• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

خوف ناک ساس کا رُوپ؟؟

اُمید ہے، خیریت سے ہوں گی۔ دُعا ہے، تمام لکھاری، قارئین بھی خیر وعافیت سے ہوں۔ آپ کا رائٹ اَپ بعنوان ؎ دل میں بارات ہے ٹھہری ہوئی ارمانوں کی… پڑھ کر آنکھیں بےاختیار ہی بَھر آئیں کہ واقعی، بیٹیاں تو پرایا دَھن ہی ہوتی ہیں۔ مگر کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ یہی بیٹیاں دنیا کے سب مصائب و الم برداشت کرنے کے بعد پھر خُود ایک خوف ناک ساس کا رُوپ کیسےدھارلیتی ہیں۔ کیوں کہ ہر ساس بھی کبھی بیٹی اور بہو تو ہوتی ہے ناں۔ میرا تو ماننا ہے کہ بڑےگھر، خاندان وہی ہوتے ہیں، جہاں بہوؤں کو بیٹیاں سمجھا جاتا ہے۔

’’حالات و واقعات‘‘ سے اندازہ ہوا کہ انڈونیشیا کے انتخابات پاکستان سے بہت ملتے جُلتے ہیں، لیکن یہاں اِس ایک ’’حقیقی آزادی‘‘ نے سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ منور مرزا بے چارے ہر ہفتے ہی خُوب سمجھاتے بجھاتے رہتے ہیں، لیکن ہم بھی ’’زمین جنبد، نہ جنبد گل محمّد‘‘ ہی کے موافق ہیں۔ ’’قیامِ امن میں بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ نسرین جبیں کی اچھی کاوش تھی۔ اگر ہم نبی پاکﷺ کے حُسنِ سلوک اورآپ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی تعلیمات پرعمل پیرا ہوجائیں، تو دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے۔ 

محمود میاں نجمی ’’فتحِ مبین اور بیعتِ رضوان‘‘ پرگفتگو کررہے تھے، سبحان اللہ۔ ’’پاکستان کی قدیم تہذیبیں‘‘ متعارف کروائیں، مدثر اعجاز نے اور عمیر جمیل ’’حسن بن صباح‘‘ اور ان کے فدائیوں کا تذکرہ لائے۔ اور اب اپنے ہفتے بھر کے انتظار کے اصل صلے کی بات، سب ہی خطوط نگار مندرجات پر تبصرے کی صُورت مَن کی باتیں کرتے دکھائی دئیے، جب کہ سدرہ فیصل نے بڑی سمجھ داری سے ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز سمیٹا اور ماہ نورکی تو آپ نے بہت ہی حوصلہ افزائی کی۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، کوٹ ادّو، ضلع مظفر گڑھ)

ج: ہم ہر اُس لکھاری کی تعریف،حوصلہ افزائی ضرورکرتے ہیں، جو واقعی قابلِ تعریف ہو اور ہماری باتوں پرذرا سا بھی کان دھرے۔ گرچہ آپ کی بھی مسلسل پذیرائی ہورہی ہے کہ غالباً ہردوسرے ہفتے خط شاملِ اشاعت ہوتا ہے، مگر ہماری اُس دست بستہ التجا کا آپ نےہرگز کوئی نوٹس نہیں لیا، جو آپ سے حاشیہ، سطر چھوڑنے سے متعلق کی تھی۔ آپ ایک کی جگہ دو صفحات استعمال کر لیں، لیکن سطروں کے درمیان ایڈیٹنگ کی جگہ توچھوڑیں یا پھرآپ کو خُود پر اتنا مان ہے کہ آپ کی تحریر کو قلم لگانے کی ضرورت ہی نہیں۔ رہی بات خوف ناک ساسوں کی، تو ہمارے خیال میں کچھ ہندوانہ رسم ورواج کے اثرات کا شاخسانہ ہے، کچھ خواتین فطری حسد و رقابت، انتقامی جذبات کے تحت بھی ناروا رویہ اختیار کرتی ہیں، جب کہ اس ضمن میں میڈیا نے بھی انتہائی منفی اور قابلِ مذمّت کردار ادا کیا ہے۔

اعتراض ملک کی بہن

اس بار بھی دوہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے شان دار صفحات موجود تھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں بتایا گیا کہ ’’اسرائیل نے امن معاہدے پرزے پرزے کر ڈالے‘‘ دراصل اسرائیل کو ایک عالمی طاقت کی حمایت جو حاصل ہے، اِسی لیے وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ واقعی مخلوط حکومت کو بڑے بڑے چینلجز کا سامنا ہے اور اُس مضمون کی اوور لائن بہت ہی اعلیٰ تھی کہ ؎ اِک آگ کا دریا ہے، اور ڈوب کے جانا ہے۔

روشنیوں، خوشبوؤں کے شہر، شہرِ محبّت، پیرس کے سفر کی آخری اقساط بھی پہلی قسطوں کی طرح شان دار رہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں درست کہا گیا کہ پوری تیاری سے میدان میں اُتریں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے بعد کیا ہوگا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اب تو ہر الیکشن ہی میں خواتین کی شرکت مثالی ہوتی ہے، جیسا کہ اس بارہوا۔ اور ہاں، شہناز سلطانہ کوآپ جیسا مرضی کرارا جواب دے دیں، لگتا ہے، انہوں نے اعتراض ملک کی بہن بن کر ہی دکھانا ہے۔ نیز، دونوں شماروں میں ناچیزکےخطوط شامل تھے، اِس عزت افزائی کا بہت بہت شکریہ۔ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)

ج: ویسے تو اس بزم میں عموماً حضرات ہی کا داخلہ بند کیا گیا، مگر یہ غالباً پہلی خاتون ہیں، جنہوں نے اِس حد تک زچ کر دیا ہے کہ (ہر دوسرے دن ایک ہی جیسے مضمون پر مبنی خطوط بھیجے جاتی ہیں) اب سوچ رہے ہیں، اِن کی اینٹری ہی بند کردی جائے۔

شُکر گزاری کے کلمات

جاتے جاتے یوں پلٹ آئے کہ25 فروری کے شمارے میں، سدرہ کے خط کے ایک جملے ’’نازلی فیصل کا مکھن بَھرا سندیسہ ‘‘ نے چونکا دیا۔ حیران و پریشان ہوئے کہ ارے ہم اتنے دنیا دار کب سے ہوگئے کہ دنیا کو مکھن لگا بیٹھے۔ کاش ہوتے، خیر جانے دو۔ سدرہ! آپ جسے مکھن بھرا سندیسہ سمجھ بیٹھی ہیں، وہ دراصل شُکر گزاری کے وہ کلمات ہیں، جو ہماری سن84ء میں جام گاڑی کو (بیٹے کی وفات کےبعد) سن 2020ء میں نرجس ملک کی تحریری ہم کلامی نے یوں چالو کیا کہ جو گاڑی، قلمی اسٹیشن پر کھڑی ’’منزل کی تلاش میں سرگرداں‘‘ تھی، خود بخود رواں ہوگئی۔ ہمارا یہ دوبارہ قلمی سفر، سنڈے میگزین میں پہلے دُعاؤں اور پھر ہمارے پہلے خط ’’سالوں کا سویا ہوا قلم‘‘ کی اشاعت سے شروع ہوا۔

بعدازاں، یکے بعد دیگرے اعزازی چٹھیوں اور تحریروں کی اشاعت نے مزید رنگ بھرا اور نرجس ملک کا جملہ ’’قلم اُٹھا ہی لیا ہے، تو رکھیے گا مَت‘‘ یوں مشعلِ راہ بنا کہ 2020ء سے اب تک چلتے ہوئے قلم کو کوئی روک نہ سکا۔ وہ کام، جو ہماری بڑی بہن (پروین یوسف شامی، جوبہت اچھی ناول نگار و افسانہ نگار تھیں) انتہائی کوششوں کے باوجود اپنی موت تک نہ کر سکیں، وہ سنڈے میگزین کی ایڈیٹر کے الفاظ کی مسیحائی نے کر دکھایا۔ تو پھر ایسی ہستی کے لیے خُدا کی شُکر گزاری کےبعد، شکریے کے کلمات تولازم ہی تھے۔ یہ ہماری ذات پراُن کا وہ قرضِ حسنہ ہے، جوہم تمام عُمر نہیں اُتارسکتے۔ 

آپ آج اپنے خط کے جواب میں، اُن کا قدردانی کی خُوشبو سے مہکتا جواب دیکھیے، تو یقیناً آپ کے دل میں بھی اُن کے لیے وہی جذبات ہوں گے، جو ہمارےدل میں ہیں۔ لگ بھگ سب ہی کے خطوں کے جوابات پڑھتے ہوئے جو اندرکا رُخ کیا، تو ذوقِ مطالعہ کی عادت نےاِس قدر محو کردیا کہ گردوپیش کی خبر نہ رہی۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قصّہ سورۂ فتح کے نزول کا‘‘نے باور کرایا کہ وہ مالک جب چاہے اُمیدوں کے سوکھے نخل ہرے کرکے فتح سےہم کنار کردے۔ نسرین جبیں کا ’’فیچر‘‘ پڑھا۔ واقعی، صبروبرداشت کا پہلا درس ’’خیر ہے، کوئی بات نہیں‘‘ جیسا جملہ تو اب کہیں مرکھپ ہی گیاہے۔ اب تو بچّوں، نوجوانوں کی تربیت کا یہ حال ہے کہ ’’چُپ مت رہو،اینٹ کاجواب پتھرسےدو‘‘ گویا گُھٹّی میں ڈالا جارہا ہے۔ 

تبھی تو معاشرے سے امن و شانتی، ادب واحترام عنقا ہی ہوگیا ہے۔ پاکستان کی قدیم تہذیبوں کے رنگوں میں بے شمار رنگ جلوہ گر نظر آئے۔ ’’روشن مستقبل کے لیے اہداف کا تعیّن ہی زندگی میں مثبت تبدیلی لاسکتا ہے‘‘ لاجواب تحریرتھی۔ ’’ساڈا چڑیاں دا چنبہ وے، بابل اساں اُڈ جانا…‘‘ ملبوسات کے شوخ رنگوں کے ساتھ نرجس ملک، میکے کا بھولا بسرا خواب دِکھلا کر پھر اپنے حُسنِ تحریر سے چھائی نظر آئیں۔ جواب نہیں، اسلوبِ بیاں وتحریر کا۔ ’’حدِ نگاہ صفر‘‘سے ہوتے ہوئے ڈاکٹر قمر عباس کے شعر پر نظریں جم کررہ گئیں، جو موجودہ حالات کی صحیح عکّاسی کررہا تھا۔ اللہ کرے، نئی وزیرِاعلیٰ مریم نواز’’صنفِ نازک‘‘ سے ’’صنفِ آہن‘‘ بننے میں وہ کردار ادا کریں کہ ہم بھی کہہ اُٹھیں کہ بےشک، عورت قوم کے تعمیری ڈھانچےمیں ریڑھ کی ہڈی کے مترادف ہے، جو مَردوں کے شانہ بشانہ اپنا ہر فرض بخوبی نبھانا جانتی ہے، کیوں کہ بہرکیف ’’اِسی کے شعلے سے ٹُوٹا شرار افلاطوں‘‘۔ ( نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج: آپ نے ہماری تعریف و توصیف میں اِس قدر زمین آسمان کے قلابے نہ ملا رکھے ہوتے تو یقیناً ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی حق دار ٹھہرتیں۔

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا…؟؟

وقت کوکب فرصت ہے کہ رُک کر پوچھے… کس نے کس حال میں کس شے کی تمنّا کی تھی۔ ؎ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا، مُلکی تاریخ، اسلامی لحاظ سے تقریباً80سال کے لگ بھگ ہے اور میرے علم کے مطابق 1985ء تک72 ڈبّوں پر مشتمل مال گاڑی کیماڑی یارڈ سے چلتی تھی اوراِس میں2200 ٹن کی گنجائش تھی، جب کہ اُس دور میں 20 مال گاڑیاں چلا کرتی تھیں۔ اگر میرے لکھے پر یقین نہیں، تواُس دَور کے کسی آفیسر سے کنفرم کرلو۔ وہ کیا ہے کہ ؎ فنافی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے… جسے مرنا نہیں آتا، اُسے جینا نہیں آتا۔ (سیّد ارشاد عظیمی، آگرہ تاج کالونی،کراچی)

ج: ارے بھئی، کوئی ’’ہمیں‘‘ بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا…؟؟ پورے جنگ اخبار کے کسی صفحے، سلسلے، کونے کُھدرے میں جہاں آپ کو کوئی سقم، خامی، غلطی، کوتاہی نظرآتی ہے،آپ فوراً مارک کر کے ہمارے متّھے مار دیتے ہیں اور پچھلے کئی ماہ سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس بار بھی اِس خط کے ساتھ آپ نے اخبار کی کسی خبر کی کٹنگ منسلک کر رکھی ہے۔ محترم! پہلے تو ایک بات گرہ سے باندھ لیں کہ ہم لگ بھگ پچھلے 25 برسوں سے جنگ کے شعبۂ میگزین سے منسلک ہیں اور اس وقت بھی ہماری ذمّےداریاں محض ایڈیٹر’’سنڈے میگزین‘‘ تک محدود ہیں۔ 

اس جریدے کے سوا باقی کہیں کسی شعبےمیں (صفحے، سلسلے، خبرمیں بھی) کیا، کیوں، کیسے ہوا، ہمارا اِس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ آپ اغلاط کی نشان دہی بصد شوق کریں، لیکن اُن کے ذمّے داران تک پہنچانے کی بھی سعی کریں۔ یہ جوآپ کئی ماہ سے ہرغلطی ہمارے کھاتے ڈال کر، ہمیں معتوب کیے جا رہے ہیں، اِس سے علاوہ ہمارے سردرد میں اضافے کے، کچھ حاصل وصول نہیں ہورہا۔ پھر چوں کہ آپ کی تحریر بھی قطعاً بے سروپا ہوتی ہے، اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ کس صفحے کی، کب کی، کس غلطی کی اصلاح فرمائی جا رہی ہے، توہم میسنجر کا فریضہ بھی انجام نہیں دے پاتےکہ خط متعلقہ شعبے ہی تک پہنچا دیں۔

میگزین کے معیار کی عکاسی

آپ اور آپ کی پوری ٹیم بڑی محنت اور جاں فشانی سے اپنے فرائضِ منصبی سر انجام دے رہی ہے۔ محمود میاں نجمی کی تحریر ’’قصّہ دنیا کی بدترین قوم بنی اسرائیل کا‘‘، غزوہ بدر سے متعلق ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کی کاوش اور ڈاکٹرمعین الدین عقیل کی تحریر’’23 مارچ کی ہماری قومی وسیاسی تاریخ میں اہمیت‘‘ سمیت دیگر مضامین کافی معلوماتی تھے۔ بلاشبہ ان لکھاریوں کی تحریروں نے سنڈے میگزین کو چارچاند لگادئیے۔ یوں بھی ایک اچھی تحریر ہی میگزین کے معیار کی عکّاسی کرتی ہے اور قاری ان تحریروں کو پڑھ کرہی خُوب محظوظ ہوتا ہے۔ ’’روزہ اور دوسری اقوام و مذاہب‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر ارسالِ خدمت ہے۔ اُمید ہے، شائع کرکے شکریہ کا موقع دیں گی۔ (بابرسلیم خاں، سلامت پورہ، لاہور)

ج: دراصل آپ خُود ہی ہمیں یہ موقع فراہم نہیں کرنے دیتے۔ آپ کی بیش تر تحریریں اِس قدر تاخیر سے وصول پاتی ہیں کہ جس موقعے کی مناسبت سے لکھی گئی ہوتی ہیں، اُس کے وصال کو بھی زمانہ ہوچُکا ہوتا ہے۔

            فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

3 مارچ کا شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر ماڈل کےعشوہ و انداز دیکھتےآگے بڑھ گئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا حُکم رانوں کو ہارجیت کے جھگڑے میں پڑنے کی بجائے مُلکی مسائل کے گمبھیر ہونے کی نشان دہی کرکے اُن کے حل کی تاکید کررہے تھے کہ اِسی سے ملکی بقا مشروط ہے۔ کیوں کہ اگر منہگائی، غربت اور بے روزگاری کا سدِباب نہ ہوا تو خدانخواستہ پریشان حال عوام ’’تنگ آمد، بجنگ آمد‘‘ پرآمادہ نہ ہوجائیں اور جس کا ہراول دستہ بے روزگار نوجوان ہوں گے۔ ’’قصص القرآن‘‘ کے عنوان سے محمود میاں نجمی ’’اصحابِ فیل‘‘ کا قصّہ لائے، معلومات میں بےحد اضافہ ہوا۔ رستم علی خان ریڈ لائن منصوبہ مکمل نہ ہونے پر نوحہ کُناں تھے، جب کہ یہ توحُکم رانوں کی روایت ہے۔ ہمارا شاید ہی کوئی منصوبہ بروقت مکمل ہوا ہو۔

تخمینے کا بجٹ جب تک دُگنا نہ ہوجائے، منصوبہ مکمل نہیں ہوسکتا کہ پھر اُسی حساب سےاُن کا حصّہ بھی ڈبل ہوجاتاہے۔ قومی خزانے پر بوجھ بڑھے یا عوام پریشان ہوں، یہ صاحبانِ اقتدار کا مسئلہ نہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں فاروق اقدس انتخابات کے حوالے سے الزامات اور نتائج تسلیم نہ کرنے کی روایت بیان کررہے تھے، وہیں یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ اِس الیکشن میں خواتین اُمیدواروں نے بھی بھرپور مقابلہ کیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ ہی میں رؤف ظفر بھی خواتین کی بھرپور شرکت اور پارلیمان میں پہنچنے کا تذکرہ کررہے تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے عورت سے متعلق مختلف دانش وَروں اور لیڈروں کے خیالات اور اقوال سے آگاہ کیا۔ 

علاّمہ صاحب نے بھی تو فرمایا ہے ؎ وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ۔ مریم نواز کا وزیرِاعلیٰ پنجاب منتخب ہونے پر خطاب پُرجوش تھا۔ صحیح معنوں میں یہ ایک یادگار تقریر تھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مبشرہ خالد فیمینزم کے مثبت اور منفی پہلوئوں سے آگاہ کر رہی تھیں۔ بڑی اچھی بات کی کہ مرد سے نہیں، مرد کے بُرے رویّوں سے نفرت کی جائے کہ مرد وعورت تو ایک گاڑی کے دو پہیّے ہیں۔ 

لبنٰی آصف آلو کے پکوان سے ناشتے کا اہتمام کررہی تھیں، تو’’ڈائجسٹ‘‘میں قراۃ العین فاروق ’’ماسٹر شیف‘‘ کے عنوان سے اچھا افسانہ لائیں۔ ’’اچھی عورت‘‘ کے عنوان سےایڈیٹر صاحبہ کا افسانچہ بھی ایک انتہائی خُوب صُورت تحریر تھی، جو لگ بھگ ہر مشرقی عورت کی زندگی کا مکمل احاطہ کرتا محسوس ہوا۔ کیفی اعظمی کی نظم کابھی جواب نہ تھا۔

’’جہان دیگر‘‘ میں خالد ارشاد صوفی اپنے سفرنامے کی آخری قسط کے ساتھ موجود تھے۔ نئی کتابوں پر منور راجپوت نے حسبِ معمول ماہرانہ تبصرہ کیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں 1971ء کی ایک الم ناک داستان روبینہ ادریس نے سُنائی۔ کیا حب الوطنی غداری ہے؟ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم نے کسی بھی عالمی فورم پراپنےمظلوم محصور بھائیوں کا کیس نہیں لڑا، جب کہ بھارت تو اپنے جاسوس کلبھوشن کا کیس عالمی عدالت میں لے گیا۔ اور…ہمارے صفحے پر ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز خالدہ سمیع کو حاصل ہوا، بہت مبارک ہو۔ باقی لکھاری بھی اچھی کاوشیں لائے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)

ج:چلیں، آج یہ اعزاز آپ کو حاصل ہوگیا۔

گوشہ برقی خطوط

* یقین کریں، میگزین میں اتنےعرصے بعد اپنی ای میل دیکھ کے بہت ہی خُوشی ہوئی اور اُس سے بھی زیادہ خُوشی آپ کا جواب پڑھ کے ہوئی کہ آپ مجھے یاد کررہی تھیں۔ خالد ارشاد صوفی کا سفرنامہ شان دار جا رہا ہے۔ جنّات کا قصّہ پڑھ کے تو ایک عجب خوف سا طاری ہوگیا اپنے اکیلےگھرمیں کسی کی موجودگی محسوس ہونے لگی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعے ”جھوٹی انا اور جوانی کا جوش“ کا اختتام پڑھ کے تو بہت ہی حیرانی ہوئی۔ جب بھی ’’اسٹائل‘‘ کا صفحہ دیکھتی ہوں، توعجیب سی خلش ہوتی ہے کہ اے کاش! ہمیں بھی کبھی ایسے پہناوے پہننے کا کوئی موقع ملے۔ غالباً سال بھر ہوگیا، مجھے کسی شادی بیاہ کی تقریب میں شریک ہوئے۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

ج: اور یہاں یہ سمجھاجاتا ہے کہ امریکا، برطانیہ میں رہنے والے تو گویا جنّتِ ارضی کے مکین ہیں۔

* نیا ناول کب تک شروع کریں گی؟؟ پلیز، جلد کوئی اچھا سا ناول شروع کر دیں۔ میگزین پڑھنے کا اصل مزہ توناول کےساتھ ہی آتا ہے۔ اورمحمود میاں نجمی جریدے کے لیے بہترین خدمات پیش کررہے ہیں۔ اللہ پاک اُن کو جزائے خیر دے۔ (افشاں حسن، مصطفیٰ ٹائون، وحدت روڈ، لاہور)

ج: فی الحال تو کوئی بھی نیا ناول شروع کرنا بہت مشکل ہے۔ ہم جریدے کے ضمن میں ویسے ہی صفحات کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ اس وقت تو روزمرّہ سلسلوں کی باقاعدہ اشاعت ہی محال ہے۔ دوم، یہ کہ کوئی بہت اچھا ناول پائپ لائن میں بھی نہیں۔ نو آموز ناول نگاروں کے کچھ ناولز آئے ہیں، لیکن اُن میں سے بھی کوئی قابلِ اشاعت نہیں۔

* محمود میاں نجمی کے مضمون “ قصّہ اصحابِ فِیل“ کا مطالعہ کیا۔ ماشاء اللّٰہ، بہت ہی معلوماتی اورایمان افروز واقعہ تحریر کیا گیا۔ ابرہہ کا تو آج نام و نشان بھی نہیں، لیکن الحمدللہ، خانہ کعبہ پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اور پوری دنیا کے لیے رشد و ہدایت کا منبع بھی ہے۔ (ڈاکٹر ایم عارف سکندری، کھوکھر محلہ، حیدرآباد، سندھ)

ج: جی بے شک۔ اِن ’’قصص القرآن‘‘ کے بیان کا مقصد بھی یہی ہے کہ اُمتِ مسلمہ کا ایمان تازہ ہو۔ تربیت و رہنمائی کے ساتھ کچھ درسِ عبرت بھی ملے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk