• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹی وی چینلز صرف عدالتی حکم اور براہ راست کارروائی نشر کرنے کے پابند، حکومت کا صحافتی تنظیموں کو انتباہی نوٹس

اسلام آباد / لاہور (نمائندگان جنگ )پیمرا نے عدالتوں ،ٹریبونلز اور نیم عدالتوں میں زیر سماعت معاملات پر تبصرے، رائے زنی یا تجاویز نشر کرنے پر پابندی عائد کردی ، ٹی وی چینلز صرف عدالت حکم اور اُنہی کیسز کی رپورٹنگ کر سکے گا جنکی کارروائی براہ راست نشر ہو۔ وفاقی حکومت کی وزارت اطلاعات و نشریات کے ذیلی ادارہ پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ نے ملک بھر کی صحافتی تنظیموں کو ایک نوٹس کے ذریعے متنبہ کیاہے اور کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک مقدمہ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں کسی بھی فردیا جماعت کی جانب سے توہین عدالت پر مبنی مواد کو کسی بھی نیوز چینل پر نشر کرنے یا کسی اخبار میں شائع کرنے کے عمل کو بھی توہین عدالت ہی تصور کیا جاتا ہے ۔ ادھر عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ پر پابندی کا پیمرا کا نوٹیفکیشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ پابندی کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا جس کی سماعت آج (جمعہ کو) لاہور ہائیکورٹ میں ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق پیمرا نے عدالتوں ،ٹریبونلز اور نیم عدالتوں میں زیر سماعت معاملات پر تبصرے، رائے زنی یا تجاویز نشر کرنے پر پابندی عائد کردی ۔ الیکٹرانک میڈیا صرف عدالتوں سے جاری تحریری حکم اور اُنہی کیسز کی رپورٹنگ کر سکے گا ، جن کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی ہو۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹر اتھارٹی نئی ایڈوائزی21مئی کو تمام چینلز کو جاری کی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق احکامات کا اطلاق ، خبر ناموں، حالات حاضرہ کے پروگرامز اور علاقائی زبانوں کے ٹی وی چینلز پرہے۔ ڈائریکٹر جنرل آپریشنز براڈ کاسٹ میڈیا کا دستخط شدہ نوٹیفکیشن چیئرمین پیمرا کی منظوری سے جاری کیا گیا ۔ نئی ہدایات کے مطابق الیکٹرانک میڈیا صرف عدالتوں سے جاری تحریری حکم کی رپورٹنگ کا مجاز ہوگا ، اس کے علاوہ صرف اُنہی کیسز کی رپورٹنگ کر سکے گا ، جن کی کارروائی براہ راست نشر کی جاتیہے۔ علاوہ ازیں عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ پر پابندی کا پیمرا کا نوٹیفکیشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا،پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ ایسوسی ایشن کے صدور عقیل افضل اور فیاض محمود نے نوٹیفکیشن کیخلاف درخواست دائر کی۔پیمرا نوٹیفکیشن کیخلاف درخواست میں سیکرٹری اطلاعات اور چیئرمین پیمرا کو فریق بنایا گیا ،درخواست میں کہا گیا کہ پیمرا نے 21 مئی کو ترمیمی نوٹیفکیشن کے ذریعے عدالتی رپورٹنگ سے متعلق ہدایات جاری کیں، پیمرا کا نوٹیفکیشن آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کی خلاف ورزی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کی پیمرا کے نوٹیفکیشن میں غلط تشریح کی گئی۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت پیمرا کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے اور پٹیشن کے حتمی فیصلہ تک نوٹیفکیشن معطل کرے۔قبل ازیں پیمرا کی جانب سے کورٹ رپورٹنگ پر پابندی کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے ذیلی ادارہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے ملک بھر کی صحافتی تنظیموں کو ایک نوٹس کے ذریعے متنبہ کیاہے کہ سپریم کورٹ کے ایک مقدمہ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں کسی بھی فردیا جماعت کی جانب سے توہین عدالت پر مبنی مواد کو کسی بھی نیوز چینل پر نشر کرنے یا کسی اخبار میں شائع کرنے کے عمل کو بھی توہین عدالت ہی تصور کیا جاتا ہے ،اس لئے آپ توہین عدالت پر مبنی مواد کو شائع یا نشر کرنے سے مکمل طور پر گریز کریں ، جمعرات کے روز پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جنرل/ پی آئی او ، مبشر حسن کے دستخطوں سے جاری ایک صفحہ کا تنبیہی نوٹس پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے )کے چیئرمین، آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی( اے پی این ایس )کے صدر اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز( سی پی این ای) کے صدکو بھجوایا گیا ہے،یاد رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سادات خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 17 مئی 202 کو صوبہ سندھ سے ازاد حیثیت میں منتخب ہونے والے سینیٹر فیصل واوڈا اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی سید مصطفی کمال سے بالترتیب 15اور16 مئی کو نیشنل پریس کلب ،اسلام آباد میں منعقدہ پریس کانفرنسز میں اعلیٰ عدلیہ پر مختلف الزامات عائد کرنے،اس کے ججوں اور زیر سماعت مقدمات کو زیر بحث لانے پر انہیں توہین عدالت میں اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کرتے ہوئے ان سے دو ہفتوں کے اندر اندر وضاحت مانگی تھی جبکہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)سے پریس کانفرنسز کی ویڈیو ریکارڈنگ اور متن بھی طلب کرلیا تھا اور اٹارنی جنرل کو بھی کیس کو آگے بڑھانے کے لئے نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 5 جون تک ملتوی کردی تھی ،اس مقدمہ کی سماعت کے تحریری حکمنامہ کے مذکورہ بالا پیرا نمبر8 میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ کسی بھی قسم کی توہین عدالت پر مبنی مواد کو چلانے والے اخبارات یا چینلز بھی توہین عدالت کے مرتکب تصور کیے جاتے ہیں اس لئے وہ اس عمل سے باز رہیں ،بصورت دیگر ان کے خلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جاسکتی ہے ۔ادھر پیمرا کی جانب سے کورٹ رپورٹنگ پر پابندی کے نوٹیفکیشن کیخلاف درخواست سماعت کے لئے مقرر ،جسٹس عابد عزیز شیخ آج (جمعہ کو) صبح 9بجے کورٹس جرنلسٹ ایسوسی ایشن اور ثمرہ ملک ایڈووکیٹ کی درخواستوں پر سماعت کریں گے، لاہور ہائیکورٹ میں کورٹس جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے نائب صدر شیخ زین العابدین اور ثمرہ ملک ایڈووکیٹ نے الگ الگ درخواستوں میں پیمرا کی جانب سے نوٹیفکیشن کے ذریعے کورٹ رپورٹنگ پر پابندی کو چیلنج کیا ہے، کورٹس جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے وکیل اظہر صدیق اور ثمر ملک ایڈووکیٹ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کا 21 مئی کا نوٹیفکیشن چیلنج کیا ہے، نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ٹی وی چینلز صرف عدالت کا تحریری فیصلہ نشتر کر سکتے ہیں جبکہ عدالتی کارروائی کی خبر چلانے سے باز رہیں، درخواست گزار ثمرہ ملک نے اپنی درخواست میں پیمرا ، وفاقی حکومت اور سیکرٹری انفارمیشن کو فریق بنایا ہے، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پیمرا کا 21 مئی کو جاری کردہ نوٹیفکیشن جمہوری مملکت کی روایات اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اہم خبریں سے مزید