• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کو معاشی بحران سے نجات دلانے کے لیے دیگر اقدامات کے علاوہ تمام غیرضروری سرکاری اخراجات کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے ۔ اس سمت میں پیش رفت کی ضرورت تو عشروں سے واضح ہے مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے دور میں کفایت شعاری کی تدابیر طے کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی لیکن اس کی سفارشات پر کوئی قابل ذکر کارروائی اس دور میں نہیں ہوسکی۔ تاہم باخبر ذرائع کے مطابق اب اس ضمن میں سرگرمی سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے سربراہ ڈپٹی چیئرمین پلاننگ ہیں جبکہ اس کے ارکان میں سیکریٹری مالیات، سیکریٹری کابینہ ڈویژن، سیکریٹری صنعت و پیداوار کے علاوہ ماہرین معیشت و مالیات قیصر بنگالی، ڈاکٹر فرخ سلیم اور محمد نوید افتخار شامل ہیں۔ موجودہ کمیٹی نے اپنا تفصیلی کام 2023 ءکی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق انجام دیتے ہوئے آئندہ بجٹ کے حصے کے طور پر اخراجات میں کمی کے اقدامات کے ایک مجموعے کا اعلان کیا ہے۔ ان میںدیگر اقدامات کے علاوہ گریڈ ایک سے 16 تک کی 70ہزارکی ان اسامیوں کا خاتمہ بھی شامل ہے جو پچھلے کئی برسوں سے خالی پڑی ہیں۔ وفاقی حکومت کے80سے زائد اداروں کی اوورہالنگ، ادغام یا اتلاف کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ سابقہ کفایت شعاری کمیٹی نے ایسے جامع اقدامات تجویز کیے تھے جن پر عمل کرکے سالانہ 10 کھرب روپے سے زائد بچائے جاسکتے ہیں لیکن پچھلے دور میں اس کمیٹی کی زیادہ تر سفارشات کو نظرانداز کر دیا گیا۔سابقہ کمیٹی نے کفایت شعاری کے ایسے جامع اقدامات کی سفارش کی تھی جنہیں اگر نافذ کر دیا جاتا تو زرتلافی کی مد میں 200ارب روپے ، ترقیاتی کاموں کے ضمن میں 200ارب روپے، سول حکومت کے اخراجات میں55 ارب روپے، خزانے کا ایک کھاتہ بنانے سے 60 سے 70 ارب روپے‘ ماحولیاتی تحفظ کی مد میں 100 ارب روپے، ریاستی کنٹرول میں چلنے والے کاروباری اداروں کے ضمن میں 174 ارب روپے اور غیر جنگی نوعیت کے دفاعی اخراجات کی مد میں15 ارب روپے بچائے جاسکتے تھے۔ موجودہ کمیٹی نے اپنے نتائج میں صراحت کی ہے کہ پچھلی کمیٹی کی رپورٹ کو صرف جزوی طور پر نافذ کیا گیا اور زیادہ ترسفارشات کو نظرانداز کیا گیا۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ ہمارے حکمراں طبقے قرضوں کے جال میں جکڑے ہوئے اس ملک کے محدود مالی وسائل کو کس لاپروائی سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں جبکہ ملک سے محبت اور ان کے فرائض منصبی کا تقاضا ہے کہ قوم کا ایک ایک پیسہ درست مصرف میں استعمال کیا جائے اور کسی بھی درجے میں فضول خرچی نہ ہونے دی جائے۔ اگر ماضی میں یہ ذمے دارانہ رویہ اختیار کیا گیا ہوتا تو یقینا آج قومی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی ۔ تاہم کم ازکم اب مالیاتی وسائل میں بچت کی ہر ممکن تدبیر اختیار کی جانی چاہیے تاکہ حالات میں جلد ازجلد بہتری لائی جاسکے۔ امید ہے کہ وزیر اعظم کی تشکیل کردہ سابقہ اور موجودہ کمیٹی کی سفارشات اس مقصد کے حصول میں پوری طرح معاون ہوں گی اور ان پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا۔ زیر نظر رپورٹ سے یہ پتا نہیں چلتا کہ ان سفارشات میں مفت پٹرول ، بجلی، گیس ، ٹیلی فون ، گاڑیوں اور ملازمین کی شکل میں سرکاری حکام اور اعلیٰ سول و ملٹری اور عدالتی افسروں کو حاصل مجموعی طور پر اربوں روپے کی ایسی مراعات کا خاتمہ بھی شامل ہے یا نہیں جو انتہائی دولت مند ملکوں میں بھی حکام کو فراہم نہیں کی جاتیں۔ اگر ایسا نہیں تو موجودہ کمیٹی کو یہ معاملہ بھی اپنی سفارشات میں لازماً شامل کرنا چاہیے نیز کرپشن کے خاتمے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات بھی تجویز کیے جانے چاہئیں کیونکہ ہماری معاشی و سماجی ابتری کا سب سے بڑا سبب کرپشن کا روگ ہی ہے۔

تازہ ترین