دُنیا بَھر میں 19 سے 25 مئی تک ’’روڈ سیفٹی وِیک‘‘ منایا جا رہا ہے۔ اِس ہفت روزہ مُہم کی اہمیت وافادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ پوری دُنیا میں ہر سال تقریباً 12لاکھ افراد سڑک پر ہونے والےحادثات کے سبب اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جب کہ پانچ کروڑ کے لگ بھگ زخمی ہوتے ہیں اور اُن میں سے ہزاروں افراد ہمیشہ کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔
یوں روڈ ایکسیڈینٹس دُنیا میں ہونے والی اموات کی مختلف وجوہ میں سے ایک بڑی وجہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 92 فی صد مُہلک روڈ ایکسیڈینٹس یا حادثات غریب اور متوسّط درجے کے ممالک میں ہوتے ہیں، جہاں دُنیا کی 60 فی صد گاڑیاں موجود ہیں۔
حتیٰ کہ امیر اور ترقّی یافتہ ممالک میں بھی غریب یا معاشی طور پر غیرمستحکم افراد ہی کے ٹریفک حادثات کی زد میں آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی غُربت ہی سے مشروط تعلیم اور شعور کی کمی یہاں بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ ان حادثات میں سب سے زیادہ غیر محفوظ سڑک پر موجود پیدل چلنے والے افراد، سائیکل سوار یا موٹر سائیکل سوار ہوتے ہیں اورحادثات کی نذر ہونے والےافراد میں نصف سے زائد مذکورہ بالا افراد شامل ہوتے ہیں۔
دُنیا بَھر میں ہر سال ایک لاکھ کی آبادی میں اوسطاً 16.7 افراد ٹریفک حادثات کے سبب لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق افریقی ممالک میں ٹریفک حادثات میں شرحِ اموات دُنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ بلند شرحِ اموات والے ممالک میں سرِفہرست زمبابوے 41.2 اور لائبیریا 38.9 (فی ایک لاکھ افراد) ہیں، جب کہ کم شرحِ اموات والے ممالک میں ہانگ کانگ 1.3، مالدیپ 1.6، سنگاپور 2.1 اور ناروے 2.14 (فی ایک لاکھ افراد) نمایاں ہیں۔
پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات کے نتیجے میں اموات کی شرح 13 افراد فی ایک لاکھ افراد سالانہ ہے۔ عام طور پر 5 سے 29 سال تک کےافراد ان حادثات کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں خواتین کے مقابلے میں مَردوں کےجان سے گزرنے کا خدشہ تین گُنا زیادہ ہوتا ہے، جب کہ روڈ ایکسیڈینٹس کے نتیجے میں لقمۂ اجل بننے والے 70 فی صد مَرد ہوتے ہیں۔
ٹریفک حادثات کی وجوہ اور عوامل پر غور کیا جائے، تو 94فی صد روڈ ایکسیڈینٹس کا سبب انسانی غلطیاں ٹھہرتی ہیں، جب کہ حادثات کا محرّک بننے والے اہم عوامل درج ذیل ہیں:
1۔ غیرذمّےدارانہ، غیرمحتاط ڈرائیونگ: اگلی گاڑی سے مناسب فاصلہ نہ رکھنا، بےجا، غیر ضروری اوورٹیکنگ، انڈیکیٹر کادُرست استعمال نہ کرنا اور ڈرائیونگ کے دوران جلد بازی اور بےصبری کا مظاہرہ سڑک پر موجود دوسرے ڈرائیورز کو بھی الجھن میں مبتلا کردیتا ہے، جس کےنتیجےمیں حادثات رُونما ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
2۔ تیز رفتاری: حدِ رفتار سے زیادہ تیز گاڑی چلانا حادثات کی سب سے اہم وجہ ہے، کیوں کہ ایسی صورت میں گاڑی بےقابو ہونے کا امکان ہوتا ہے اورسڑک پر کسی بھی غیر متوقّع صُورتِ حال سے نمٹنے کے لیے درکار وقت کم رہ جاتا ہے۔
3۔ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ: نشے کی حالت میں گاڑی چلانے والے افراد کی ردِعمل دینے کی رفتار سُست اور قُوّتِ فیصلہ ناقص ہو جاتی ہے، جس کا نتیجہ حادثات کی صُورت سامنے آتا ہے۔
4۔ ڈرائیونگ پر توجّہ مرتکز نہ ہونا: خطرناک ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون پر مصروف ہونا ہے۔ اس عمل سے ایکسیڈینٹ کا خطرہ چار گُنا بڑھ جاتا ہے۔
علاوہ ازیں، گاڑی چلاتے وقت گفتگو کرنا، کسی جذباتی بحث میں مشغول ہونا، کھانا پینا، میوزک یا گاڑی میں نصب اسکرین کی جانب متوجّہ ہونا اور بچّوں کو اگلی نشست پر بِٹھا کر ڈرائیو کرنے والے عوامل سے ٹریفک حادثات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
6۔ غیرمعیاری سڑکیں اور ناقص انفرااسٹرکچر : پس ماندہ اور ترقّی پذیر ممالک میں سڑکوں کی عدم موجودگی یا خستہ حالی اور ٹریفک سگنلز، اسٹریٹ لائٹس، فُٹ پاتھس اور پیڈسٹرین بِرجز وغیرہ کا نہ ہونا اور کُھلے گٹر، گڑھے، کُھدائی اور نامناسب اسپیڈ بریکرز بھی ٹریفک حادثات میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
اگر روڈ کوالٹی انڈیکس کو ایک سے سات نمبر دیں، تو 2019ء کے ایک جائزے کے مطابق سنگاپور میں موجود سڑکوں کا اسکور 6.45 ، سوئٹزر لینڈ کا 6.36، یو اے ای کا 5.92 اور کوالٹی کے اعتبار سے پاکستان کی سڑکوں کا اسکور 3.95 ہے۔
6 ۔ کم عُمر، ناتجربہ کار ڈرائیورز: کم سِن اور ناتجربہ کار ڈرائیورزسڑک پر رُونما ہونے والی غیرمتوقّع صُورتِ حال میں گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اور صحیح وقت پر فوری اور مناسب فیصلہ نہ کرنے کے سبب ٹریفک حادثات کا موجب بنتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق عام طور پر 16سے 17سال کے نوجوان روڈ ایکسیڈینٹس میں ملوّث ہوتے ہیں۔
7۔ ٹریفک قوانین کی پاس داری نہ کرنا: ٹریفک کے اشاروں کو نظرانداز کرنا، لال بتّی روشن ہونے کے باوجود اگے بڑھتے رہنا، ٹریفک کی مخالف سمت میں چلنا اور سیٹ بیلٹ نہ باندھنے سمیت ٹریفک کے دیگر قوانین کی پاس داری نہ کرنا بھی ٹریفک حادثات کا سبب بنتا ہے۔
8- گاڑیوں کی مخدوش حالت: ترقّی پذیر ممالک میں مناسب دیکھ بھال اور معقول جانچ پڑتال کے بغیر پرانی، خستہ حال اور غیرمحفوظ گاڑیوں کا سڑک پر ہونا عام سی بات ہے اور اس غفلت و لاپروائی کی وجہ سے کئی لوگ اپنی جانوں ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ٹریفک حادثات کا سب سے دردناک پہلو جان کا زیاں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2019ء میں کراچی میں رُونما ہونے والے ٹریفک حادثات میں سے 50.4 فی صد جان لیوا ثابت ہوئے، جب کہ2020 ء میں یہ شرح 39.6 فی صد رہی۔ مہلک ٹریفک حادثات کے شکار 76.8 فی صد افراد موقعے ہی پر دَم توڑ جاتے ہیں۔ روڈ ایکسیڈینٹس سے متعلق ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق41.9 فی صد ٹریفک حادثات صبح کے وقت اور 37.4 فی صد حادثات دوپہر سے شام کے دوران ہوتے ہیں۔
پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق 2021ء میں ٹریفک حادثات کے نتیجے میں 5608 افراد سڑک ہی پر چل بسے، مگر عالمی ادارۂ صحت کا اندازہ ہے کہ یہ تعداد 28ہزار سے زائد ہوسکتی ہے۔ ٹریفک حادثات کا شکار ہونے والے افراد معمولی، درمیانے یا شدید زخمی ہوتے ہیں اور زخم کی نوعیت عام طور پر سر (کھوپڑی ) کا فریکچر، ہاتھوں پیروں کی ہڈیوں کا ٹوٹنا اور گردن اور پیلوک (نچلے دھڑ) کا فریکچر وغیرہ شامل ہیں۔
سڑک پر ہونے والے حادثات کا ایک نقصان معاشی دباؤ بھی ہے کہ روڈ ایکسیڈینٹس معیشت پرقابلِ ذکرمنفی اثرات مرتّب کرتے ہیں، جو کسی مُلک کی جی ڈی پی کا تقریباً 3فی صد ہوتا ہے۔ انتظامی اخراجات، انشورنس اور قانونی امور پر آنے والی لاگت بھی اِس میں شامل ہے۔ واضح رہے کہ حادثے کی صُورت افراد کی بحالی اور صحت یابی کےعرصے میں پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
طویل عرصے تک کام نہ کرنے کی صُورت اُجرت نہ ملنے پر زخمی شخص کا خاندان کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے، جب کہ نوجوان اور فعال افرادی قوّت کی کمی معاشی نشوونما کو متاثر کر کے غُربت بڑھانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ لامحالہ صحتِ عامّہ کے نظام پر بوجھ پڑتا ہے اور وسائل کو دوسرے ضروری شعبوں کی بجائے یہاں استعمال کرناپڑتا ہے۔
دوسری جانب ٹریفک حادثات کے جذباتی پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بعض اوقات یہ حادثات زندگی بَھر کے لیے ناخوش گوار یادیں اور ناموافق تاثرات چھوڑجاتے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق ٹریفک حادثے میں بچ جانے والے تقریباً32.3 فی صد افراد ڈیپریشن اور بےچینی کے علاوہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر ( پی ٹی ایس ڈی) کا شکار ہوجاتے ہیں، جس کی علامات میں ڈراؤنے خواب آنا، حادثے کا منظر بار بار آنکھوں کے سامنے آنا (فلیش بیک) اور اضطراب شامل ہیں، جو روزمرّہ کی زندگی کو دشوار بنا دیتے ہیں۔ جذباتی مسائل اور ٹراما کا سامنا نہ صرف حادثے کا شکار فرد کرتا ہے بلکہ اس کے عزیز و اقارب کے لیے بھی یہ بہت بڑا دھچکا ہوتا ہے اور وہ بھی اس صدمے سے نکل نہیں پاتے۔
یہ گمبھیر صُورتِ حال اس اَمر کی متقاضی ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور اس کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ٹریفک حادثات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تکلیف دہ حالات سے بچنے کا آسان اور واحد راستہ ہر ممکن حد تک ٹریفک ایکسیڈینٹس کو روکنا ہے۔
حادثات سے بچاؤ کے لیے اقدامات کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اولاً انفرادی اقدامات اور دوم حکومتی اقدامات۔ انفرادی طور پر مختلف احتیاطی تدابیر اپنا کر اور معمولی باتوں کو دھیان میں رکھ کر ہم ٹریفک حادثات کی تعداد با آسانی کم کر سکتے ہیں، جیسا کہ:
٭ ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہونا ۔٭ حد ِرفتار پر قائم رہنا۔ ٭ٹریفک کے اشاروں اور روڈ سائنز کا خیال رکھنا۔٭ اپنی لین میں ڈرائیونگ کرنا۔ ٭ بےجا اور بار بار اوور ٹیکنگ سے اجتناب کرنا۔٭ ہائی بیم کا کم سے کم استعمال کرنا کہ اس سے دوسرے ڈرائیورزکی بصارت کو نقصان پہنچتا ہے۔٭ پہلے سے انڈیکیٹر دینا۔٭ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کے استعمال اور کھانے پینے سے اجتناب برتنا۔٭ اگلی گاڑی سے مناسب فاصلہ رکھنا۔ ٭سیٹ بیلٹ باندھنا اور ہیلمٹ پہننا۔ ٭ادویہ یا نشے کے زیرِ اثر ڈرائیونگ نہ کرنا۔٭ اپنےاردگرد سے باخبر رہتے ہوئے پوشیدہ خطرات کا اندازہ لگا کر پہلے سے محتاط ہوجانا۔ یاد رہے کہ دفاعی ڈرائیونگ اپنا کر خُود کو حادثات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔٭ انتہائی دائیں لین تیز رفتار ٹریفک کے لیے ہے، اگر آپ کی گاڑی کی رفتار کم ہے، تو سڑک کی بائیں طرف رہیں، خاص طور پر موٹر سائیکل اور سائیکل سوار انتہائی بائیں لین پر سختی سے کاربند رہیں۔٭نیند یا انتہائی تھکن کی صُورت میں مسلسل ڈرائیو نہ کریں۔ ٭موسم کو مدِنظر رکھتے ہوئے سڑک پر نکلنے کا فیصلہ کریں۔٭ وائپر ، لائٹس اور ہارن وغیرہ کو ہمیشہ دُرست حالت میں رکھیں۔٭ سڑکوں پروَن وِیلنگ اور ریسنگ جیسی بچگانہ بلکہ احمقانہ حرکتوں سے پرہیز کریں۔٭ تھوڑا وقت نکال کر اپنی گاڑی کی دیکھ بھال، صفائی سُتھرائی اور تیل، پانی کا خیال رکھیں کہ آپ کی سواری آپ کی نفاست بھی ظاہر کرتی ہے۔٭ خود بھی اچّھی ڈرائیونگ کریں اور دوسروں کی اچّھی ڈرائیونگ کی بھی حوصلہ افزائی کریں۔٭خواتین ڈرائیورز کوسپورٹ کریں ،نہ کہ پریشان۔ ٭ موٹر سائیکل سوار اندھیرے میں ہیڈ لائٹ اور بیک لائٹ لازماً روشن رکھیں۔
ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے حکومتی اور اجتماعی سطح پر مندرجہ ذیل اقدامات کیے جائیں:
٭ ڈرائیورز کی تعلیم و تربیت کے لیے تمام ذرائع ابلاغ استعمال میں لائے جائیں، جیسا کہ اخبارات،ریڈیو، ٹی وی اورسوشل میڈیا وغیرہ۔٭ وقتاً فوقتاً ٹریفک قوانین سے آگہی سے متعلق مہم چلائی جائے، تاکہ لوگوں میں شعور پیدا ہو اور سڑک پر بہتر رویّہ اپنانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔٭ محدود وسائل کے باوجود جس حد تک ممکن ہو، حکومت سڑکوں کی تعمیر و مرمّت پر ترجیحی بنیادوں پر توجّہ دے۔ ٭ روڈ انفرا اسٹرکچر کو محفوظ رکھنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔٭ سگنل لائٹس، روڈ سائنز اور کیمروں وغیرہ کی کارکردگی کو جانچنے کا مستقل اور مربوط نظام تشکیل دیا جائے۔ ٭ ٹریفک پولیس اہل کار موسم کی سختیوں کے باوجود اپنی ذمّےداریاں ادا کرتے نظر آتے ہیں، لہٰذا حکومتی سطح پر اور عوام کی جانب سے بھی اُن کی قدر افزائی ہونی چاہیے تاکہ وہ مزید دِل جمعی اور تن دہی سےکام کرسکیں۔٭ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی صُورت عوام کی استطاعت کے مطابق جرمانے عاید کیے جائیں۔
پاکستان جیسے پس ماندہ ممالک کے مقابلے میں ترقی یافتہ ریاستوں میں ٹریفک اور سڑکوں کر شان دار انفرااسٹرکچر موجود ہے۔ مثال کے طور پر امریکا میں اٹھ ٹریکس تک کی کُشادہ سڑکیں ہوتی ہیں، مگر لندن کی کچھ سڑکیں ہمارے اندرون لاہور کی سڑکوں کی طرح خاصی تنگ ہیں، لیکن وہاں بھی نہ گاڑیاں ایک دوسرے ٹکراتی ہیں اور نہ ہی لڑائی جھگڑے اور ہارن کی سمع خراشی ہوتی ہے۔ بےشک بہت سے عوامل ہمارے بس میں نہیں، لیکن ہم اپنی حد تک ٹریفک کے نظام میں سدھار ضرور لا سکتے ہیں۔
اگر ہم خُود کو یہ باور کروانے میں کام یاب ہوجائیں کہ چاہے سڑک تنگ ہو یا ٹریفک پولیس موجود نہ ہو، تب بھی ٹریفک سُکون اور روانی سے چل سکتا ہے، اگر ڈرائیور دِل سے یہ تسلیم کرلے کہ سڑک پر دوسری گاڑی، موٹر سائیکل، سائیکل یا پیدل چلنے والے کا بھی حق ہے، تو ہم پاکستان میں بھی ٹریفک سسٹم کو منظّم اور مثالی بناسکتے ہیں اور روڈ ایکسیڈینٹس میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔