• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر اس ملک کے حکمرانوں کا اصل ’’چہرہ ‘‘ صحرائے تھر میں سامنے آگیا ہے جہاں بچے بھوک سے بلک کر مر رہے ہیں وہیں، اسی دھرتی پر ، اسی صحرا میں ہمارے حکمرانوں نے شاہی کھانا کھایا، اعلیٰ پکوان کھاتے ہوئے انہیں رتی برابر شرم نہ آئی کہ ہم اس تھر میں شاہی پکوان کھا رہے ہیںجہاں بچے بھوک سے مر رہے ہیں افسوس صد افسوس اس مرحلے پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے سو ایک مرتبہ پھر افسوس ۔
ان حکمرانوں کے چال چلن دیکھ کر بھٹو صاحب بہت یاد آئے۔ اتنے یاد آئے کہ مجھے وہ سارے کردار یاد آگئے جو بھٹو صاحب کے خلاف رہے اور پھر ان کرداروں کے تمام گدی نشین بھٹو صاحب کی قبر پر دعائے مغفرت کرتے پائے گئے ۔ جن لوگوں کو بھٹو زندگی میں قائل نہ کرسکا وہ موت کے بعد بھٹو کے قائل ہوگئے ۔
لوگ بھٹو کے قائل کیوں نہ ہوتے ۔ اس کے کارنامے ہی ایسے تھے ۔ اس نے عام آدمی کوزبان دی، عام آدمی کو ایوانوں تک پہنچا دیا، عام آدمی تک تعلیم کے دروازے کھول دیئے ، اس نے عام آدمی کو ، عام پاکستانی کو شناخت دی ، بھٹو مزدور اور ہاری کے ساتھ کھڑا ہوجاتا تھا۔ بھٹو لوگوں کے لیے بے چین رہتا تھا ، اس کا تویہ چلن نہیں تھا ، وہ توکسی علاقے میں جب بچے مررہے ہوتے تھے توان کا ساتھی بن جاتا تھا ، کھانا نہیں کھاتا تھا ۔ وہ آخری دم تک ناانصافیوں کے خلاف رہا ، اسے تو عالمی سطح پر ہونے والی ناانصافیوں پر بہت دکھ ہوتا تھا ، وہ ان نا انصافیوں کے خلاف برسرپیکار رہا ۔ پاکستانی قوم کو اگر کوئی شک ہے تو وہ بھٹو کے پانچ سال ایک طرف رکھ کر باقی ساٹھ برس ایک طرف رکھ لے ، اسے صاف نظر آئے گا کہ اس کے پانچ برس ساٹھ برسوں سے کہیں آگے ہیں ان پانچ برسوں میں ہونے والی ترقی حیرتوں کو چھوتی دکھائی دے گی اور ساٹھ برسوں کا سفر رائیگاں نظر آئے گا ۔ اس کے نیوکلئیر پروگرام اور دیگر کارناموں کوچھوڑ دیجئے بس ایک کارنامے کومدنظر رکھ لیں ۔ مثلاً بھٹو کے دور میں شناختی کارڈ بنے ، پاسپورٹ بنوائے بلکہ دوسرے ملکوں کے ساتھ معاہدے کیے کہ وہ پاکستانی ہنرمندوں اور مزدوروں کو خوش آمدید کہیں گے۔ آج سمندر پار پاکستانیوں کے باعث پاکستان میں بہت خوشحالی ہے بلکہ پاکستان میں پیسہ انہی لوگوں کے باعث آیا، بھٹو نے پاکستانیوں کو باہر کی دنیا دکھائی آج دنیا بھر میں پاکستانی خدمات انجام دے رہے ہیں، ملک میں زرمبادلہ بھیج رہے ہیں، یہ سب کمال بھٹو کا تھا اس خوشحالی کا پورا کریڈٹ بھٹو صاحب کوجاتا ہے بدقسمتی سے1985ء کے بعد سے آنے والے حکمرانوں نے پاکستان کیلئے تنزلی کا رستہ چنا ، پاکستان کے حالات ابتر سے ابتر ہوتے چلے گئے ۔ آج حالت یہ ہے کہ نہ گھر محفوظ، نہ جان نہ مال اور نہ ہی عزت محفوظ ہے بھوک اور موت رقص کررہی ہے ، بے بس پاکستانیوں پر ہنس رہی ہے ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے بھٹو صاحب کے ساتھ ڈاکٹر ماریہ سلطان کا نام کیسے لکھ دیا ہے ۔ جی ہاں ! اس کی ایک دووجوہات ہیں ایک نیو کلیئر سے محبت اور دوسری وجہ پاکستانیوں سے محبت ہے میری کوشش ہے کہ میں پہلے ڈاکٹر ماریہ سلطان کا تعارف تو کروادوں آپ اس خاتون کو اکثر ٹی وی پروگراموں میں سیکیورٹی امور پر بحث کرتے دیکھتے ہوں گے خاص طور پر جنوبی ایشیا کے دفاعی امور تواس کے شوق میں شامل ہیں۔ یہ خاتون بلوچستان کے ضلع ژوب کی رہنے والی ہے ، اس کا علاقہ بڑا پسماندہ ہے اس کا تعلق بلوچوں کے قیصرانی قبیلہ سے ہے ، اس کا بچپن ژوب اور ملتان میں گزرا ، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم ایس ای کی ۔ میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک کلاس فیلو شاہد نواز وڑائچ جو میرے خوبصورت دوست بھی ہیں وہ ماریہ سلطان کے ساتھ قائداعظم یونیورسٹی میں کلاس فیلو رہے ہیں۔ ماریہ سلطان نے اعلیٰ تعلیم مغرب کے جدید ترین اداروں سے حاصل کررکھی ہے پی ایچ ڈی کرنے والی ڈاکٹر ماریہ سلطان جب سرائیکی بولتی ہیں تو لوگ یقین نہیں کرتے کہ وہ کچھ ہی دیر پہلے اتنی جاندار انگریزی بول رہی تھیں کہ اہل مغرب بھی حیران ہورہے تھے ۔ ڈاکٹر ماریہ سلطان کے کارنامے واقعی حیران کن ہیں۔ وہ نیو کلیئر ایشوز پر گھنٹوں لیکچر دیتی ہیں ، سیکیورٹی امور پر انہیں مہارت ہے وہ این ڈی یو (نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی) سمیت کئی یونیورسٹیوں میں لیکچرز دیتی ہیں، ان کے لیکچرز بیرونی یونیورسٹیوں میں بھی ہوتے ہیں، وہ ہر وقت یا کسی کانفرنس میں ہوتی ہیں یا کسی کانفرنس کی تیاری کررہی ہوتی ہیں ان کی ان کا نفرنسوں کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اگر کبھی امریکی یا بھارتی لابی پاکستان کے خلاف کوئی بات کردے تو یہ خاتون انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتی ۔ یہ کانفرنسیں کروا کروا کے ان کی مت مار دیتی ہے ۔
بہت پہلے ڈاکٹر ماریہ سلطان ایک انگریزی روزنامے میں بطور رپورٹر کام کرتی تھیں پھر وہ صحافت چھوڑ کر ’’ ساسی ‘‘ کی ہوگئیں ساسی یعنی ساؤتھ ایشین اسٹریٹیجک اسٹدیزانسٹیٹیوٹ کی سربراہ کے طور پر ماریہ سلطان نے بہت کام کیا ہے اب انہوں نے ساسی یونیورسٹی قائم کردی ہے یہ یونیورسٹی وہ کام کرے گی جوآج تک پاکستانی یونیورسٹیاں نہیں کرسکیں ، یہ یونیورسٹی وہ کام کرے گی جو پچھلے پچیس برسوں سے حکومت کرنے والے نہیں کرسکے مثلاً یہ یونیورسٹی باقی یونیورسٹیوں سے الگ اس لیے ہوگی کہ اس میں نیوکلیئر ایشوز، سول ملٹری تعلقات اور سیکیورٹی امور سے متعلق اعلیٰ تعلیم دی جائے گی وہ کون سا کام ہے جو حکومت کرنے والے نہیں کرسکے مگر اس یونیورسٹی کے راستے ڈاکٹر ماریہ سلطان کریں گی ۔
جی ہاں! اس مقصد کیلئے ماریہ سلطان نے دنیا کے سترہ ممالک سے معاہدہ کررکھا ہے کہ وہ ان کو ہنر مند افرادی قوت مہیا کرے گی ۔ ان ممالک میں خلیجی ممالک کے علاوہ یورپی ممالک اور مشرق کے کئی ممالک ہیں ماریہ سلطان عام، غریب پاکستانیوں کو ایف اے کرنے کے بعد ہنر مندی کے کورس ساسی یونیورسٹی میں کروائیں گی اور پھر کورس کرنے والوں کویونیورسٹی ہی بیرون ملک بھجوائے گی اس مقصد کیلئے ملک کے مختلف حصوں میں کیمپس قائم کیے جارہے ہیں ہر علاقے کے غریب بچے اپنے اپنے سنٹر کے راستے ہنرمندی بھی سیکھیں گے اور بیرون ملک جاکر ملک کانام بھی روشن کریں گے ان سترہ معاہدوں میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ جس ملک کو بھی افرادی قوت مہیا کی جائے گی اس افرادی قوت کواس ملک کی زبان ضرور آتی ہوگی ، مثلاً ساسی کا ایک سنٹر گجرات میں کام کررہا ہے جہاں ہنرمندی ڈینشں زبان میں سکھائی جارہی ہے عام پاکستانی بچوں کی یہ کھیپ ڈنمارک کیلئے ہے۔ اسی طرح مختلف ملکوں کیلئے مختلف سنٹروں میں لوگ تیار ہورہے ہیں۔ یہ ہے پاکستان کی وہ خدمت جو بھٹو کے بعد ڈاکٹر ماریہ سلطان کررہی ہیں، ہمارے پچیس برسوں کے حکمران ایسی خدمت کاسوچ بھی نہیں سکے ۔
صاحبو ! مجھے شیری رحمن اور ڈاکٹر ماریہ سلطان اس لیے پسند ہیں کہ دونوں پاکستان کی خدمت کوفرض سمجھتی ہیں میں جب ان دونوں خواتین کودیکھتا ہوں تو مجھے وینڈی چیمبرلین بہت یاد آتی ہیں ایک زمانے میںوہ پاکستان میں امریکہ کی سفیر ہوتی تھیں برسوں بعد ان سے واشنگٹن میں ملاقات ہوئی تومیں نے عرض کیا کہ کیا ہورہا ہے انہوں نے مجھے کارڈ تھما دیا ، انہوں نے بھی ایک شاندار ادارہ بنارکھا ہے جیسے شیری رحمن نے جناح انسٹیٹوٹ اور ڈاکٹر ماریہ سلطان نے ’’ ساسی ‘‘ بنارکھا ہے ایک خشک کالم کے اختتام پر تازگی کیلئے محسن نقوی کے دواشعار
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کوبھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کرچلنے کی عادت اسے بھی تھی
تازہ ترین