فیضان شفیق جمالی، کراچی
پاکستان سمیت دُنیا کے زیادہ تر ممالک میں ’’موروثی سیاست‘‘ کو ایک منفی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، تاہم ماہرینِ سیاسیات کا ماننا ہے کہ موروثی سیاست ہرگز کوئی اَن ہونی شے نہیں ، دُنیا بَھر میں اس کی مثالیں موجود ہیں اور اس ضمن میں ’’ہسٹوریکل سوشل ریسرچ جرنل‘‘ نے برِ اعظم ایشیا، یورپ، شمالی امریکا اور لاطینی امریکا کے ایک ہزار سے زاید سیاسی رہنمائوں پر تحقیق بھی کی، جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ 12فی صد عالمی رہنما موروثی سیاست کا حصّہ ہیں۔ نہرو خاندان نے کئی دہائیوں تک بھارت پر حکومت کی۔
تاہم، اس خاندان کی سیاست کو اس وقت دھچکا لگا کہ جب 2014ء میں نریندر مودی برسرِ اقتدار آئے۔ اسی طرح فلپائن میں اکینو اور مارکوس فیملی موروثی سیاست کی ایک بڑی مثال ہے۔ فلپائن میں فرڈیننڈ مارکوس 21برس تک عہدۂ صدارت پر متمکّن رہے ، یہاں تک کہ بد عنوانی کے الزامات کے نتیجے میں انہیں اس منصب سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تاہم، بعد ازاں ان کا بیٹا فلپائن کا صدر منتخب ہوا اور اِس وقت بھی مارکوس فیملی کا فلپائن کی سیاست میں گہرا عمل دخل ہے۔ سری لنکا میں مہند راجاپاکسے 10سال صدر رہنے کے بعد وزیرِ اعظم منتخب ہوئے، جب کہ کچھ عرصہ قبل تک ان کے ایک بھائی صدر، دوسرے وزیرِ اعظم، تیسرے وزیرِ دفاع اور چوتھے وزیرِ خزانہ تھے۔ یاد رہے کہ راجا پاکسے کے خاندان سے قبل سری لنکا میں بندرا نائیکے فیملی برسرِ اقتدار تھی۔
تحقیق کے مطابق فلپائن میں موروثی سیاست کی شرح سب سے زیادہ یعنی 60فی صد ہے، جب کہ پاکستان میں 52فی صد، بھارت میں 29فی صد ، امریکا میں 6فی صد اور کینیڈا میں 3فی صد ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے معروف انگریزی جریدے، ہیرالڈ کے مئی 2013ء کے شمارے میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 1970ء کی دہائی سے پاکستانی سیاست پر 597خاندان قابض ہیں۔ موروثی سیاست کی 52فی صد شرح اور 597 خاندانوں کا سیاست پر قبضہ ایک جمہوری ریاست میں کسی طور قابلِ قبول نہیں، کیوں کہ جمہوریت کا مطلب ہی سب کو سیاست اور حکومت کے یک ساں مواقع فراہم کرنا ہے، جب کہ موروثی سیاست سے عام سیاسی کارکنان کی حق تلفی ہوتی ہے۔
اگر ہم رواں برس 8فروری کو مُلک میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے نام زد کردہ امیدواروں کا جائزہ لیں، تو پتا چلتا ہے کہ مُلک بھر میں درجنوں ایسی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں ہیں کہ جہاں ایک ہی گھر یا خاندان کے افراد کو میدان میں اُتارا گیا۔ اگر کسی سیاسی خاندان کے سربراہ قومی اسمبلی کی نشست پر کسی جماعت کے امیدوار تھے، تو اُن کے بھائی، بچّے، بہو یا اہلیہ اُسی شہر یا علاقے سے دیگر قومی و صوبائی نشستوں پر امیدوار قرار پائے۔ یاد رہے کہ پاکستانی سیاست میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ دہائیوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے اور اس ضمن میں مُلک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں۔
پاکستان میں موروثی سیاست کے فروغ کا سب سے بڑا سبب جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ پنجاب میں شریف فیملی، چوہدری خاندان، قریشیوں، گیلانیوں، ٹوانوں اور مخدومین کا سیاست پر غلبہ ہے اور انہی خاندانوں سے تعلق اور وابستگی رکھنے والے افراد ہی قومی و صوبائی اسمبلیوں کا حصّہ بنتے ہیں۔ سندھ کی سیاست میں جاگیرداروں، وڈیروں اور شاہ صاحبان کا عمل دخل زیادہ ہے اور یہاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں موروثی سیاست زیادہ مضبوط ہے۔
سندھ کے اہم سیاسی خاندانوں میں تالپور، مہر، بدین کی مرزا فیملی، ٹھٹّھہ کے شیرازی، نواب شاہ کے زرداری و جمالی، تھر پارکر کے ارباب اور دیگر قومیں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، اندرونِ سندھ کی سیاست پر پیر پگارا، مخدومین اور شاہ صاحبان کا بھی گہرا اثرورسوخ ہے۔ بلوچستان میں سیاست کا محور قبائلی یا خاندانی وفاداریاں ہیں اور سیاسی جماعتیں نام کی حد تک وجود رکھتی ہیں۔
اچکزئی، بزنجو، رئیسانی، مَری، مینگل، بگٹی، زہری غرض کسی خاندان کا بھی نام لیں، تو اس کی اجارہ داری کم از کم اپنے قبیلے کی حد تک ضرور برقرار ہے۔ اگر موروثی سیاست کے اعتبار سے صوبہ خیبر پختون خوا کی بات کی جائے، تو وہاں بھی چند مشہور سیاسی خاندانوں کا غلبہ ہے، جن میں پرویز خٹک کا خاندان، خان عبدالولی خان کا خانوادہ، سیف اللہ فیملی، ایّوب خان کا خاندان اور مولانا مفتی محمود کا خانوادہ قابلِ ذکر ہیں۔
ہمارے ہاں موروثی سیاست کے عام ہونے کا ایک سبب طلبہ سیاست پر پابندی بھی ہے، جس کی وجہ سے جامعات کے طلبہ کو سیاسی میدان میں آنے کا موقع نہیں ملتا اور پھر بین الجماعتی انتخابات بھی موروثی بنیادوں ہی پر ہوتے ہیں۔ گرچہ مُلک کی ایک بڑی سیاسی جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف نوجوانوں کو آگے لانے کا دعویٰ کرتی ہے اور اس ضمن میں وہ کسی حد تک کام یاب بھی رہی، لیکن انتخابات میں اس نے بھی زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے الیکٹ ایبلز ہی کا سہارا لیا اور اس طرح یہ جماعت بھی موروثی سیاست سے نہیں بچ پائی۔ تاہم، اس وقت جماعتِ اسلامی اور متّحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) موروثی سیاست سے پاک دکھائی دیتی ہیں۔
یاد رہے کہ اگر کسی خاندان میں کوئی ایک بڑا لیڈر پیدا ہو جاتا ہے، تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ صرف اسی خاندان کے افراد ہی سیاست کرنے کے حق دار ہیں۔ خاندان کے ہر فرد میں سیاست یا حکومت کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، کیوں کہ فطری طور پر ہر انسان کا مزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور سیاسی خانوادوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے فطری میلان کے تحت سیاست کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی طبع آزمائی کرنی چاہیے۔
تاہم، بد قسمتی ہمارے پورے خطّے ہی میں سیاسی خاندانوں کے صرف دو پیشے ہیں؛ ایک کاروبار اور دوسرا سیاست۔ اور دونوں ہی بیش بہا کمائی کا ذریعہ ہیں۔ دوسری جانب ہمارے مُلک میں پیری مریدی، ضعیف الاعتقادی، فرقہ واریت اور برادری و قبائل کے نام پر تقسیم بھی عام ہے اور لوگ اپنے فرقے اور ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے اہل امیدوار پیچھے رہ جاتے ہیں اور جمہوریت کو زک پہنچتی ہے۔