• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محبت کر کے بھی دیکھا بعضوں نے تو ٹوٹ کر محبت کی دھوکا ہی دھوکا۔پیرومرشد، حکیم الامت نے 80 سال پہلے مشہور زمانہ نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ( پارلیمنٹ )جو 18کروڑ عوام کو ازبر ہونی چاہئے ۔ابلیس نے اپنی پارلیمنٹ (شوریٰ ) سے خطاب کا آغاز کیسے کیا؟
یہ عناصر کا پرانا کھیل ، یہ دنیائے دُوں
ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمنائوں کا خون
حکمرانوں کا 18 کروڑ عوام کو حبس بے جا میں رکھنا درحقیقت ابلیس کی کامیابی ہی ہے۔ریاست اور عوام قائدین کے مفتوح علاقے ،باقی سب جھوٹ،آج تھر میںبِلکتے بلبلاتے ایڑیاں رگڑتے بچے منہ بولتا ثبوت ۔ تھر کے بچوں کا قتل طالبان کے ہاتھوں نہیں بلکہ جمہور کے نمائندوں کے سر۔حال ہی میں سینہ تان کر اربوں روپے ثقافت کے نام پر گلچھروں میں اڑانے والے آج منہ چھپائے پھرتے ہیںجو بیان داغے ،طبیعت پر ناگوار۔چاروں صوبوں میں عوام الناس کی کسمپرسی داستانِ الم،حکومت نامی شے کاوجود کہاں؟ مملکت کی نام نہاد آزادی کو 67 سال بیتنے کو، ایسی ابتری اور کجی کہ حکمرانوں کے فہم اور اعمال کی لُٹیا ڈوب چکی۔ حضرت عمرؓ کا یہ کہنا کہ اگر دجلہ کے کنارے ایک کتا بھوکا پیاسا مرگیا تو عمرؓ سے اس کا حساب لیا جائے گا۔ایسی سوچ پر دنیا کا سب سے بڑا منتظم حکمران ہمیشہ لرزہ براندام ۔ دانشور مجیب الرحمٰن شامی کا دکھ صائب کہ وطن عزیزشروع سے ہی ترقی معکوس کی جانب ایسا رواں دواں کہ رُکنے کا نام نہیں۔ون یونٹ مغربی پاکستان کی حد تک لسانیت، قومیت کے قضیے کو ابدی نیند سلانے کے مرحلے میں ہی تھاکہ جنرل یحییٰ خان نے یک جنبش قلم، صوبوں میں تقسیم کرکے مملکت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قضیوں کی نظر کردیا ۔ رہی سہی کسر اٹھارویں آئینی ترمیم نے پوری کر دی کہ تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کے لیے ہر سودا وارے میں۔ حکمرانوں کو سو سال بھی دے دو اور درجن دفعہ وزیراعظم کا تاج پہنا دو ۔عوام الناس کی ہڈیوں کا سرمہ ہی بنے گا۔
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کواڑھائی سال ملے۔ قبل ازیںطاقت کے نشے میں سرشار اموی دورکرپشن ، اقرباء پروری ، ظلم ، ناانصافی ، لاقانونیت، بے حیائی، فحاشی، عیاشی میں لوہا منوا چکا تھاجبکہ عوام الناس کے لیے ظلم وبربریت ، ناانصافی ، لاقانونیت اورٹیکس ۔ حجاج بن یوسف اور قرع بن شارک کے ظلم وبربریت سے تولوئیں کانپ اٹھتی ہیں۔ اقلیت انسان کے کھاتے سے باہرجبکہ مسلمان عوام کی چمڑی ادھیڑنے کے نت نئے طریقے ، جزیہ اورٹیکسوں کی بھرمار۔عمر(ثانی) نے آتے ہی مسلمانوں پر ٹیکس تقریباََ ختم جبکہ اقلیتوں پر جزیہ معمولی سے بھی کم۔ بیت المال جو اموی خاندان کے اللے تللوں کے لیے ہمیشہ ناکافی تھا خالی ملا،بھرا چھوڑا۔ایک مثال صرف فارس سے پہلے سال کی محصولات 24 ملین درہم سے بڑھ کر 128 ملین تک جا پہنچی۔ اسلام کے اندر دراڑیں پڑ چکی تھیں ، کربلا میں ظلم وبربریت کی خونچکاں تاریخ رقم ہو چکی تھی، جمعہ کے خطبے منافرت، تخفیر میں ڈھل چکے تھے ، سختی سے ختم کروائے اورفرمان ِ الٰہی خطبہ جمعہ کا رہنما اصول آج تک نافذ، ’’بے شک اللہ (ہرایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی ونافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو‘‘(ترجمہ 16:90 )رہنما اصول ہے ۔ بنی ہاشم مکرم ومحترم ٹھہرے۔ سب کو تعظیم پر مجبور کیا۔ فتنہ خارجی جو اسلام کی جڑوں کو کھوکھلاکرنے میں مصروف، کو مذاکرات کی دعوت دی۔بوستم سے مذاکرات کیے تو دوران مذاکرات ایک حصہ متاثر ہو کر انتہا پسندی سے توبہ تائب ہوا۔ جبکہ دوسرے گروہ پر سزا نافذ کرنے سے اجتناب کیا۔سب کچھ بہ آسانی کہ اپنی ذات کو بطور رول ماڈل پیش کیا۔ سب کچھ صرف اڑھائی سالوں میں۔اے میرے قائدین آپ کو کتنا وقت چاہیے؟ فرید خان شیر شاہ سوری نقد 5 سال حکمران رہا۔ ایسا نظامِ سلطنت وضع کیا کہ برطانوی راج کیا،آج تک من وعن رائج ۔ پورے ہندوستان کی زمینوں کا سروے کروایا اور زمینوں کی خسرہ ،کھتونی ، کھیوٹ تقسیم درتقسیم ،عوام الناس میں تقسیم ہوئیں،آباد ہوئیں، 25 فیصد ریونیو حکومت کی مد میں۔ زمینوں کے ریکارڈ اوراس پر محصولات کی بنفس نفیس نگرانی کی ، ریکارڈ آمدنی پائی۔ آمدنی سے مواصلاتی نظام تشکیل دیا خصوصاََ بنگال سے پنجاب تک گرینڈ ٹرنک روڈ ، ڈاک کانظام ، روزگار کی ریل پیل، رعایا خودکفیل وخوشحال ۔ عدالتی نظام کی خود دیکھ بھال کی۔ ہر جج کے انفرادی اور اجتماعی کردار کا بنظر غائر تفصیلی جائزہ لیا۔اخلاقی اقدار ، امانت ، دیانت پرسمجھوتہ ممکن ہی نہ تھا۔ ہندئو اور مسلمان بلاتفریق ایسے مستفید ہوئے کہ عش عش کر اٹھے۔ ہمارے حکمرانوں کو اڑھائی سال بھی ملے اور 5 سال بھی ، وطن عزیز کی چولہیں ہلانے میں مقابلہ ایسا سخت کہ یہ طے کرنانا ممکن کہ ان سلطانوں میں اصل سردار کون؟ وطن عزیز کا مستقبل مخدوش ، ذاتی کرّوفر، جائیدادیں مال واسباب سارے ریکارڈ توڑ چکے۔ بے رحمی، سنگدلی کی آخیر ،کل ہی کی مثال، جب وزیراعلیٰ سندھ قحط زدہ علاقے کے دورے پر آئے تو درجنوں ڈشوں اور انواع اقسام کے کھانے سے ایسی تواضع کہ جیسے فوڈ فیسٹیول ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ابتری اور ناگفتہ بہہ حالات تاریخ کے ہر دوسرے موڑ پرمسلمہ امہ کی قسمت میں ،جہاں درجنوں درکار وہاںعمر بن عبدالعزیز ، سلطان محمد فاتح، سلطان سلمان عالیشان، شیرشاہ سوری جیسے معدودے چند۔ نالائق ،پُتلے، ٹائوٹ، عیاش،بدعنوان، حکمران سینکڑوں ،چنانچہ تکالیف ، دھکے، پریشانیاں صدیوں پر محیط۔مملکت خداداد پاکستان کو یہ اعزاز کہ تھوڑے عرصے میں ایسے کثیر تعداد میں۔بدقسمتی کا لامتناہی سلسلہ ، رہی سہی کسر چند روز پہلے ’’پارلیمنٹ کی کہانی جمشید دستی کی زبانی‘‘۔ 6 دہائیوں کے جتنے تحفیسریرارائے سلطنت ہوئے قوت ارادی کابحران بلکہ فقدان، عزم صمیم دکھاوا، استعداد، فہم وفراست ناپید۔ آج ایڑیاں رگڑتے عوام کی یہ خواہش کہ دہلیز پر نہ سہی امن امان، تعلیم، صحت بنیادی سہولتیں گلی یا محلے یا شہر کی ’’نکر‘‘ تک پہنچ پائے،ناممکن۔ مرکز میں حکمران جماعت ن لیگ پر میں واری کہ اپوزیشن پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی صورت میںوارے نیارے۔عمران خان اور زرداری کے حکمرانوں سے کھلے چھپے رابطے اور راتوں کی’’ جپھیاں‘‘ ، عوام الناس کی آنکھوں میں ایسی دھول، مزید تفریح طبع کہ اے این پی، ایم کیو ایم اور فضل الرحمن بھی اپوزیشن میں ۔گوعمران خان کی مذاکرات ، آپریشن پر کنفیوژن تحریک انصاف کے سانحہ جات کی آخری پیشکش لیکن مسلم لیگ ن کا بغل بچہ بننا سمجھ سے بالاتر۔ کیا سارے سیاستدان عالمی سیاسی بساط کے مہرے؟ ابلیس کا وطن عزیز کی پارلیمنٹ پر اظہار پسندیدگی اور اپنے کارناموں پر فخرتفصیل طلب، حکیم الامت اس لیے ہی بہت پہلے رقم کر گئے۔ وطن ِ عزیز ابلیس اور اس کے مشیران کرامان کے رحم وکرم پر۔ ابلیس کے چندفرمودات کہ کالم کی تنگ دامنی آڑے
میں نے دِکھلایا فرنگی کو مُلوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دَیرو کلیسا کا فسوں
میں نے ناداروں کو سِکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے مُنِعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتش ِسوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو، ابلیس کا سوزِدروں
ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز ِبے قیام
ہے طواف وحج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کندہو کررہ گئی مومن کی تیغ ِبے نیام
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید؟
ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلمان پر حرام !
باقی جناب مجاہد کامران صاحب ابلیسی نظام اور اس کے مشیران اور ممبران مجلس شوریٰ پرسیر حاصل بحث کر سکتے ہیں ، مزید قلعی کھول سکتے ہیں کہ جناب وائس چانسلر کی تحقیق ابلیسی ہتھکنڈوں پر خیرہ کن۔ آفریں ہے پیرومرشد پر جن کی بینا آنکھ نے دیکھا اور رقم کیا۔
مملکت خداداد کی مفلوک الحال عوام ، حکمران جس سے پیار کرتے ہیں اس کو مار دیتے ہیں، یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کچھ نہیں، محبت کرکے دیکھ لیا،دھوکاہی دھوکا،لیکن کب تک؟
تازہ ترین