مُلکِ حبشہ کے عادل حکم راں، شاہِ حبشہ’’ نجاشی‘‘ کے دربار میں خاصی گہماگہمی ہے۔ وزراء، مصاحب و اعیان حکومت اور مذہبی رہنما، پادری اپنی مخصوص نشستوں پر براجمان ہیں۔ آج کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ مُلک عرب سے دو خاص ایلچی بادشاہ سے ملاقات کے متمنّی ہیں۔ بادشاہ کے حُکم پر انھیں دربار میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں ایلچی عمرو بن عاص اورعبداللہ بن ابی ربیعہ ہیں۔
دونوں آدابِ شاہی بجا لاتے ہوئے بادشاہ کے سامنے کچھ لمحے سجدہ ریز رہے، پھر چمڑے سے بنے قیمتی تحائف بادشاہ کی خدمت میں پیش کیے۔ نجاشی نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے شرفِ قبولیت بخشا اور آنے کی وجہ دریافت کی۔ عمرو بن عاص نے نہایت عاجزی و انکساری سے عرض کیا۔ ’’جہاں پناہ! آپ کے دربار میں آنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے چند نافرمان، مخالف آپ کی سلطنت کے سائے میں پناہ گزیں ہیں۔
انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے مذہب سے بغاوت کرکے ایک نئے دین کی پیروی شروع کردی ہے۔ توہمارے حُکم ران اُن سے متعلق باور کروانا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ کہیں یہ آپ کے پُرامن مُلک میں بھی انارکی، دنگا فساد بپا نہ کردیں، چناں چہ بہتر ہوگا کہ آپ اُنہیں فوری طور پر اپنے مُلک سے نکال کر ہمارے حوالے کردیں۔‘‘ عمرو بن عاص نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ دربار میں موجود تمام افراد نے عمرو کی تجویز کی حمایت کا اعلان کرکے بادشاہ سے اس پر فوری حُکم جاری کرنے کی استدعا کردی۔
دراصل یہ سب وہ لوگ تھے، جنھیں مکّہ کے ایلچی پہلے سے قیمتی تحائف دے کر اپنا ہم نوا بناچکے تھے۔ نجاشی نے ایک نظر دربار میں موجود اپنے رفقاء پر ڈالی اور پھر اُس کی بارُعب آواز دربار میں گونجی ’’معزز ایلچی! تمہارا بروقت مطّلع کردینا ہمارے لیے باعثِ مسرّت ہے۔
یہ درست ہے کہ ہمارے مُلک میں فسادیوں اور باغیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں، لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم اُن اجنبی لوگوں کا موقف بھی سُنیں اور پھر اپنا فیصلہ صادر کریں۔‘‘ اس کے بعد بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ ’’کل صبح اُن لوگوں کو ہمارے دربار میں پیش کیا جائے۔‘‘
دربار میں ایمان افروز خطاب
امّ المومنین سیّدہ امِّ سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ’’جب بادشاہ کا قاصد صحابۂ کرامؓ کے پاس آیا، تو انہوں نے اکٹھے ہوکر مشورہ کیا کہ بادشاہ کے پاس پہنچ کر کیا کہا جائے، پھر آپس میں طے کیا کہ آنحضرتﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں جو کچھ جانتے ہیں، سچ سچ بیان کردیا جائے۔ چناں چہ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کی رہنمائی میں یہ لوگ بادشاہ کے دربار میں پہنچے۔
نجاشی نے اپنے پادریوں کو بھی طلب کرلیا تھا، جو آسمانی کتب اور صحیفے کھولے بیٹھے تھے۔ حضرت جعفر بن ابی طالب، بادشاہ کے روبرو ہوکر شاہی آداب نظر انداز کرتے ہوئے اُس کے سامنے سیدھے کھڑے ہوگئے۔ نجاشی نے ایک ناخوش گوار سی نظر اُنؓ پر ڈالی اور گرج دار آواز میں سوال کیا ’’تم نے آدابِ شاہی کے مطابق سجدہ کیوں نہیں کیا؟‘‘
حضرت جعفرؓ نے آداب ملحوظ رکھتے ہوئے واشگاف الفاظ میں جواب دیا۔ ’’شہنشاہِ محترم! ہم صرف ایک اللہ کو سجدہ کرتے ہیں، ہمارا دین ہمیں ایک اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘ بادشاہ نے کہا کہ ’’وہ کون سا دین ہے، جس کی خاطر تم اپنے آباؤ اجداد کے دین چھوڑکر میرے دین میں شامل ہوئے اور نہ ہی اقوامِ عالم میں سے کسی کا دین اختیار کیا۔‘‘
سیّدنا جعفرؓ نے جواب دیا۔ ’’بادشاہ سلامت! ہم سچّے دین سے نابلد تھے۔ بُتوں کو پوجتے، مُردار کھاتے تھے، بے حیائی کے کام کرتے، رشتے داریاں توڑ دیا کرتے تھے، پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے، طاقت وَر کم زوروں کو کھا جاتے تھے۔ ہم یوں ہی جہالت کی اتھاہ تاریکیوں میں ڈگمگا رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ہم ہی میںسے ایک پیغمبر ؐ کو بھیجا۔ جن کے حسب نسب، صداقت و امانت اور عفّت و عصمت کو ہم خُوب جانتے تھے۔
اُنہوں نے ہمیں ایک اللہ کو ماننے، اُس کی عبادت کر نے، ناحق خون نہ بہانے، جھوٹ نہ بولنے، امانت کی ادائی، صلۂ رحمی، پڑوسیوں کے ساتھ حُسن سلوک کرنے، یتیم کا مال ناحق کھانے اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دیا۔ اور ہمیں پتّھر کے بے جان بُتوں کی پوجا سے منع فرمایا۔
ان ہدایات پرعمل پیرا ہونا ہمارا وہ جرم ہے، جس کی پاداش میں ہماری قوم نے ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیئے۔ جب یہ مظالم ہماری برداشت سے باہر ہوگئے، تو ہمارے نبیﷺ نے ہمیں آپ کے مُلک ہجرت کا حکم دیا۔ اس لیے کہ آپ نیک دل اور عادل حکم راں ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ بادشاہ سلامت کے دربار سے ہمیں ضرور انصاف ملے گا۔‘‘ نجاشی نے اُن سے کہا کہ ’’کیا اپنے نبیؐ کے کلام کا کوئی حصّہ تمھیں یاد ہے؟‘‘ سیّدنا جعفرؓ نے فرمایا۔ ’’جی ہاں۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’مجھے وہ پڑھ کر سناؤ۔‘‘ سیّدنا جعفرؓ نے اس موقعے پر سورۂ مریم کا ابتدائی حصّہ پُرسوز انداز میں تلاوت فرمایا، جسے سُن کر نجاشی زار و قطار رونے لگا، حتیٰ کہ اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔
وہاں موجود پادری بھی اتنا روئے کہ اُن کے سامنے رکھے آسمانی کُتب کے نسخے آنسوؤں سے بھیگ گئے۔ یہاں تک کہ دربار میں موجود ہر شخص کی آنکھیں پُرنم ہوگئیں۔ چند لمحوں بعد نجاشی نے کہا۔ ’’واللہ! یہ وہی کلام ہے جو حضرت موسیٰ ؑ پر بھی نازل ہوا تھا، بلاشبہ، اُن دونوں کا منبع ایک ہی ہے۔‘‘ پھرنجاشی نے ایلچیوں سے مخاطب ہوکر کہا۔ ’’تم دونوں چلےجاؤ۔ اللہ کی قسم، مَیں اُنھیں کسی صُورت تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔‘‘ (مسند احمد 1740:)۔
ایلچیوں کی نئی چال کا موثر جواب
سیّدہ امِّ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ ’’جب وہ دونوں نجاشی کے دربار سے نکلے، تو عمرو بن عاص نے کہا۔ ’’واللہ! کل مَیں نجاشی کے سامنے اُن کا عیب بیان کرکے رہوں گا اور اس کے ذریعے اُن کی جڑ کاٹ کر پھینک دوں گا۔‘‘ عبداللہ بن ربیعہ ہمارے معاملے میں کچھ نرمی رکھتا تھا، کہنے لگا ’’ایسا نہ کرنا، اگرچہ یہ ہماری مخالفت کررہے ہیں، لیکن ہیں تو ہمارے ہی رشتے دار۔‘‘ عمرو بن عاص نے کہا۔ ’’نہیں، مَیں نجاشی کو اُن کے خلاف بتاکر رہوں گا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اللہ کا بندہ کہتے ہیں۔‘‘
چناں چہ اگلے دن آکر عمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا۔ ’’بادشاہ سلامت! یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بڑی سخت بات کہتے ہیں، اس لیے انہیں بلا کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اُن کا عقیدہ دریافت کیجیے۔‘‘ بادشاہ نے صحابۂ کرامؓ کو پھر بلا بھیجا۔ صحابۂ کرامؓ دربار میں پہنچے، تو نجاشی نے اُن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق دریافت کیا۔
سیّدنا جعفرؓ نے فرمایا۔ ’’بادشاہ سلامت! اس سلسلے میں ہم وہی کہتے ہیں، جو ہمارے نبیؐ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے، اُس کے پیغمبر، اُس کی رُوح اور اس کا وہ کلمہ ہیں، جسے اللہ نے حضرت بی بی مریم علیھا السلام کی طرف القاء کیا تھا، جو کہ کنواری اور اپنی شرم و حیا کی حفاظت کرنے والی تھیں۔‘‘ اس پر نجاشی نے اپنا ہاتھ زمین کی طرف بڑھا کر ایک تنکا اٹھایا اورکہنے لگا۔ ’’تم نے جو کچھ کہا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے اس تنکے کی نسبت بھی زیادہ نہیں ہیں۔‘‘
جب نجاشی نے یہ بات کہی، تو اُس کے اِردگرد بیٹھے سرداروں کو یہ بات بہت بُری لگی۔ غصّے کے عالم میں ان کے نرخروں سے آوازیں نکلنے لگیں۔ نجاشی نے کہا۔ ’’تمہیں جتنا چاہے بُرا لگے، لیکن یہی بات درست ہے۔‘‘ پھر حضرت جعفرؓ سے مخاطب ہوا۔ ’’تم لوگ جاؤ، آج سے تم اس مُلک میں امَن سے رہوگے۔‘‘
پھر تین مرتبہ کہا کہ ’’جو شخص بُرا بھلا کہے گا، اُسے اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ تم میں سے کسی کو تکلیف پہنچاؤں۔ اگرچہ اس کے عوض مجھے ایک پہاڑ کے برابر بھی سونا مل جائے۔‘‘ اس کے بعد ان دونوں ایلچیوں کو ان کے تحائف اور ہدایا سمیت نکال دیا اور مسلمان، نجاشی کے ملک میں امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنے لگے۔‘‘ (یہاں تک کہ وہ نبی اکرمﷺ کے پاس واپس آگئے)۔ (مسند احمد حدیث1740:)۔
ایمان افروز تقریر کا کمال
حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کو آنحضرت ﷺ نے حبشہ کے مہاجرین کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ نجاشی کے دربار میں کی گئی حضرت جعفرؓ کی ایمان افروز تقریر کا کمال تھا کہ نجاشی نے بھی اسلام قبول کرلیا۔
اُنھیں آنحضرت ﷺ سے ملاقات کا زندگی بھر اشتیاق رہا، مگر یہ حسرت پوری نہ ہو سکی اور ان کا انتقال ہوگیا۔ آنحضرتﷺ نے نجاشی کی وفات کے بعد اُن کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھائی اور صحابہ ؓسے فرمایا ’’اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو۔‘‘ (بخاری 3879,3880,3881,3868)۔
حسب نسب ، مناقب
حضرت جعفر ؓ کے والد ابو طالب کا نام، عبدِ مناف بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی تھا۔ ان کے والد، ابو طالب رسول اللہ ﷺ کے چچا اور سرپرست تھے۔ حضرت جعفرؓ اپنے بھائی حضرت علی مرتضیٰؓ سے دس سال بڑے تھے۔ حضرت جعفرؓ کی والدہ فاطمہ بنتِ اسد بن ہاشم عبد مناف بن قصی نہایت خدا ترس اور نیک سیرت خاتون تھیں۔ حضرت جعفرؓ کا نکاح حضرت اسماء بنتِ عمیس ؓ سے ہوا، جن سے آپؓ کی دو صاحب زادیاں اور تین صاحب زادے محمدؓ، عبداللہؓ اور عونؓ پیدا ہوئے۔ دو بیٹے، عونؓ اور محمدؓ کربلا میں شہید ہوئے۔
تیسرے بیٹے عبداللہؓ، سیّدہ فاطمہؓ کی صاحب زادی، حضرت زینبؓ (خاتونِ کربلا) کے شوہر تھے۔ یوں تو حضرت جعفرؓ کے سب ہی بچّے نام ور تھے، لیکن عبداللہ بن جعفرؓ زیادہ معروف تھے۔ ان ہی سے آپؓ کی کنیت چلی۔ ویسے تو آپؓ کے کئی القاب تھے، لیکن ان میں ذوالجناح، طیار اور ابو المساکین زیادہ مقبول ہوئے۔ آپؓ کا شمار سابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ آنحضرتؐ کے دارارقم میں منتقل ہونے سے قبل ایمان لے آئے تھے۔ حضرت جعفرؓ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔
آپؓ نہایت منکسرالمزاج، شیریں کلام، فصیح اللسان تھے۔ نجاشی کے دربار میں سورہ ٔمریم کی تلاوت اس قدر پُرسوز انداز میں کی کہ سُننے والوں پر وجد طاری ہوگیا۔ آپ صاحبِ فضل و کمال، عظیم مدبّر و منتظم تھے۔ جرأت و استقلال، ذہانت و متانت، قیادت و سیادت اورامارت میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔
ہجرتِ ثانیہ میں اپنی اہلیہ، حضرت اسماء بنتِ عمیسؓ کے ساتھ حبشہ ہجرت کی، تو رسول اللہﷺ نے آپؓ کو حبشہ کے مہاجرین کا امیر مقرر فرما دیا۔ آپؓ نے اپنی بہترین علمی اور انتظامی صلاحیتوں کی بدولت مہاجرینِ حبشہ کی خُوب خُوب خدمت کی اور امارت کا حق ادا کیا۔
حضرت جعفرؓ 7ہجری میں اپنی اہلیہ کے ساتھ حبشہ سے مدینہ منورہ تشریف لائے۔ اُس وقت اللہ کے نبی خیبر میں تھے۔ حضرت جعفرؓ فرماتےہیں۔ ’’جب ہم رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے، تو آپؐ نے ہمارا استقبال کیا۔ مجھے گلے لگایا اور فرمایا۔ ’’مَیں نہیں جانتا کہ مجھے فتحِ خیبر کی زیادہ خوشی ہے یا جعفرؓ کی آمد کی۔‘‘ اتفاق سے اُن کی آمد فتحِ خیبر کے روز ہوئی تھی۔ (مشکوٰۃ 4687:)۔
شعبیؒ سے روایت ہے کہ حبشہ سے واپسی پر حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ حضورؐ سے ملے تو آپؐ نے ان سے معانقہ کیا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ (سنن ابو داؤو، 5220)۔ حکیم بن عتبہ سے مروی ہے کہ حضرت جعفرؓ اور اُن کے ساتھی فتحِ خیبر کے بعد آئے، یعنی اُن کے آنے سے پہلے خیبر فتح ہوچکا تھا۔
روایت ہے کہ آپ فتح خیبر والے دن تشریف لائے۔ رسول اللہﷺ نے خیبر کے مالِ غنیمت میں اُن کا حصّہ مقرر فرمایا۔ آنحضرتؐ کے آزاد کردہ غلام، حضرت عبیدؓ اللہ بن اسلم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت جعفرؓ سے فرمایا کرتے تھے کہ’’اے جعفرؓ! تم جسمانی اور اخلاقی طور پر میرے مشابہ ہو۔‘‘ (مسند احمد، 19218) ۔ترمذی کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفرؓ بن ابی طالب سے فرمایا کہ تم صورت اور سیرت دونوں میں میرے مشابہ ہو۔ (سنن ترمذی،3765)۔
رسول اللہﷺ جن کو ’’ابو المساکین‘‘ کہا کرتے تھے
حضرت جعفر بن ؓ ابی طالب نہایت سخی، فیّاض اور غریبوں مسکینوں کے ملجاء تھے۔ اور کیوں نہ ہوتے، وہ خاندانِ بنو ہاشم کے چشم و چراغ تھے، جن کی مہمان نوازی کا کوئی ثانی نہیں۔ پھر دادا، حضرت عبدالمطلب کی سخاوت پورے عرب میں مشہور تھی۔ قحط کے دنوں میں دُور دراز علاقوں سے اناج جمع کرنا اور اپنے اونٹ کو ذبح کر کے پورے مکّے میںاشیائے خورونوش کا اس وقت تک بندوبست کرنا، جب تک کہ قحط ختم نہیں ہو جاتا، یہ تمام واقعات تاریخ کے صفحات پر نقش ہے۔
والد ابی طالب کہ جنہوں نے چالیس سال سے زیادہ عرصے تک اپنے بھتیجے کی کفالت و حمایت کی، اُنہیں قوت فراہم کی اور کفار سے اُن کا تحفّظ یقینی بنایا۔ والدہ حضرت فاطمہؓ بنتِ اسد کی دریا دلی و سخاوت ضرب المثل تھی، جنہوں نے اپنے بچّوں کے مقابلے میں اللہ کے نبیﷺ کی راحت مقدم جانی۔ ایسے عظیم، خدا ترس خانوادے کا چشم و چراغ سخاوت و فیاضی میں اپنے آباؤ اجداد سے پیچھے کیسے رہ سکتا ہے؟
حضرت جعفرؓ غریبوں، لاچاروں اور مسکینوں سے محبّت کرتے، اُن کے درمیان بیٹھتے، اُن سے باتیں کرتے، اُن کے دُکھ درد سُنتے اور انہیں رفع کرنےکی جستجو و فکر میں رہتے۔ اسی لیے تو رسول اللہﷺانہیں ’’ابو المساکین‘‘ کہا کرتے تھے۔ (سنن ترمذی3766:)۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ مسکینوں کے لیے سب سے بہترین شخص حضرت جعفر بن ابی طالبؓ تھے۔ وہ ہمیں اپنے گھر لے جاتے اور جو کچھ بھی گھر میں ہوتا کِھلا دیتے۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ گھی یا شہد کا ڈبّہ نکال کر لاتے۔ اس میں کچھ نہ ہوتا، تو ہم اسے پھاڑ کر اس میں سے جو کچھ لگا ہوتا، اسے چاٹ لیتے تھے۔ (صحیح بخاری 3708,5432)۔
حضرت جعفرؓ کی شجاعت و بہادری
غزوئہ خیبر سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرتﷺ نے حضرت حارثؓ بن عمیر کو قاصد بنا کر شاہ ِبصرہ کے پاس بھیجا ۔ لیکن راستے میں ’’موتہ‘‘ کے مقام پر قیصرِ روم کے گورنر، شرحبیل بن عمرو نے اُنھیں شہید کر دیا۔ حضوراکرمﷺ کو اس کا بے حد دُکھ ہوا۔ آپؐ نے حضرت زیدؓ بن حارثہ کی امارت میں تین ہزار صحابہ ؓ کا لشکر روانہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’ اگر زیدؓ شہید ہو جائیں، تو جعفرؓ امیر ہوں گے، اور اگر یہ بھی شہید ہو جائیں، تو عبداللہ بن رواحہؓ امیر ہوں گے۔ (صحیح بخاری،4261)۔
مکّہ مکرمہ سے گیارہ سو کلو میٹر دُور، اردن کے ساحل پر دو لاکھ جدید ہتھیاروں سے لیس قیصر روم کی فوج کے مقابلے میں صرف تین ہزار غریب الوطن مجاہدین بڑی بے جگری سے لڑے، یہاں تک کہ امیر حضرت زید بن حارثہؓ شہید ہوگئے۔ (سیرت النبی،301/1)۔ حضرت زیدؓ کی شہادت کے ساتھ ہی حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نےلپک کر عَلم اٹھایا اور برق رفتاری سے دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے اندر جا پہنچے۔
اُن کے ایک ہاتھ میں علَم اور دوسرے میں برہنہ شمشیردیکھ کر کسی میں قریب آنےکی ہمّت نہ تھی۔ جو آتا، اُس کا جسم اپنے سر سے محروم ہو جاتا۔ رومی فوجی گاجر، مولی کی طرح جہنّم رسید ہورہے تھے۔ اچانک حضرت جعفرؓ اپنے سرخ و سیاہ گھوڑے کی پشت سے اُترے اور پھر وادی موتہ کی فضاؤں نے شجاعت و بہادری کے وہ مناظر دیکھے، جن کی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت جعفرؓ بڑی بے جگری سے لڑ رہے تھے، جھنڈا دائیں ہاتھ میں تھا۔ دشمن کے ایک جتھے نے زبردست حملہ کرکے وہ ہاتھ کاٹ ڈالا۔
حضرت جعفر نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا۔ کچھ ہی دیر میں بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا، تو پھر دونوں باقی ماندہ بازؤں سے جھنڈا اپنی آغوش میں لے لیا اور اُس وقت تک بلند رکھا، جب تک کہ خلعتِ شہادت سے سرفراز نہ ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ رومی فوج کے ایک بدبخت سپاہی نے انھیں ایسی تلوار ماری کہ اُن کے دو ٹکڑے ہوگئے۔(سیرت رحمۃ للعالمین ؐ ،303/2)۔
جعفر طیار اور جعفر ذوالجناحین
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’مَیں نے جعفر بن ابی طالب کو جنّت میں فرشتے کی صُورت اُڑتے دیکھا۔ فرشتوں کے ساتھ دو پَروں کے ذریعے۔‘‘ (السلسلہ، 3497)۔ ایک صحابی نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں اُن کے دونوں بازؤں کے عوض جنّت میں دو بازو عطا کیے، جن کے ذریعے وہ جہاں چاہتے ہیں، اُڑتے پِھرتے ہیں۔
اسی لیے اُن کا لقب جعفر طیار اور جعفر ذوالجناحین پڑگیا۔ (طیار کے معنی اُڑنے والا اور ذوالجناحین کے معنی دو بازؤوں والا)۔ (الرحیق المختوم،529)۔ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ’’ جنگِ موتہ میں حضرت جعفرؓ کے جسم پر تیروں اور نیزوں کے90سے زائد زخم تھے۔‘‘(صحیح بخاری، 4261)۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اُن کے جسم کے سب زخم، جسم کے اگلے حصّے میں تھے۔
گھر والوں کو صبر کی تلقین
حضرت جعفرؓ کی اہلیہ، حضرت اسماء بنتِ عمیسؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز میں گھر میں بچّوں کو نہلا دُھلا کر بیٹھی تھی کہ اللہ کے نبیؐ میرے گھر تشریف لائے۔ رخِ انور پر تبسّم کے بجائے افسردگی کے آثار تھے۔ بچّوں کے بارے میں دریافت فرمایا۔ بچّوں نے حضورﷺ کی آواز سُنی تو بھاگ کر قریب آگئے۔ اللہ کے رسولﷺ نے بچّوں کو بانہوں میں لیا ہی تھا کہ چشمِ مبارک میں تیرتے آنسوؤں سے ریشِ مبارک ترہونا شروع ہوگئیں۔
مَیں نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ اس قدر افسردہ ہیں، کیا میدانِ جنگ سے کوئی غم ناک خبر آئی ہے؟‘‘ فرمایا۔ ’’ہاں، جعفرؓ شہید ہوگئے ہیں۔‘‘ اس اندوہ ناک خبر نے مجھے حواس باختہ کردیا، میرے منہ سے ایک زور دار چیخ نکل گئی، جسے سُن کر محلّے کی خواتین میرے گھر آگئیں۔
آپؐ یہ خبر دے کر افسردگی کے عالم میں گھر تشریف لے گئے اور ازواجِ مطہراتؓ سے فرمایا۔ ’’جعفرؓ شہید ہوگئے ہیں، تم جا کر اُن کے گھر والوں کو تسلّی دو۔‘‘ سیّدہ فاطمۃ الزہرہؓ کو چچا ، حضرت جعفر ؓ اور چچی، حضرت اسماء سے بے حد انسیت تھی۔ اس خبر نے انہیں بھی نڈھال کر دیا۔ آپؐ نے صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’جعفرؓ کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو۔‘‘ (سنن ابنِ ماجہ، 1610)۔