• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلگام واقعے کے بعد، پاکستان اور بھارت کے درمیان جس تیزی سے حالات بگڑے، اس صورتِ حال نے ڈپلومیسی یا سفارت کاری پر یقین رکھنے والوں کو شدید مایوس کیا، لیکن یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہ جنگ، بذریعہ سفارت کاری نہیں روکی جاسکی۔ حالیہ زمانے میں اِس کی تازہ ترین مثال یوکرین ہے، جس کا تنازع2014 ء سے چل رہا تھا۔ ایک طرف روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن جیسے منجھے ہوئے بین الاقوامی امور کے ماہر تھے، تو دوسری طرف امریکا اور یورپ کے گھاگ سیاست دان، لیکن چالیس ماہ گزرنے کے باوجود جنگ رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔

دراصل، جنگ ایک ایسی دلدل ہے، جس سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ روس، یوکرین جنگ میں دونوں اطراف کے ساٹھ ہزار سے زاید افراد ہلاک اور شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ پوری دنیا اس جنگ کے اثرات منہگائی کی صُورت برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ اقوامِ متحدہ سے یورپی یونین تک، ہر بڑے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر عالمی امن و استحکام کے ضمن میں بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں کہ انسانی جان سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

انسانی حقوق کی دوھائیاں دی جاتی ہیں، لیکن مجال ہے کہ جنگ میں ملوّث طاقتیں پیچھے ہٹیں۔ روس اور یوکرین کی جانب سے روز نت نئی شرائط اور نئے نئے دعوے سامنے آتے ہیں۔ جنگ میں مرنے والے عام شہریوں کی کیا حیثیت ہے اور جنگ کرنے والوں کو اُن کی کتنی پروا ہے، یہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔

اِس سب کچھ کے باوجود، جہاں بھی جنگ ہوتی ہے یا ایسے تنازعات موجود ہوتے ہیں، جو مسلّح تصادم تک جاسکتے ہوں، وہاں کے شہری اپنے سیاست دانوں، حُکم رانوں اور دانش وَروں سے یہ اُمیدیں وابستہ کیے ہوتے ہیں کہ شاید سیاست دان اپنی ہٹ دھرمی اور اَنا کے خول سے نکل کر عوامی مفاد میں فیصلے کریں۔ جنگوں سے بچنے کے لیے’’وار ڈپلومیسی‘‘ سے کام لیا جاتا ہے، تو یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ اِس نوعیت کی سفارت، کاری تنازعات کے حل اور جنگیں رکوانے میں کس حد تک مدد فراہم کرسکتی ہے۔

’’وار ڈپلومیسی‘‘ اُس عمل کا نام ہے، جو سفارتی حکمتِ عملی اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات حل کرنے یا جاری جنگوں کی روک تھام کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے تاکہ مسلّح تصادم کی بجائے کسی پُرامن حل کی طرف بڑھا جاسکے۔ اِس قسم کی سفارت کاری کے کئی مراحل ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو تنازعے یا جنگ کو پھیلنے سے روکنے یعنی ڈی ایسکلیشن(Deescalation) کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر جاری فوجی کارروائیاں محدود کروانے اور تنازعات کا پُرامن حل تلاش کرنے کے لیے فریقین کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی سعی ہوتی ہے۔

کسی حل تک پہنچنا آسان امر نہیں ہوتا کہ جب تنازعات پھیل جائیں، تو پھر اُن میں کئی دیگر کھلاڑی بھی شامل ہوجاتے ہیں، جن کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ شام کی خانہ جنگی’’عرب بہار‘‘سے شروع ہوئی، جس کا ایجنڈا مُلک میں شفّاف انتخابات کا انعقاد تھا، لیکن جب اس احتجاج میں اور اُسے طاقت کے زور پر کچلنے کی مہم میں شدّت آئی، تو ایران، تُرکیہ، یورپ، امریکا، روس اور عرب دنیا بھی اس میں اپنا اپنا حصّہ ڈالنے لگیں، جس کا نتیجہ لاکھوں افراد کی ہلاکت اور دربدری کی صُورت برآمد ہوا۔ وار ڈپلومیسی کے تحت جنیوا میں مذاکرات کے کئی دَور ہوئے، سلامتی کاؤنسل نے تنازعے کے حل کے لیے روڈ میپس دئیے، مگر سب ناکام رہے۔

آخر احمد الشرع کی فوجی پیش قدمی نے شامی عوام کی بھرپور سپورٹ سے اسد خاندان کی53 سالہ آمریت کا خاتمہ کیا۔ وار ڈپلومیسی کا پہلا قدم یا ہدف تلخی کو جنگ میں بدلنے سے روکنا ہوتا ہے اور اِس کے لیے ضروری ہے کہ فریقین کے درمیان رابطوں کے دروازے بند نہ ہوں۔ ویسے دشمن ممالک میں بھی بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے بات چیت کے دروازے کُھلے رہتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان پلواما واقعے کے بعد مشرقی سرحد پر جو خاموشی رہی، وہ اِسی بیک چینل ڈپلومیسی کا نتیجہ تھی۔ دونوں اطراف سے سخت اور تلخ بیانات آتے رہے، لیکن توپوں کے دھانے بند ہی رہے۔ اِسی لیے براہِ راست یا کسی تیسری پارٹی کے ذریعے رابطے قائم رکھنا، وار ڈپلومیسی کی پہلی ضرورت ہے۔

اگر تلخی اور تنازع مسلّح تصادم کی شکل اختیار کرجائے، تو پھر پہلا کام اُسے مینیج کرنا یا ایک حد میں رکھنا ہوتا ہے۔ خاص طور پر شہری آبادی اور اہم تنصیبات کو حملوں سے بچانے کی تدابیر کی جاتی ہیں، کیوں کہ اِس طرح کے حملوں سے عوامی جذبات بھڑکتے ہیں، جواب دَر جواب کے مطالبات ہونے لگتے ہیں اور اِس جذباتی ماحول میں اچھے خاصے اعصاب کے مالک لیڈر بھی بہہ جاتے ہیں۔ 

وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے اُنھیں نقصان سے بچانا، اُن کا فرض اور ذمّے داری ہے ،نہ کہ جذبات کا شکار ہوکر اُنھیں جنگ میں جھونکنا۔جنگی ماحول میں میڈیا، اور اب سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ اِس ضمن میں بھارتی میڈیا کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے، جس نے پاک، بھارت کشیدگی کو بڑھاوا دینے میں ایسا منفی کردار ادا کیا کہ اِسے یونی ورسٹی سطح کے تحقیقی مقالوں کا موضوع بنایا جاسکتا ہے۔

اسے’’گودی میڈیا‘‘ تو پہلے ہی کہا جاتا رہا کہ وہ مکمل طور پر مودی حکومت، خاص طور پر اُس کے انتہاپسند اور نفرت آمیز پراپیگنڈے کے لیے مختص ہے، لیکن بھارتی میڈیا نے حالیہ دنوں میں جس طرح کی رپورٹنگ کی، اُس نے تو پوری دنیا کے میڈیا اور صحافیوں کو سخت شرمندگی و ہزیمت سے دوچار کردیا۔ جن میڈیا ماہرین نے بھارتی میڈیا کا بغور تجزیہ کیا، اِس کے اثرات کا جائزہ لیا، وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ انڈین میڈیا نے اپنے خبرناموں، ٹاک شوز اور تبصروں کو ڈراموں میں تبدیل کردیا۔

اِن چینلز پر موجود ریٹائرڈ جنرلز، سفارت کاروں اور ’’را‘‘ کے ایجینٹس کو تبصروں کا کام تو سونپا گیا، مگر شاید اُنہیں یہ بھی بتا دیا گیا کہ تمھارا کام تجزیے کرنا نہیں، صرف شور مچانا اور چیخ و پکار کرنا ہے تاکہ کوئی عقل و دانش کی طرف نہ جاسکے۔ اور اُنھوں نے یہی کام کیا۔اِس کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا نے بہت ذمّے داری کا مظاہرہ کیا۔ ہمیں بھارتی میڈیا سے پہلے مقابلے کی کوئی ضرورت تھی اور نہ اب ہے، کیوں کہ اُن کا دنیا میں جو مذاق بنا اور بن رہا ہے، اگر ذرا بھی شرم ہوتی، تو کب کے میڈیا ہاؤسز پر تالے لگا چُکے ہوتے۔ 

یہ بات درست ہے کہ جنگوں میں پراپیگنڈا کیا جاتا ہے، مگر اس کا کمال یہ ہے کہ کسی کو پتا نہ چلے کہ یہ پراپیگنڈا ہے، جب کہ بھارتی میڈیا کی حماقت یا ناکامی یہ ہے کہ اُس کی درست خبر بھی اب دنیا کو پراپیگنڈا ہی نظرآتی ہے۔ اُس نے ایسا جذباتی دباؤ ڈالا کہ نوبت مسلّح تصادم تک پہنچا دی۔ وہاں کے وزراء سے لے کر بڑے بڑے سیاست دانوں تک، کوئی بھی اپنے بے لگام میڈیا کے دباؤ کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ ایسے غیر ذمّے دار میڈیا کا وار ڈپلومیسی پر اثر انداز ہونا مُلک کے لیے کس قدر تباہ کُن ہوتا ہے، اِس کا بھارت کو جَلد پتا لگ جائے گا۔ بہرکیف،جنگ کوئی مذاق نہیں، ایک خونی کھیل ہے۔

اس میں اپنے ہی جیسے انسانوں، اکثر بے گناہوں کی جانیں جاتی ہیں یا وہ عُمر بَھر کے لیے معذور ہو کر معاشرے اور خود پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں دوسری عالمی جنگ کی ’’وکٹری ڈے‘‘ تقریبات ہوئیں، جن کے دَوران ہلاک ہونے والے نامعلوم افراد کی قبروں پر پھول چڑھائے گئے، لیکن کیا کسی کو یاد ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں ایک کروڑ افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً پورا یورپ کھنڈر بن گیا تھا، جسے دوبارہ کھڑا کرنے میں پوری صدی لگ گئی۔ وہاں کے سیاست دانوں نے جنگ سے توبہ کی، لیکن شاید انسان کی یاد داشت بہت کم زور ہے کہ دو، تین نسلوں بعد ہی وہ پھر تر و تازہ ہوکر جنگ کے میدان میں کود پڑتا ہے اور یوکرین اس کی ایک تازہ مثال ہے۔

’’وار ڈپلومیسی‘‘ محض فریقین سے کام یاب نہیں ہوتی، اِسی لیے مختلف ممالک اُن کے ساتھ شامل ہوکر تنازعے یا جنگ کے خاتمے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ دوسری پارٹیز آپس میں دوست ہوتی ہیں یا اُن کے متعلقہ ممالک سے مضبوط روابط ہوتے ہیں۔ قطر اور پاکستان نے دوحا مذاکرات میں طالبان اور امریکا کے درمیان یہ کردار ادا کیا، جسے تُرکیہ، عرب ممالک، چین اور روس کی سپورٹ حاصل تھی۔ یوکرین اور غزہ میں اب تک یہ کام یابی اِس لیے حاصل نہیں ہو رہی کہ اس میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والوں کو باقی ممالک کی جانب سے زیادہ سپورٹ نہیں مل پا رہی۔ 

چین بیانات تو دیتا ہے، لیکن عملاً وہ یوکرین اور غزہ میں جنگ بندی کے معاملات سے دُور ہے، جب کہ بھارت بھی سامنے آنے کو تیار نہیں، حالاں کہ اُس کے روس اور اسرائیل سے اچھے تعلقات ہیں۔ شاید ذاتی مفادات اُسے بیچ بچاؤ کروانے سے روکتے ہیں۔ موجودہ صدی میں وار ڈپلومیسی کے تحت جنگیں رکوانے کے لیے اقتصادی دباؤ یا پابندیوں کا حربہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

اقتصادی پابندیاں اِس لیے عاید کی جاتی ہیں کہ متعلقہ ممالک کی معیشت پر دباؤ پڑے، لوگ پریشان ہوں، منہگائی میں اضافہ اور اشیاء کی قلّت ہو، جس کے نتیجے میں وہ اپنی حکومتوں کو امن مذاکرات پر مجبور کریں۔امریکا نے روس پر ایسی ہی پابندیاں عاید کیں، جب کہ ایران کو کسی نیوکلیئر ڈیل تک لانے کے لیے بھی پابندیوں کا سہارا لیا جارہا ہے۔ 

پہلے بھی اِسی طرح کی پابندیوں سے ایران نے صدر حسن روحانی کے دَور میں نیوکلیئر ڈیل کی تھی، حالاں کہ وہ ایک دوسرے کو’’ بڑا شیطان‘‘ اور ’’خرابیوں کی جڑ‘‘ کہتے تھے۔ اِس ڈپلومیسی کے ذریعے ایران اور امریکا بات چیت پر آمادہ ہوئے، جن کی یورپ، روس اور چین نے معاونت کی۔ 

تو یہ کہنا کہ وار ڈپلومیسی حالیہ زمانے میں کام یاب نہیں ہو رہی، غلط ہوگا، ہاں یہ ضرور ہے کہ سفارت کاری میں وقت درکار ہوتا ہے، یہ کوئی جنگ نہیں ہوتی کہ لمحوں میں سب کچھ تہس نہس کردیا جائے۔ اِس کے لیے صبر و حوصلے کے ساتھ، تدبّر کی ضرورت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر عوام کی فکر کہ پراپیگنڈے کے ذریعے عام آدمی کے جذبات خواہ کتنے ہی کیوں نہ بھڑکا دئیے جائیں، وہ بہرحال جنگ پسند نہیں کرتا اور اپنے بال بچّوں کے ساتھ سُکون کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے بیچ پہلگام واقعے کے بعد جو کچھ ہوا، اُس پس منظر میں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا اِن دونوں ممالک کے درمیان’’وار ڈپلومیسی‘‘ ممکن ہے؟ سادہ سا جواب ہے، صرف ممکن ہی نہیں، ہو رہی ہے۔دونوں ممالک کی قیادتوں سے مختلف ممالک کے وزراء، سفراء نے ملاقاتیں کیں، اِس ضمن میں سعودی عرب اور ایران خاصے فعال رہے۔ امریکی صدر نے لڑائی روکنے اور ثالثی کی پیش کش کی۔چین، پاکستان کا دوست ہے اور اُس کے بھارت سے بھی تعلقات ہیں۔

اِن تمام ممالک کے اِس خطّے سے بے پناہ مفادات وابستہ ہیں۔ دونوں ممالک کے مشیرانِ سلامتی امور کے بھی باہمی رابطے ہوئے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی ایک عرصے سے اِنہی کے درمیان ہوتی آئی ہے۔مودی نے بھارت میں ایک خاص قسم کی قوم پرستی کو فروغ دیا ہے، جس کا محور، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے نفرت ہے اور اس سوچ سے کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

غالباً مودی یہ سمجھ بیٹھے کہ پاکستان اقتصادی طور پر کم زور اور سیاسی طور پر تقسیم ہے،لہٰذا اِس صُورتِ حال سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے، لیکن پاکستانی قوم کے اتحاد نے اُس کے ارمانوں پر اوس ڈال دی۔ پھر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جہاں جنگوں کا ایک سلسلہ ہے، وہیں معاہدے بھی ہوتے رہے ہیں۔ لیاقت نہرو پیکٹ سے اس کا آغاز ہوا، پھر ایّوب خان اور نہرو کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہوا،1965ء کی جنگ کے بعد روس کی ثالثی میں ایّوب خان اور لا ل بہادر شاستری کے درمیان تاشقند معاہدہ ہوا۔

اِسی طرح شملہ پیکٹ ہے، جو ذوالفقار بھٹّو اور اندرا گاندھی کے درمیان 1971ء کی جنگ کے بعد ہوا، جب پاکستان دولخت ہوچُکا تھا۔نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی کے درمیان1999 کا’’اعلانِ لاہور‘‘ بھی اہمیت کا حامل ہے، تو پرویز مشرّف دَور میں بھی بات چیت کے سلسلے جاری رہے۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا اُس وقت بھارت میں انتہا پسند نہیں تھے؟ بالکل تھے۔ لیکن اِن سب معاہدوں کی بنیاد’’وار ڈپلومیسی‘‘ہی تھی، جو رہنماؤں کو مذاکرات کی میز تک لاتی اور کام یابی دِلاتی ہے۔ دنیا کو سوچنا ہوگا کہ کسی مودی جیسے لیڈر کو یہ اختیار کیسے دیا جاسکتا ہے کہ وہ نفرت یا طاقت کے زعم میں150کروڑ انسانوں کو ایٹمی جنگ میں جھونک دے۔