے ہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ کا رائٹ اَپ ’’عورت توجّہ چاہتی ہے‘‘ پرمرکوز تھا۔ ویسے یہ انسانی فطرت ہے، کوئی بھی کسی کو دائمی اطمینان نہیں دے سکتا۔ سرد و گرم، ٹھنڈے میٹھے، تلخ و شیریں معاملات تو چلتے ہی رہتے ہیں، ماں، بچّوں، بہن، بھائیوں میں بھی چپقلش ہوجاتی ہے، مطلب رویوں، مزاجوں میں نرمی، ترشی زندگی کی حصّہ ہے، لیکن کاروبار میں کوئی بڑا نقصان ہوجائے اور عورت چاہےکہ مرد سب بھول کربس مجھ پرصدقے واری ہوتا رہے، تو یہ توممکن نہیں۔ یعنی رویے کی دھوپ کا شکوہ ہروقت درست نہیں ہوتا، خُود عورت کا مُوڈ بھی اکثرسرد اورخشک ہوجاتا ہے، حضرات بھی تو برداشت کرتے ہیں۔
اپنی بات کریں، تو55سالہ ازدواجی زندگی میں ہم نے اہلیہ کو کبھی کسی بڑی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ احباب، رشتے دار ہماری مثالیں دیتے ہیں اور وہ بھی جاں نثاری، خدمت گزاری میں کسر نہیں چھوڑتیں۔ خیر، ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود قوم پرستی پر بننے والی فلموں’’مائی بوائےجیک، لارنس آف عریبیہ اور مائیکل کولنز‘‘کا تذکرہ کررہے تھے۔ لارنس آف عریبیہ کی ’’حب الوطنی‘‘ ہی نے تو خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کیا۔
عربوں میں قومیت پرستی کا ایسا زہر گھولا کہ وہ تُرکوں کے خون کے پیاسے ہوگئےاور پھر مسلمانوں کا ایسا شیرازہ بکھراکہ آج تک سنبھل نہیں پائے۔ منور راجپوت نئی کتابوں پرتبصرہ کررہے تھے۔’’جہانِ دیگر‘‘ میں خالد ارشاد صوفی پیرس کے سفر کی رُوداد سُنارہےتھے۔’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں واقعات اثر انگیز، نصیحت آموز تھے اور کنول بہزاد کا افسانہ ہمارے گھریلو معاملات کی عکاسی کر رہا تھا،جب کہ ہمارے صفحے میں ہمیں اعزازی چِٹھی کا حق دار قرار دینےکا بےحد شکریہ، باقی لکھاری بھی اچھی کاوشیں لائے۔ (شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی، میرپور خاص)
ج: لگتا ہے، آپ نے یہ نامہ خاصی تاخیر سے پوسٹ کیا، یا شاید محکمۂ ڈاک کی سُست روی کاشکارہوااوراب تک کہیں راہ ہی میں استراحت فرما رہا تھا، لیکن چوں کہ تبصرہ معیاری ہے، اِس لیے’’دیرآید، درست آید‘‘کےمثل شاملِ اشاعت کیے دے رہے ہیں۔
* اُمید ہے، آپ اور آپ کی ٹیم بخیریت ہوگی۔ 10 مارچ کے جریدے میں ’’قصّہ معجزۂ شق القمر‘‘ پڑھا، معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر شکیل احمد کا مضمون ’’ماہِ صیام کے روزے: ذیابطیس کے مریضوں کے لیے رہنما اصول‘‘ بھی بہت ہی اہم، معلوماتی مضمون تھا۔ پھر رمضان المبارک ہی کی مناسبت سے ماہین سلیم اور ڈاکٹر عزیزہ انجم کی تحریریں بھی انتہائی شان دار تھیں۔ (وقار الحسن)
* سنڈے میگزین آج پھر روایتی انداز میں ملا، جریدہ کھولتے ہی ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کےمضمون کو بہت معلوماتی، دل چسپی سے بھرپور پایا۔ آگے نظر دوڑائی، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ایک اورلازوال قصّہ پڑھنے کو ملا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں غزہ سے متعلق پڑھ کر دل دُکھ سے بھر گیا۔ اسرائیلی بربریت دیکھ کردل خُون کے آنسوروتا ہے، اوراپنی بےبسی و کم مائیگی پرشدید افسوس بھی ہوتا ہے۔ اے کاش! ہمارا بھی دنیا میں کوئی مقام، وزن ہوتا۔ ہماری اتنی حیثیت ہوتی کہ ہم ان بدمعاش اسرائیلیوں کو سبق سکھا سکتے۔’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں مریم نواز سے متعلق پڑھا، اچھا مضمون تھا۔
’’ہمارے ادارے‘‘ کےذریعےقائدِاعظم اکیڈمی سے متعلق حکومتی لاپروائی بھی کُھل کے سامنے آگئی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر شکیل احمد کا مضمون کافی معلوماتی تھا، تو ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے رمضان المبارک کے حوالے سے اچھی تحریر رقم کی۔ ڈاکٹر معین نواز کامضمون بھی قابلِ تعریف تھا۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ بہت دل چسپ رہی۔ اور اختر سعیدی نے نئی کتابوں میں ادبی رُوح بھی خُوب پھونکی۔ آخر آپہنچے، اپنے صفحے پر۔ پورے صفحے پر بس ایک میرا نام ہی نہیں تھا۔ اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔ (حسینی خضر حیاۃ البشارت، الفلاح سوسائٹی، کراچی)
ج: اِک آپ کا نام نہیں تھا، مطلب باقی پوری دنیا کے اسمائے گرامی موجود تھے؟؟ اچھی خاصی ای میل کے آخر میں پتا نہیں کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ۔ اورآپ کا نام توتب ہونا تھا ناں، جب آپ نے کچھ لکھ بھیجا ہوتا۔ وگرنہ ہم پر کوئی الہام تھوڑی اُترتےہیں۔خصوصاً آپ کا نام تواتنا منفرد ہے کہ نہ ہر کسی کا ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہمارے سان و گمان میں بھی آسکتا ہے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk