• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ نے کئی ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو انتہائی سخت محنت کرتے ہیں لیکن ساری زندگی کچھ حاصل نہیں کر پاتے اور پھر اسی عالم میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔مستقبل کے بارے میں ہر شخص سوچتاہے لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا کہ عملی طور پر کیا کیاجائے؟جن کے پاس پیسہ ہے وہ انوسٹمنٹ کر لیتے ہیں ‘ جن کے پاس نہیں وہ اندر سے کڑھتے ہیں اور بظاہر صابر و شاکر بنے رہتے ہیں۔ فرض کیا کہ ایک انسان گھر کی بیٹھک میں چھوٹی سی کریانے کی دکان کھول کر رزق کماتا ہے تو کیا وہ ترقی کر سکتاہے ؟اس موقع پر ہمارا عمومی جواب یہی ہوتاہے کہ اسے چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ محنت کرے ‘ پیسے جوڑے ‘ پھر ایک اچھی جگہ دکان کھول لے‘ وہاں سے مزید ترقی کرے اور آٹھ دس سال بعد اپنا’’مال‘ ‘ کھول لے۔ اردگرد سے کچھ مثالیں بھی مل جاتی ہیں اور ہمیں لگتاہے کہ جس طرح باقی لوگوں نے یہ سب کیا ہے کوئی بھی کر سکتاہے‘ اگر یہ سب اتنا آسان ہوتاتو اکثریت یہ کامیابی حاصل کرچکی ہوتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ سر توڑ محنت کے باوجود کچھ نہیں کر پاتے۔ تو کیا یہ طے ہوا کہ ہمارے ہاں بہتر مستقبل کا خواب صرف ڈاکو ہی دیکھ سکتے ہیں؟نہیں...ایک طریقہ ہے جو ہماری تمام محرومیوں کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ طریقہ بڑا آسان ہے ۔ اس میں محنت بھی شامل ہے، خدا کی منشا بھی اور درست راہ کا انتخاب بھی۔ یہ مثلث ایسے ترقی کا زینہ بنتی ہے۔آج سے بیس سال پہلے میرے محلے میں ایسا ہی ایک شخص’’نبی بخش‘‘ گھر کے باہر پھٹا لگا کر سبزی بیچا کرتا تھا‘ ان پڑھ تھا‘اس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹاسرکاری سکول میں پڑھتے تھے۔ میں بھی اسی سے سبزی خریدا کرتا تھا اور اسی ناطے اس سے گپ شپ بھی ہوجاتی تھی۔ بہت محنتی انسان تھا لیکن زندگی کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کیلئے ترستا تھا‘ اسکی خواہش تھی کہ کاش اسکے پاس’’سائیکل‘‘ آجائے تاکہ اسکے بچوں کو تین کلومیٹر پیدل چل کر سکول نہ جانا پڑے اور وہ خود ہی انہیں سکول چھوڑ آیا کرے۔اس کی خواہشوں میں بے بسی کا عنصرجھلکتا تھا اور میں سوچا کرتا تھا کہ جو بندہ اپنی اتنی معمولی خواہشیں بھی پوری نہیں کرپارہا وہ سبزی بیچ بیچ کر زندگی میں زیادہ سے زیادہ کیاحاصل کرپائے گا؟؟؟اس کا جواب مجھے پچھلے دنوں مل گیا…!!!لاہور کی مشہور وحدت روڈ پر ٹریفک اچانک بلاک ہوگئی‘ پتا چلا کہ آگے کوئی چھوٹا موٹا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ مجھے ایک بہت ضروری میٹنگ میں پہنچنا تھا لہٰذا میری پریشانی بڑھ گئی۔ میرے آگے ایک نئے ماڈل کی کار تھی ‘اگر وہ تھوڑا سا مجھے راستہ دے دیتی تو میں اپنی گاڑی بائیں جانب والی گلی میں موڑ کر دوسرے راستے سے باآسانی نکل سکتا تھا۔ میں نے کچھ دیر سوچا پھر اپنی گاڑی سے اتر کر اگلی گاڑی والے کے پاس پہنچا‘سفید یونیفارم میں ملبوس ڈرائیورسے درخواست کی کہ وہ گاڑی کو تھوڑا سا دوسری طرف کرلے۔ وہ منہ بنا کربولا’’راستہ کھلے گا تو گاڑی آگے جائے گی‘‘۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ’’صاحب ‘‘ سے بات کرتا ہوں۔ میں نے پچھلی سیٹ کی طرف نگاہ ڈالی اور میری آنکھیں پھیل گئیں‘پچھلی سیٹ پر انتہائی اعلیٰ تراش خراش کا سوٹ پہنے نبی بخش براجمان تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو پہچان گئے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سبزی بیچنے والا نبی بخش نئے ماڈل کی قیمتی گاڑی تک کیسے پہنچ گیا۔ نبی بخش نے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنا کارڈ نکالا اور مجھے تھماتے ہوئے بولا’’ آپ نے لازمی مجھ سے ملنا ہے‘‘۔’’کارڈ پر ایک بہت بڑے بینک کا مونوگرام پرنٹ تھا۔اگلے ہی دن میں شہر کے ایک پوش علاقے میں دو کنال کی کوٹھی کے سامنے کھڑا تھا جس کے باہر’’نبی بخش کاٹیج‘‘ لکھا ہوا تھا۔میرا دماغ کام نہیںکر رہا تھا‘ رہ رہ کر یہی خیال آرہا تھا کہ نبی بخش نے یقیناً کوئی لمبا ہاتھ مارا ہے ورنہ سبزی بیچ بیچ کر کوئی یہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ تھوڑی دیر بعد میں نبی بخش کے ڈرائنگ روم میں موجود تھا جہاں کا فرنیچر دیکھ کر میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ نبی بخش ویسے کا ویسا ہی تھا‘ بڑی گرم جوشی اور محبت سے ملا۔ میں نے پہلا سوال یہی کیا کہ تمہاری زندگی میں یہ انقلاب کیسے آیا؟ نبی بخش کی خوشی سے بھرپور آواز گونجی ’’صاحب جی! میں نے اپنے بچوں کی تعلیم میں کوئی کوتاہی نہیں برتی‘ جیسے تیسے کرکے انہیں اعلیٰ تعلیم دلائی‘ بیٹا انجینئر بن گیا اور بیٹی ایک بینک میں سینئر وائس پریزیڈنٹ کے عہدے پر پہنچ چکی ہے۔ الحمد للہ روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں‘ جو خواب میں نے دیکھے تھے وہ میری تعلیم یافتہ اولاد نے پورے کر دیے ہیں‘ میں نے اولاد کی تعلیم میں کوتاہی برتی ہوتی تو شائد آج بھی ایک ناکام انسان ہوتا۔‘‘

تازہ ترین