• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی تاریخ میں پہلی بار جیلوں میں قید بچوں کیلئے ایسے قواعد بنائے گئے ہیں جن کے تحت ہر بچے کو چارپائی یا بیڈ کے ساتھ میز اور کرسی بھی فراہم کی جائے گی اور سونے یا آرام کرنے سے پہلے کتابیں پڑھنے کی سہولت مل سکے گی۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے کم عمر بچوں کی (بورسٹل) جیلوں کےحوالے سے ایسے ایس او پیز جاری کئے ہیں جن میں عالمی معیار مدنظر رکھا گیا ہے۔مذکورہ ایس او پیزکی تیاری میں بورسٹل ایکٹ 1926اورجو وینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018کے تقاضوں اور عالمی معیار کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ دنیا بھر میں بچے ریاست کی ذمہ داری تصور کئے جاتے ہیں اور متعدد ممالک میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ بچوں کو صحت مند ماحول میں پرورش کے مواقع ملیں اور جو بچے کسی وجہ سے جیلوں میں قید ہیں ان کی پرورش میں یہ پہلو خاص طور پر ملحوظ رکھا جائے کہ وہ آگے چل کر اچھے، ذمہ دار اورقانون پسند شہری کے طور پر دیکھے جا سکیں۔ برصغیر جنوبی ایشیا، خاص طور پر پاکستانی جیلوں کے ماحول کے حوالے سے یہ تاثر عام ہے کہ یہ جرائم کا گڑھ اور تربیت گاہیں ہیں۔ ان جیلوں میں جانےوالے کچے مجرم بھی پکے اور بعض حالتوں میں گھاگ بن کر نکلتے ہیں۔ جبکہ ہونا اس کے برعکس چاہیے اور پکے مجرم بھی اچھے ماحول کی بدولت اصلاح کے ڈھانچے میں ڈھلےمحسوس ہونے چاہئیں۔ پنجاب کے محکمہ داخلہ نے قیدی بچوں کو بہتر ماحول دینے کا درست فیصلہ کیا ہے جس سے ان کی شخصیت پر اچھے اثرات مرتب ہو سکیں گے۔ پنجاب کی جیلوں میں اس وقت مقید 900کم عمر بچوں میں سے سزا یافتہ 200بچے فیصل آباد اور بھاولپور کی بورسٹل جیلوں میں جبکہ دیگر انڈرٹرائل کم عمر بچے صوبے کی مختلف جیلوں میں ہیں ۔ توقع کی جانی چاہئے کہ دیگر صوبوں میں بھی قیدی کم عمر بچوں کیلئے نئے قواعد ترتیب دے کرجیلوں کو اصلاح خانے کی حیثیت دی جائے گی۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین