برّصغیر کی تقسیم کو ستّر سال سے زائد کا عرصہ گزر چُکا ہے، مگر افسوس کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات آج بھی اسی تناؤ، کشیدگی اور عدم اعتماد کا شکار ہیں، جیسے وہ 1947 ء میں تھے۔ جہاں پاکستان نے ہمیشہ اپنی پالیسیز میں امن، بقائے باہمی اور سفارت کاری کو بنیاد بنایا، وہیں بھارت نے ایک بالادست اور استحصالی طاقت کا کردار نبھایا۔ مسئلۂ کشمیر ہو، سرحدی جھڑپیں ہوں یا سفارتی معاملات، ہر موقعے پر بھارت کی بدنیّتی اور جارحانہ سوچ نے نہ صرف جنوبی ایشیا، بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرات پیدا کیے ہیں۔
تازہ ترین مثال22 اپریل2025 ء کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے، پہلگام میں ہونے والے حملے کی آڑ میں مستقل سرحدی کشیدگی اور پھر 6 مئی کی شب’’آپریشن سیندور‘‘ کے نام سے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کے مختلف مقامات پر میزائل حملے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پہلگام واقعے کے محض دس منٹ کے اندر اندر بھارتی میڈیا اور سرکاری اداروں نے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی، حالاں کہ یہ سوال اپنی جگہ بدستور موجود ہے کہ اِتنے قلیل وقت میں بھارت کس بنیاد پر یہ فیصلہ کر بیٹھا کہ حملے میں پاکستان ملوّث ہے؟دراصل، بھارت نے ہمیشہ کی طرح، بغیر کسی ثبوت، پاکستان پر الزام دَھر کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔
جب کہ پاکستان نے اِس حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمّت بھی کی اور واضح کیا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اپنی سرزمین کسی دوسرے مُلک کے خلاف استعمال ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو باضابطہ خط لکھ کر اِس بے بنیاد الزام کی تردید کی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کی اِس مستقل روش کا نوٹس لے۔
یہ محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک سلسلے کی کڑی ہے۔ بھارت ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے پاکستان کو نشانہ بناتا رہا ہے، کبھی’’سرجیکل اسٹرائیکس‘‘ کے دعوے، کبھی بالاکوٹ کی جھوٹی داستان، کبھی لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ اور اب پہلگام حملے کو بہانہ بنا کر شرانگیز ٹارگٹڈ کارروائیاں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی داخلی کم زوریاں، مودی حکومت کی انتہا پسندانہ پالیسیز اور کشمیر میں بڑھتی عوامی مزاحمت نے اسے بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے اور اسی بوکھلاہٹ میں وہ پاکستان پر الزام لگا کر اپنی قوم کو گم راہ کرتا ہے۔
اِس تمام عرصے میں پاکستان کا مؤقف ایک ہی رہا کہ’’ہم امن چاہتے ہیں، لیکن دفاع پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔‘‘ہماری مسلّح افواج دنیا کی بہترین افواج میں سے ہیں، جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے، اپنے ہزاروں سپاہیوں کی قربانی دی ہے اور مُلک میں امن قائم کیا ہے۔ یہ وہی افواج ہیں، جنہوں نے نہ صرف یہ کہ دشمن کا ہر وار روکا، بلکہ اُسے منہ توڑ جواب بھی دیا۔
بھارت کے الزامات کو اس کے تاریخی کردار کی روشنی میں دیکھنا ناگزیر ہے۔ تقسیمِ ہند کے فوراً بعد کشمیر پر حملہ کر کے بھارت نے جارحیت کا پہلا باب رقم کیا۔ پاکستان نے تب بھی صرف کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی۔ 1965 ء میں جب بھارت نے بین الاقوامی سرحد عبور کی، تب بھی پاکستانی افواج نے جرأت، حب الوطنی اور نظم و ضبط کی روشن مثالیں قائم کیں۔1971 ء میں بھارتی سازشوں کا نتیجہ مشرقی پاکستان کے المیے کی صُورت سامنے آیا اور 1999 ء میں کارگل کی جنگ میں بھارت نے بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کی۔
تاہم، ہر بار تاریخ نے ثابت کیا کہ پاکستان نے جارحیت میں پہل کبھی نہیں کی اور جب بھی مجبوراً جواب دیا، تو اپنے دفاع اور قومی سلامتی کے لیے دیا۔ جب 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ طے پایا، تو اسے ایک بین الاقوامی کام یابی تصوّر کیا گیا۔ عالمی بینک کی ثالثی میں طے پانے والا یہ معاہدہ، اُس وقت کے پیچیدہ سیاسی ماحول میں پانی کی منصفانہ تقسیم کا وہ تاریخی فارمولا تھا، جس نے دونوں ممالک کے مابین پانی کے ممکنہ تصادم کو کئی دہائیوں تک روکے رکھا۔
بھارت کی جانب سے بارہا اس کی مختلف شقوں کی خلاف ورزی کے باوجود، پاکستان نے صبر، حکمت اور بین الاقوامی قانون کی پاس داری کو ترجیح دی، مگر حالیہ دنوں میں جب بھارت نے پہلگام حملے کی آڑ میں سندھ طاس معاہدہ معطّل کرنے کا اعلان کیا ہے، تو یہ محض ایک غیر ذمّے دارانہ اقدام نہیں، بلکہ ایک خطرناک اور غیر قانونی مہم جوئی بھی ہے۔
یہ اقدام ایک بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جو عالمی قوانین کے تحت ایک سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ 1969 ء کے ویانا کنونشن آن لاء آف ٹریٹیز کے تحت کوئی بھی مُلک یک طرفہ طور پر کوئی معاہدہ معطّل کر سکتا ہے اور نہ ہی ختم، جب تک کہ وہ اس کے لیے قانونی طریقۂ کار نہ اپنائے، جس میں مشاورت، ثالثی اور بین الاقوامی عدالتوں کی رائے شامل ہوتی ہے۔
بھارت نے یہ تمام اصول روندتے ہوئے اپنی طاقت کے نشے میں صرف سیاسی مقاصد کے لیے ایک معاہدے کی دھجیاں اُڑا دیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے اِس اقدام کے پیچھے کوئی تیکنیکی، ماحولیاتی یا حقیقت پسندانہ منطق ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بھارت مغربی دریاؤں کا بہاؤ روکتا ہے، تو نقصان پاکستان سے زیادہ بھارت ہی کو ہوگا۔
گلیشیئرز کے پگھلنے، موسمیاتی تغیّرات اور ماحولیاتی بگاڑ کی موجودگی میں بھارت کا یہ فیصلہ خود اس کے اپنے کسانوں، آبی ذخائر اور اندرونی استحکام کے لیے بھی خطرہ بنے گا۔ بھارت کو وہ پانی کہیں نہ کہیں چھوڑنا پڑے گا، ممکن ہے اُسے چین یا ایران کی طرف موڑنا پڑے، جس سے خطّے میں نئے تناؤ جنم لیں گے۔ پانی کے راستے بند کرنے سے نہ صرف پاکستان، بلکہ جنوبی ایشیا کے پورے خطّے کی زراعت، ماحولیات اور معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔
اِس تناظر میں بھارتی میڈیا کا کردار بھی نہایت افسوس ناک اور اشتعال انگیز ہے۔ پہلگام حملے کے فوری بعد جس شدّت سے بھارتی میڈیا نے بغیر کسی تحقیق، تصدیق یا ریاستی اداروں کی رپورٹ کے پاکستان پر الزام تراشی شروع کی، وہ صرف ایک مخصوص بیانیے کی پیداوار تھی۔ بھارت کا میڈیا، آزادیٔ صحافت کے اصولوں سے زیادہ ایک جنگی مہم جوئی کا ہتھیار بن چُکا ہے۔ اُس کی خبروں کا مقصد معلومات دینا نہیں، بلکہ عوام کو اشتعال دِلانا، نفرت پھیلانا اور پاکستان سے جنگ کی فضا پیدا کرنا ہے۔
اس کے برعکس، پاکستان کا میڈیا ہمیشہ ذمّے داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے ہر ممکن کوشش کی کہ معاملات سلجھائے جائیں، کشیدگی نہ بڑھے اور افہام و تفہیم کی فضا قائم ہو۔ ہمارے تجزیہ نگار، اینکرز اور دانش وَر ہمیشہ مسئلۂ کشمیر کے حل، لائن آف کنٹرول پر تحمّل اور دوطرفہ بات چیت کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ مگر بھارت کے ہندو قوم پرست سیاسی ایجنڈے میں یہ باتیں فِٹ نہیں بیٹھتیں، اِس لیے اُن کی حکومت کی میڈیا پالیسی صرف پاکستان سے نفرت پر مبنی ہے۔
نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہمّات کی بنیاد ہمیشہ پاکستان دشمنی پر رکھی۔ پلواما ہو یا اُری، بھارتی حُکم رانوں نے ہر بار عوامی حمایت سمیٹنے کے لیے جنگی بیانیہ اپنایا۔ مودی حکومت کی موجودگی میں بھارت کا میڈیا بھی گویا جنگ کا مورچہ بن چُکا ہے، جو نہ صرف سچ کو مسخ کرتا ہے، بلکہ عالمی برادری کو بھی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتا ہے۔ نیز، بھارت کا یک طرفہ رویّہ اور معاہدوں سے انحراف عالمی قوانین اور بین الاقوامی نظام کے لیے بھی ایک خطرناک نظیر قائم کر رہا ہے۔
اگر کوئی مُلک طاقت کے زعم میں بین الاقوامی معاہدے یوں ہی ختم کرنے لگے، تو پھر دنیا کا کوئی معاہدہ محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ ہماری افواج صرف سرحدوں کی محافظ نہیں، امن کی علم بردار بھی ہیں۔ پاکستانی قوم اور قیادت نے بارہا دنیا کو پیغام دیا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں، مگر اپنی خود مختاری اور پانی جیسے بنیادی حق پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔
یوں جب بھی جنوبی ایشیا میں امن کی بات ہوتی ہے، تو پاکستان کا نام ہمیشہ اُس ملک کے طور پر لیا جاتا ہے، جس نے جنگوں سے زیادہ مذاکرات کو ترجیح دی۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک، ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد افہام و تفہیم، خطّے کے استحکام اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر رہی ہے۔ مگر بدقسمتی سے، بھارت نے ہمیشہ اِس رویّے کو ہماری کم زوری سمجھا۔یہ طرزِ عمل نہ صرف ایک پڑوسی کی اخلاقی ذمّے داری سے انکار ہے، بلکہ تاریخ کے دھارے کو جنگی جنون کی طرف موڑنے کی دانستہ کوشش بھی ہے۔
بھارتی قیادت جانتی ہے کہ جب معیشت تباہی کی طرف جا رہی ہو، کسان خودکشیاں کر رہے ہوں، نوجوانوں کو روزگار نہ مل رہا ہو، خواتین عدم تحفّظ کا شکار ہوں اور اقلیتیں خوف میں جی رہی ہوں، تو عوام کا دھیان اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے ایک’’مشترکہ دشمن‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ’’دشمن‘‘اُنہیں ہمیشہ پاکستان کی صُورت نظر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر الیکشن سے پہلے ایک حملہ ہوتا ہے، ایک الزام آتا ہے اور پھر جنگ کا شور مچ جاتا ہے۔ یہ سب اتفاق نہیں، بلکہ ایک مکمل طے شدہ انتخابی حکمتِ عملی کا حصّہ ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت ہمیشہ اِس امر پر زور دیتی رہی ہے کہ امن ہی وہ واحد راستہ ہے، جس سے عوامی فلاح، خطّے کی ترقی اور عالمی برادری کا اعتماد حاصل کیا جا سکتا ہے، مگر جب سرحد پار سے بلا اشتعال فائرنگ ہو، شہری علاقوں کو نشانہ بنایا جائے، جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا کیا جائے، تو پھر خاموشی بزدلی کہلاتی ہے اور پاکستان بزدل کبھی نہیں رہا۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے سپاہی جب دفاعِ وطن کے لیے نکلتے ہیں، تو اُن کے جذبے، جرأت اور ایمانی قوّت کے سامنے کوئی طاقت ٹِک نہیں پاتی۔ ہماری سرحدوں پر کھڑے جوان صرف اسلحے سے لیس نہیں، بلکہ ایک نظریے، ایمان اور غیر متزلزل عزم سے بھی سرشار ہوتے ہیں۔ بھارت کو چاہیے کہ ماضی کے اُن حقائق کو یاد رکھے، جہاں اُس کی جارحیت کا نتیجہ شرمندگی، شکست اور عالمی مذمّت کی صُورت سامنے آیا۔
پاکستانی قوم نے اپنے وسائل، قیادت کے وژن اور قربانیوں سے وہ مقام حاصل کیا ہے، جس پر آج بھی بھارت جیسا جارح مُلک کُھلے عام حملہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ بھارت جانتا ہے کہ اگر اُس نے حد پار کی، تو پاکستان وہی جواب دے گا، جو تاریخ میں دشمنوں کی نسلیں یاد رکھتی ہیں اور گزشتہ دنوں بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے اُسے وہ جواب دیا بھی۔
پوری دنیا نے پاکستان کی فوجی و دفاعی صلاحیت کا اعتراف کیا اور بھارت شکست کے زخم چاٹتا رہ گیا۔ آج کی نوجوان نسل کو جان لینا چاہیے کہ وہ ایک ایسے مُلک کی وارث ہے، جس کے بزرگوں نے صرف زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں، نظریے کے تحفّظ کے لیے قربانیاں دیں۔ یہ وہ قوم ہے، جو شہادت کو فخر سمجھتی ہے۔
جو ہتھیار نہیں، حوصلے سے لڑتی ہے اور جس کی رگوں میں وفا، غیرت اور حب الوطنی دوڑتی ہے۔ پاکستان کی افواج، سیاسی قیادت اور عوام، اگر یہ تینوں متحد ہوں، تو دنیا کی کوئی طاقت اِس مُلک کو میلی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتی۔اور آج بھی، بھارت سمیت پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کم زور ہے اور نہ ہی کسی کے دباؤ میں آتا ہے کہ سب متحد و ہم آواز ہیں۔
یہی وہ پاکستان ہے، جو مصوّرِ پاکستان، علّامہ اقبال کا خواب تھا، جسے قائدِ اعظم محمّد علی جناح نے تعبیر دی اور یہی وہ ریاست ہے، جسے ایٹمی صلاحیت سے لیس دنیا کی پہلی اسلامی مملکت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ (مضمون نگار، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں)