جرمنی کی شکست کا، الزام یہودیوں پر: پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی کی شکست قوم کے لیے ناقابلِ قبول تھی۔ پھر جنگ کے بعد معاہدئہ وارساکے تحت پابندیوں کا سامنا اور جنگ میں ہونے والے نقصانات کی تلافی جیسے فیصلوں نے جہاں ایک طرف جرمن قوم کو سخت ترین معاشی نقصانات سے دوچار کیا، وہاں دوسری طرف سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں لبرل جمہوریت کا وجود بھی خطرے میں پڑگیا۔
فوج میں شامل ایک لاکھ یہودیوں کو شکست کا ذمّے دار قرار دے کر یہود دشمنی کو فروغ دیا گیا، جس کے بعد انتہاپسندی نے جنم لیا، جو جلد ہی عروج پر پہنچ گئی۔ دشمنوں سے انتقام لینے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ منہگائی عروج پر پہنچی، معیشت زوال پذیر ہوئی، کارخانے بند ہونے لگے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا۔ معیشت کی اس خرابی کا تمام تر ملبہ بھی یہودیوں پر ڈالا گیا، کیوں کہ جرمنی کی معیشت یہودیوں کے ہاتھوں میں تھی۔
جرمن قوم کا تعلق آریا نسل سے ہے، جو خود کو سب سے برتر سمجھتے اور پوری دنیا میں حکومت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس شکست نے برتری کی اس سوچ کو بھی پروان چڑھایا، جس کے نتیجے میں انتہاپسندی، انتقام، نسل پرستی اور تشدّد کی سیاست کو فروغ ملا، توسیع پسندانہ عزائم کی حامل جرمن قوم موجودہ نظام سے باغی ہوچکی تھی اور یہی وہ وقت تھا کہ جب1920ء میں ہٹلر کی نازی پارٹی نے نسل پرستی، آمریت، فاشزم اور انتہاپسندی کی گود میں جنم لیا۔1921ء میں ایڈولف ہٹلر پارٹی کا چیئرمین منتخب ہوا۔ 30 جنوری 1933ء کو وہ جرمنی کا چانسلر نام زَد ہوکر مُلک کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔
ہٹلر، کرشماتی شخصیت کا حامل، نہایت باصلاحیت، ذہین، نڈر اور قوم پرست انسان تھا، جو قوم کے جذبات سے کھیلنے کا ہُنرخُوب جانتا تھا۔ ہٹلر کی شخصیت کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ وہ نہایت شاطر، عیّار، موقع پرست، ظالم اور اذیّت پسند انسان تھا۔ اس کی یہود دشمنی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں تھی۔ ہٹلر نے جب پارٹی قیادت سنبھالی تو اپنے27نکات کا اعلان کیا، جن میں سرِفہرست وارسا معاہدے کا خاتمہ، یہودیوں کی مُلک سے بے دخلی اور دنیا میں جرمنی کی حکومت قائم کرنا شامل تھے اور شکست خوردہ جرمن قوم کے لیے یہ انقلابی و جذباتی نعرے بڑے پُرکشش تھے۔
ہولوکاسٹ کی حقیقت: ہولوکاسٹ (Holocaust)، یونانی لفظ Holokhuston سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں، ’’مکمل جلا دینا۔‘‘ ہولوکاسٹ کا اُردو ترجمہ‘‘ مرگِ انبوہ‘‘ ہے۔ اسے دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کے قتلِ عام سے منسوب کیا گیا، لیکن دراصل یہ جرمنی کی نازی حکومت کی یہودیوں سمیت اُن تمام افراد کے خلاف ایک بھرپور مہم تھی، جنہیں وہ ریاست دشمن یا ریاست پر بوجھ سمجھتے تھے۔ ان میں اشتراکیت پسند، غلام، مغرور، ہم جنس پرست اور سیاسی و مذہبی اقلیتیں شامل تھیں۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ مقتل گاہیں قائم کی گئیں، لیکن یہودیوں کواس لیے بھی زیادہ ہدف بنایا گیا کہ نازی اُن سے شدید نفرت کرتے تھے۔ درحقیقت یہود دشمنی اُن کے نظریے کا بنیادی اصول تھا، اور یہ دشمنی صرف نازیوں ہی کی ایجاد کردہ نہیں، بلکہ یہ ایک قدیم اور عالم گیر تعصّب ہے۔
قرونِ وسطیٰ میں یہودیوں کے خلاف تعصّب اور نفرت، بنیادی عیسائی عقیدے اور نظریے کی اساس تھا۔ عیسائیوں کی نظر میں حضرت عیسیٰ ؑ کی موت کے ذمّے دار یہودی تھے۔ نازی حکومت کی نظر میں پہلی جنگِ عظیم میں شکست کے علاوہ جرمنی کی سیاسی، اقتصادی، سماجی و ثقافتی تباہی سمیت کساد بازاری کے ذمّے دار یہودی تھے، جو جرمن انتظامی امور میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے۔ چناں چہ ہٹلر کے برسرِاقتدارآنے کے بعد 1933ء سے 1945ء تک نازی جرمنی اور اُس کے اتحادیوں نے وسیع پیمانے پر یہود دشمن قوانین بنائے اور یہودیوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا۔1941ء میں ’’یہودی کا آخرل دل‘‘ کی اصطلاح متعارف کروائی گئی، جس کے تحت اُن کے اجتماعی قتلِ عام کا فیصلہ کیا گیا۔
اس مقصد کے لیے پولینڈ میں قتل گاہیں تعمیر کی گئیں۔ ہولوکاسٹ انسائیکلو پیڈیا کے مطابق 1933ء سے 1945ء تک چھے ملین یہودیوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ یعنی تقریباً ہر تین یورپی یہودیوں میں سے دو کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ یہ بات کتنی حیران کُن ہے کہ بعدازاں فرانس اور جرمنی سمیت دنیا کے13ممالک کے یورپی اتحاد نے ہولوکاسٹ پر شک کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ ہولوکاسٹ پر تحقیقی مواد شائع کرنے یا تحقیقی بحث کرنے پر تین سے دس سال تک قید کی سزا اور جرمانے بھی ہوسکتے ہیں۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیون، 23اپریل 2007ء) یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس وقت یورپ اور امریکا میں محقّقین اور دانش وَروں کی ایک بڑی تعداد اتنے بڑے قتلِ عام کو جھوٹ کا پُلندہ قرار دیتی ہے۔ اُن کی نظر میں عالمی یہودی تنظیم نے ہولوکاسٹ کی اختراع یا مبالغہ آرائی یہودی مفادات کو آگے بڑھانے کی سازش کے تحت کی ہے، جس کا مقصد ڈر اور خوف کے تحت زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہودیوں کی فلسطین کی جانب نقل مکانی قرار دیا جاسکتا ہے۔
گریٹر یہودی ریاست ،اسرائیل کے قیام کا منظّم منصوبہ
امن کانفرنس میں صیہونی تنظیم کا دعویٰ: صیہونی تنظیم کے بانی، تھیوڈوہرتزل نے 1896ء میں تحریر کردہ اپنی کتاب ’’یہودی ریاست‘‘ میں بیسویں صدی میں سرزمینِ فلسطین پر مستقبل کی خُودمختار آزاد صیہونی ریاست کے قیام کا جو تصوّر پیش کیا تھا، اُسے حقیقت کا رُوپ دینے کے لیے عملی اقدام کرتے ہوئے صیہونی تنظیم نے 1919ء کی پیرس امن کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا کہ فلسطین، یہودیوں کی سرزمین ہے اور وہاں ایک آزاد صیہونی ریاست کا قیام ہماری پہلی ترجیح ہے۔ 1919ء میں جس وقت یہ دعویٰ کیا جارہا تھا، اُس وقت زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس تھے۔
فلسطین میں یہودی آبادی صرف 5فی صد، مسیحی 10فی صد اور مسلمان 82فی صد تھے۔ یہودیوں کو وہاں سے نقل مکانی کیے ہوئے دوہزار سال گزر چکے تھے۔ جب کہ یہ جگہ نہ صرف مسلمانوں کے آبائواجداد کی سرزمین تھی، بلکہ ساڑھے تیرہ سوسال تک مسلمان اس مقدّس سرزمین پر حکم رانی کرتے رہے۔ یہ وہ حقائق ہیں، جو صیہونی تنظیم کے ذمّے داروں کے لیے پریشانی کا باعث تھے۔ اب واحد صُورت یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا جائے، لیکن یہ اتنا آسان بھی نہ تھا۔
مختلف ممالک میں رہائش پذیر یہودی عبادت کی غرض سے تو فلسطین جانے کو تیار تھے، لیکن صدیوں سے مقیم اپنے آبائواجداد کی جگہ چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے اور پھر یہ اُن کی اپنی جائے پیدائش بھی تھی۔ اُس وقت یہودیوں کی اکثریت جرمنی سمیت مشرقی یورپ کے مختلف ممالک میں قیام پذیر تھی۔ 1921ء میں ہٹلر نے نازی پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی، تو مُلک میں یہود دشمنی کے واقعات میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ یہاں تک کہ 1933ء میں ہٹلربرسراقتدارآگیا اور سام دشمنی سمیت ہولوکاسٹ کے پُرتشدد واقعات نے یہودیوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا۔ یہودی آبادیوں پر مسلّح جتّھوں کے حملوں میں تیزی آگئی۔
یہودیوں کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا۔ کاروبار تباہ، ان کی دکانوں، کارخانوں کو نذرِ آتش کردیا گیا۔ سرِعام قتل کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوگیا۔ یہودیوں کے لیے اُن کی اپنی بستیاں بھی محفوظ نہ رہیں۔ یقیناً ان تمام انسانیت سوز اور ہول ناک واقعات کی تمام تر ذمّے داری نازی پارٹی پر آتی ہے، لیکن اس وحشت ناک صُورت میں عالمی صیہونی تنظیم کے پُراسرار کردار اور اُن کی اس حکمتِ عملی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جو انہوں نے یہودیوں کی بڑی تعداد میں فلسطین کی جانب نقل مکانی کے لیے اپنائی تھی۔ ان کے نظریے کے مطابق، مقصد کے حصول کے لیے جائز یا ناجائز، غلط یا صحیح ہر قسم کا حربہ استعمال کیا جائے۔ اس اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے صیہونی تنظیم نےجو حکمتِ عملی اپنائی، اس کے چند نکات درج ذیل ہیں۔
’’1-یہودی اگر نقل مکانی کے لیے تیار نہ ہوں، تو اُن میں اس قدر خوف ہراس پیدا کیا جائے کہ وہ خُود ہی مُلک بدری پر مجبور ہوجائیں۔2-سام دشمنی، ہولوکاسٹ کے واقعات میں خفیہ طور پر شامل ہوکر یہودی آبادیوں پر حملے کرنا۔3-عالمی سطح پر یہود دشمنی کے واقعات بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔4-تحریر و تقریر سمیت تمام تشہیری ذرائع کی مدد سے یہودیوں کو دنیا کی سب سے مظلوم و مجبور اور معصوم قوم ظاہر کرنا۔5-دنیا بھر کے یہودیوں کو متحد و منظم کرنے کے لیے یورپ سمیت تمام اہم مُمالک میں تنظیمی ڈھانچے قائم کرنا۔6-سلطنتِ عثمانیہ سمیت تمام اہم ممالک اور عالمی تنظیموں سے مستقل بنیادوں پر رابطے قائم کرنا۔7-یورپ اور امریکا سمیت تمام ممالک میں اہم عہدوں پر فائز بااثر یہودیوں کو تنظیم کا رکن بنانا اور یہودی کاز کے لیے کام کرنے پر آمادہ کرنا۔8-یہودی علماء کے ذریعے ہفتے کے روز کی عبادت کے دوران فلسطین کی جانب نقل مکانی کو عبادت کا درجہ دینا۔9-صاحبِ حیثیت یہودیوں سمیت دیگر ذرائع سے رقوم کا حصول، تاکہ غریب اورغیرمستحکم یہودیوں کی نقل مکانی میں مدد کی جاسکے۔‘‘
یاد رہے کہ 19ویں صدی کی پہلی دہائی میں تنظیم کے مختلف شعبوں کا قیام عمل میں آیا، جنہوں نے مندرجہ بالا نکات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اپنے کام کو منظّم کیا، جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے اور پوری دنیا کے یہودی شدید خوف و ہراس کا شکار ہوگئے۔
مختلف ادوار میں فلسطین میں یہود آبادی کا تناسب:جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ 1919ء میں فلسطین کے اندر یہودی، آبادی کا صرف 5فی صد تھے، جب کہ مسیحی 10فی صد اور مسلمان 82فی صد تھے۔ 1922ء میں یہودی 12فی صد ہوگئے، جب کہ مسلمان 74فی صد رہ گئے۔ 1931ء میں یہودیوں کی آبادی 22فی صد اور مسلمانوں کی آبادی 64فی صد رہ گئی۔ 1941ء میں یہودی آبادی میں مزید اضافہ ہوا اور وہ 31فی صد ہوگئی، جب کہ مسلمان 60 فی صد اور مسیحیوں کی آبادی 11فی صد سے کم ہوکر 8فی صد رہ گئی۔ 1946ء میں یہودیوں کی آبادی 33فی صد، مسلمانوں کی 59فی صد اور مسیحی 7فی صد رہ گئے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق 27 سالوں میں یہودیوں کی آبادی 5فی صد سے بڑھ کر 33فی صد ہوگئی۔
ارضِ فلسطین پر یہودی ریاست کا قیام: یہود و نصاریٰ کی سازش کام یاب ہوئی اور29نومبر1947ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ارضِ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کرلی، یعنی ایک عرب اور دوسری یہودی۔ عرب ممالک نے اس قرارداد کی شدید مخالفت کی اور اسے فلسطین کے اصل باشندوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف قرار دیا، لیکن حقیقت سے پردہ پوشی کرتے ہوئے جیوش تنظیم کے سربراہ، ڈیوڈبن گوریان نے 14مئی 1948ء کو تل ابیب میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔ یوں امریکا، برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی سے ارضِ مقدّس، فلسطین میں ایک ناجائز، غاصب حکومت، اسرائیل نے جنم لیا۔
عرب ممالک نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور اگلے روز یعنی 15مئی 1948ء کو چار ہم سایہ ممالک، مصر، شام، اردن اورعراق کی افواج فلسطین میں داخل ہوگئیں۔ یہ جنگ تقریباً ایک سال تک جاری رہی، لیکن اس میں عرب افواج کو کام یابی نہ ہوسکی، بلکہ اسرائیل نے مزید علاقوں پر قبضہ کرلیا، یوں فلسطین کا 78فی صد حصّہ اسرائیل کے قبضے میں آگیا، جب کہ مشرقی یروشلم (بیت المقدّس) اور غربِ اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ اس طرح بیت المقدس کے مغربی حصّے پر اسرائیلی افواج اور مشرقی حصّے پر اردنی فوج کا کنٹرول ہوگیا۔ 20جولائی 1949ء کو ایک امن معاہدے کے تحت یہ جنگ ختم ہوئی، لیکن اس عرصے میں اسرائیل مزید آٹھ لاکھ مسلمانوں کو فلسطین سے بے دخل کرچکا تھا۔
اسرائیل کی بھرپور کوشش تھی کہ دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر آباد کیا جائے۔ 1948ء میں فلسطین کے اندر یہودی کم اور مسلمان بہت زیادہ تعداد میں تھے، لیکن ابتدائی دس برسوں ہی میں اسرائیل کی آبادی 7لاکھ سے بڑھ کر بیس لاکھ ہوچکی تھی۔5جون 1967ء کو ہونے والی چھے روزہ جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے ساتھ شام کی گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹّی اور مصری جزیرہ نما سینائی پر بھی قبضہ کرلیا۔ 1948ء سے آج تک لاکھوں فلسطینی اپنے آبائواجداد کے آبائی علاقوں سے جبراً بے دخل کردیئے گئے۔ جنہوں نے غزہ اور غربِ اردن کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک لبنان، اردن، شام اور مصری علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ یہ لوگ گزشتہ 75برسوں سے اپنے گھروں کو واپس جانے کے منتظر ہیں، جب کہ اسرائیل ان کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اُس نے ان کے علاقوں میں کثیر تعداد میں یہودی بستیاں قائم کردی ہیں۔
’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا منصوبہ: ستمبر2023ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں سالانہ اجلاس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے نیو مڈل ایسٹ یعنی نیا مشرقِ وسطیٰ کا ایک نقشہ لہرایا، جو دراصل عرب ایشیائی ریاستوں پر مشتمل ’’گریٹراسرائیل‘‘ کا مجوّزہ نقشہ تھا، اس کی حدود فلسطین سے شروع ہوکر مصر سے فرانس تک اور پھر آگے مدینہ منورہ تک وسیع ہیں۔
یعنی اردن، کویت، عراق، شام، لبنان، بحرین، لیبیا، مصر اور سعودی عرب کا بڑا حصّہ گریٹر اسرائیل کے پلان کا حصّہ ہے۔ برطانوی سامراج، عالمی دہشت گرد اور امریکا کے غلام یورپی ممالک کی جانب سے اس نئے مشرقِ وسطیٰ پلان کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔ نائن الیون واقعے کے فوری بعد اس پلان پر کام شروع کردیا گیا تھا، تاکہ اس خطّے کے مسلمانوں، خاص طور پر عربوں کی اجتماعی قوت کو پاش پاش کرکے اُن کے سروں پر یہودیوں کو مسلّط کردیا جائے۔ چناں چہ اُن مسلمان ممالک میں سیاسی انتشار پیدا کیا گیا۔
بااثراہم ممالک کے سربراہوں اور رہنمائوں کو قتل کرواکر اپنی پسند کی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کی گئیں۔ پھر اُن کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا، جو توقع سے زیادہ کام یاب رہا۔ عالم ِعرب میں سرِعام رقص و سرود کی محفلیں، سنیما گھر، نائٹ کلبز، مقدس شہروں میں غیرمسلموں کے داخلے کی اجازت۔ اسرائیل سے پیار و محبّت کی پینگیں۔ اسرائیل کی خواہش پر یروشلم سے مدینۂ منوّرہ تک سڑک کی تعمیر پر نیم رضامندی، لیکن آفرین ہے، حماس کے مجاہدین اور فلسطین کے نہتّے شہریوں پر، جنہوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر اسلام دشمن منصوبے کی راہ میں اپنے خون کا سمندر حائل کردیا ہے، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرکب تک.....؟ (جاری ہے)