• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ صحافت‘‘ آج کارِ مقدّس ہو، نہ ہو، تاہم، غیر منقسم ہندوستان میں انگریزوں کو اپنی سر زمین سے نکالنے کے ضمن میں اُس زمانے کے اہلِ صحافت کی غالب اکثریت اسے ایک مقدّس فریضہ ہی سمجھ کر انجام دیا کرتی تھی۔1822 ء میں’’ جامِ جہاں نُما‘‘ کی اشاعت برّصغیر میں اُردو صحافت کی ابتدا قرار دی جا سکتی ہے اور یہ ابتدا اِس بات کا عزم بھی تھا کہ فرنگی یا غیر مقامی افراد، زمین یا فرزندانِ زمین کے خلاف جو ناروا سلوک کر رہے ہیں، اُسے بے نقاب کیا جائے۔ 

دراصل، یہ وہ مقدّس فریضہ تھا کہ جس کی ادائی کے لیے صحافیوں نے عیش پسندی کی بجائے سخت کوشی اور سَر جُھکانے کی بجائے سر کٹوانا گوارا کیا۔1837ء کے اختتام پر مولوی محمّد باقر نے’’ دہلی اخبار‘‘ کا اجراء کیا، تو یہ آغاز تھا، اُس نہ ختم ہونے والی جدوجہد کا،جس کا مقصد اپنی سر زمین کو غیروں کے وجود سے پاک کرنا تھا۔مولوی محمّد باقر نے اخبار کی اشاعت کے وقت طے کر لیا تھا کہ وہ انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا قلع قمع کر کے رہیں گے اور اسی کارِ مقدّس کو نبھاتے ہوئے 1857ء کے گھمسان میں وہ بے خوفی و بے باکی کی نئی داستانیں رقم کرتے ہوئے فرنگیوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بنے اور 13 ستمبر 1857 ء کو جامِ شہادت نوش کیا۔

غدر کے لگ بھگ ایک عشرے کے اندر سر سیّد نے مسلمانوں کی فکری زبوں حالی کو اچھی طرح محسوس کرتے ہوئے پہلے’’ سائنٹیفک سوسائٹی‘‘ کی بنیاد رکھی اورپھر اُسی کے تحت ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ اور ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کا اجراء کیا۔ دونوں اخبارات نے عوام کی سیاسی، سماجی اور فکری رہنمائی کا راستہ خُوب خُوب ہم وار کیا۔ ان کی پیروی میں آگے چل کر ’’ الہلال، ’’ البلاغ‘‘، ’’ اُردوئے معلّیٰ‘‘،’’ دی کامریڈ‘‘، ’’ہمدرد‘‘ اور  ’’زمیندار‘‘ جیسے غیر معمولی اخبارات نے صحافت کو غیر معمولی اعتبار بخشا۔

یہ اخبارات پابندیوں کا سامنا کرتے رہے، بند ہوئے اور ان کے مدیران کو پابندِ سلاسل بھی کیا گیا، مگر یہ تمام تر نامساعد حالات ایسے افراد کے پائے استقلال میں کوئی جنبش نہ لا سکے۔استقامت کے اِس سفر میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو، بنگالی اور دیگر علاقائی زبانوں کے اخبارات و افراد بھی شانہ بہ شانہ چل رہے تھے۔ وقت کے ساتھ اِس کارواں میں دیگر اخبارات بھی شامل ہوتے رہے اور یوں برّصغیر کے باسیوں نے اپنی آنکھوں سے 1947ء میں آزادی کی اُس کرن کو طلوع ہوتے دیکھا کہ جسے پانے میں صحافت اور صحافی، اہلِ سیاست کے ہم رکاب رہے۔غدر سے شروع ہونے والی اعصاب شکن لڑائی، صبحِ آزادی پر طلوع ہونے والی روشن کرن پر منتج ہوئی۔

آزادی کی صُورت منزل تو ملی، تاہم اخبارات و رسائل کے سفر کو مسلسل جاری رہنا تھا۔ پاکستان میں سن چالیس کے اختتامی اور پچاس کے ابتدائی عشرے میں صحافیوں کی اوّلین صف میں ایک سے بڑھ کر ایک صحافی موجود تھا۔اُن میں بھی زیادہ تر وہ تھے، جو تقسیمِ ہند کے عظیم سیاسی معرکے کو اپنی آنکھوں کے سامنے جنم لیتا دیکھ چُکے تھے۔

سو، کوچۂ صحافت میں روز و شب بسر کرنے والے اُن صحافیوں کے سامنے ایک واضح اور شفّاف مقصد تھا۔ اور وہ تھا، حکومت اور ریاست کو اُن کے فرائض یاد دلانا اور اُن کے غلط کام پر بے باکانہ تنقید کرنا۔گویا، ایک نصب العین کے تحت میدانِ صحافت میں قدم رکھنا اور ان ہی اصولوں کو لے کر چلنے والے سربرآوردہ افرادِ صحافت میں ایک نام ضمیر نیازی بھی ہے۔

1927ء میں بمبئی( اب ممبئی) میں پیدا ہونے والے ابراہیم درویش کا آبائی پیشہ تجارت تھا۔جب ذرا شعور کی آنکھ کُھلی، تو ہندوستان اپنی تاریخ کی فیصلہ کُن لڑائی لڑنے میں مشغول تھا اور یہ لڑائی تھی، اپنا حق لینے کی اور اپنی سرزمین پر خود حکومت کرنے کی۔وقت کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتیں، انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ اپنی اپنی حکمتِ عملی کے تحت آزادی حاصل کرنے کی سمت قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی تھیں۔

دیگر جماعتیں بھی اپنے اپنے دائرۂ کار میں ہندوستانی تاریخ کی اِس سب سے بڑی لڑائی کا حصّہ تھیں۔ صرف سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہی اس عمل کا حصّہ نہیں تھیں، بلکہ ادبی تحریکیں بھی دامے، درمے، قدمے اس میں پوری طرح شریک تھیں اور اس کی سب سے بڑی مثال’’ انجمنِ ترقّی پسند مصنّفین‘‘ تھی، جس نے1936ء میں قلم کے ساتھ میدان میں قدم بھی رکھ دیئے تھے اور ادیبوں کو اپنے نظریات کے اظہار کے لیے ایک متحرّک اور فعال قیادت مہیّا کر دی تھی۔

اسکول کے دنوں میں ابراہیم درویش کو نصابی کے ساتھ، غیر نصابی سرگرمیوں میں فعال حصّہ لینے پر ایک گونہ لُطف آتا۔ طالبِ علمی کے زمانے میں کتابوں سے دل چسپی کچھ اِس اندازسے شروع ہوئی کہ ہر گزرتے لمحے اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اخبارات و رسائل کا گہرا مطالعہ جنون کی حد تک بڑھ گیا۔ یوں تو ہندوستان سے شائع ہونے والے بہت سے اخبارات و رسائل روزانہ نظر سے گزرتے، تاہم، جو پرچہ ابراہیم درویش کو زندگی کے مسائل و معاملات، سماجی اونچ نیچ، طبقاتی تقسیم اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سماجی کش مکش، مذہبی احکامات کے غلط استعمال اور ان جیسے دیگر پیچیدہ موضوعات پر مسلسل غور و خوض کا مطالبہ کرتا، وہ نیازؔ فتح پوری کا ماہ نامہ ’’ نگار‘‘ تھا۔ یہ دل چسپی اِس حد تک بڑھی کہ تجارت سے معمولی سا تعلق بھی قائم نہ رہ سکا۔

کالج کی زندگی میں جب ہندوستان کی آزادی کی تحریک اپنی آخری منزلوں میں داخل ہو رہی تھی، تو ابراہیم درویش طلبہ اور مزدوروں کی تحریکوں کا حصّہ بننے لگا، یوں اس کے اندر ایک نہ جُھکنے والے بے باک اور نڈر انسان کے اوصاف جمع ہو گئے۔ ادب سے لگاؤ بڑھا، تو انجمن ترقّی پسند مصنّفین میں بھی شمولیت اختیار کرلی۔

ممتاز ترقّی پسند ادیب، خلیق ابراہیم خلیقؔ نے اپنی خود نوشت ’’ منزلیں گرد کی مانند‘‘کے صفحہ 704پر تحریر کیا ہے :’’ بمبئی میں میرے قیام کے دَوران ضمیر نیازی تین محاذوں پر سرگرمِ عمل تھے۔ طالبِ علموں کا محاذ، ادب اور صحافت کے محاذ۔‘‘ارد گرد کی فضا کچھ ایسی تھی کہ ادب پڑھنا اور اس پر گفتگو کرنا زندگی کا ایک لازمہ تھا۔ 

صرف ادب پڑھنا ہی نہیں، بلکہ کچھ نہ کچھ لکھنا بھی ایک کارِ مشغلہ قرار پایا،تاہم لکھنا اور لکھتے رہنا اشاعت کی منزلوں سے بہت دُور تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ بمبئی سے دیگر اخبارات و رسائل کی طرح روزنامہ’’ اجمل‘‘ بھی شائع ہوتا، جس کا مطالعہ کیے بغیر ابراہیم درویش کو چَین نہ ملتا۔ خدا کا کرنا کچھ یوں ہوا کہ وہ جس اخبار کو پوری دل جمعی اور دل چسپی سے پڑھا کرتا، اُسی میں کام کرنے کا ایک موقع مل گیا۔بس پھر کیا تھا، ادب سے صحافت کی طرف آنے میں ایک لمحہ نہیں لگا۔ اخبار کے مُدیر، معین الدّین حارث بے حد ذہین اور گردو پیش پر گہری نگاہ رکھنے والے شخص تھے۔ اُنہوں نے ابراہیم درویش کی صحافت سے دل چسپی اور جستجو دیکھ کر اُنھیں خصوصی توجّہ کا مرکز بنا لیا۔

بے چین ابراہیم درویش نے یہ بات شاید اُن ہی دنوں گرہ میں باندھ لی کہ صحافت جیسا مقدّس پیشہ صرف باضمیر لوگوں ہی کو اختیار کرنا چاہیے۔ چوں کہ ماہ نامہ’’نگار‘‘ کی تحریروں کے باعث نیازؔ فتح پوری کی شخصیت کے سحر نے جکڑا ہوا تو تھا ہی، تو یوں ابراہیم درویش، ضمیر نیازی کا رُوپ اختیار کر گیا۔بے چین اور ذہین ضمیر نیازی نے معین الدّین حارث سے صحافت کی ابجد سیکھنے کا انتہائی اہم مرحلہ بہت خوش اُسلوبی سے طے کر لیا۔مذکورہ اخبار سے وابستگی گو بہت طویل نہیں رہی۔ 

اِسی اثناء، تقسیمِ ہند کا عمل مکمّل ہوا اور بھارت میں کانگریس نے حکومت قائم کی، جس نے بائیں بازو کی سیاست اور ترقّی پسندانہ خیالات رکھنے والے لوگوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا۔بات پکڑ دھکڑ سے بڑھ کر حکومتی جبر و تشدّد تک جا پہنچی۔ صُورت حال سے نبرد آزما ہوتے ہوئے چند لوگوں نے ترقّی پسندانہ افکار کی ترویج و اشاعت کے لیے ایک اخبار نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ منصوبہ سازوں میں ضمیر نیازی بھی شامل تھے اور جس اخبار کی بِنا ڈالی گئی، وہ پندرہ روزہ ’’نیا پرچم‘‘ تھا، جو1949ء میں سامنے آیا۔ادارتی عملے میں راجندر سنگھ بیدی، وشوامتر عادل، محمّد حیدر اسد اور خود ضمیر نیازی شامل تھے، تاہم ادارتی امور سے انتظامی امور تک زیادہ تر معاملات ضمیر نیازی ہی کے ذمّے تھے۔

یہ پرچہ ترقّی پسند رجحانات کا آئینہ دار تھا اور ضمیر نیازی، جو پہلے ہی ترقّی پسندانہ نظریات کو ذہن و دل سے قریب جانتے تھے، اِس کی وساطت سے روشن خیالی، وسیع النظری اور آزادانہ اظہارِ رائے کے نصب العین پر سختی سے کاربند ہو گئے۔تاہم، حکومت نے چند شماروں کے بعد’’ نیا پرچم‘‘ کی اشاعت پر پابندی عاید کر دی۔ ضمیر نیازی نے سوچا کہ خاموش ہو کر بیٹھ رہنے کی بجائے آزادیٔ اظہار کا سفر جاری رکھنے اور ترقّی پسندانہ خیالات کو سماج میں رواج دینے کے لیے ایک اور پرچہ جاری کیا جائے۔ یوں اُنہوں نے ایک ہم خیال دوست اور صحافی، تصدیق سیوہاروی کے ساتھ مل کر ہفت روزہ  ’’منزل‘‘ کا اجراء کیا۔

تاہم، حکومتی جبر یہاں بھی آڑے آیا اور محض چند شماروں کے بعد اُسے بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور یوں’’ منزل‘‘ صحافت کی تاریک راہوں میں کہیں بھٹک کر کھو گی۔ تاہم، ضمیر نیازی نے حوصلہ ہارنے کی بجائے صحافت ہی کو اپنی زندگی کی منزل سمجھ کر ایک بار پھر تاریک راہوں کا سفر اختیار کرنے کا عزم کیا اور یہ سوچ کر کیا کہ اب اِس سفر سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔

پے درپے تجربات سے یہ تو ثابت ہو گیا تھا کہ حکومت ترقّی پسندانہ خیالات پر مبنی پرچے کی اشاعت میں مزاحم ہوتی رہے گی، سو، اس کے سدّ باب کے لیے اُنہوں نے ایک فلمی رسالہ نکالنے کا ارادہ کیا۔ ایران کا ایک تاجر، کیخسرو اسفند یار افسری’’ نرگس‘‘ کے نام سے ایک پرچہ نکالا کرتا تھا، جو کچھ وقت سے شائع نہیں ہو رہا تھا۔

ضمیر نیازی نے ایرانی تاجر سے بات چیت کی اور یوں1950ء میں’’نرگسِ نَو‘‘ کے نام سے ایک نیا فلمی پرچہ منظرِ عام پر آیا۔ پرچے میں فلمی موضوعات کے ساتھ ایک نمایاں گوشہ ترقّی پسند ادب اور رجحانات کے لیے وقف تھا۔ یہ پرچہ بہت شان و شوکت سے نکلا اور قارئین کا بڑا حلقہ بھی میسّر آ گیا۔ لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد ضمیر نیازی کسی ناگزیر وجہ کے باعث اُس پرچے سے الگ ہو گئے۔اگلا اخبار جو پڑاؤ قرار پایا، وہ تھا’’خلافت‘‘۔ تاہم یہ بھی ایک طرح سے ضمیر نیازی کا عارضی ٹھکانہ ثابت ہوا۔

پے در پے اخبارات کی ملازمت اختیار کرنا اور اُن سے محروم ہو جانا ایک لحاظ سے ضمیر نیازی کے لیے اخبارات سے عشق کو مسلسل بڑھاوا دینے کا محرّک بنتا رہا۔ اُنہوں نے اُس دَور کی عملی صحافت کا حصّہ ہوتے ہوئے اِس بات کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا کہ اُردو صحافت سے وابستگی اختیار کرنے والے نو آموز اور نوجوان صحافیوں کو ماہانہ تن خواہ کی مد میں پچیس یا تیس روپے سے زیادہ معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا اور اکثر اوقات یہ معاوضہ بھی اقساط کی صُورت ملا کرتا۔ 

اگر کوئی جونئیر سب ایڈیٹر سے ترقّی پا کر سینئر سب ایڈیٹر کے عُہدے پر پہنچ جاتا، تو ماہانہ تن خواہ پچاس روپے کے لگ بھگ ہو جایا کرتی۔صحافتی دنیا میں داخل ہونے والے افراد کو پہلے ہی دن بتا دیا جاتا کہ یہ کوئی منفعت بخش شعبہ ہر گز نہیں ہے، بلکہ کسی حد تک گھاٹے کا سودا ہے اور یہاں صرف وہی کام کر سکتا ہے، جس کے سَر میں صحافت کا سودا سما چکا ہو۔ نَو واردانِ صحافت کو یہ بھی بتایا جاتا کہ اخبار سے وابستگی کی صُورت میں اس کے تمام شعبوں سے گہری آگاہی بے حد ضروری ہے اور ایسا نہ کرنے کی صُورت میں صحافتی دنیا میں اپنا مستقبل بنانے سے متعلق سوچنا انتہا درجے کی نادانی ہے۔جو پہلا کام تفویض کیا جاتا، وہ تھا پڑھنا اور انتہائی دل جمعی کے ساتھ پڑھنا۔

نیز، اپنے اخبار کی خبریں، اداریے، تبصرے، تجزیے، کالم کے ساتھ علاقائی اور قومی سطح کے چار سے پانچ دیگر اخبارات بھی اُسی انداز میں پڑھنا۔ یہی نہیں، انگریزی کے اخبارات بھی لگ بھگ اُسی انداز میں اور اتنی ہی تعداد میں پڑھنے ضروری تھے۔ یہ سب اِس لیے تھا کہ ارد گرد کے سیاسی، سماجی، مذہبی اتار چڑھاؤ کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔اِس بات کی بھی ترغیب دی جاتی کہ گھر پر اپنی چھوٹی سی لائبریری قائم کی جائے اور رفتہ رفتہ اُس میں کتابوں کا اضافہ کیا جاتا رہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ایک صحافی میں زیادہ سے زیادہ مطالعے کی عادت ڈالی جائی۔

تربیت کے مختلف درجے تھے۔ سب سے پہلے پروف ریڈنگ کے شعبے میں کام دیا جاتا۔ وہاں سے تربیت پانے کے بعد رپورٹنگ کے شعبے کی طرف روانہ کیا جاتا، جہاں کم از کم تین ماہ تک کام کرنا پڑتا۔ رپورٹنگ میں کام کی سوجھ بوجھ کا فائدہ یہ ہوتا کہ رپورٹر کو خبر کی دریافت کے لیے سماجی رابطوں کو بہتر سے بہتر بنانے کا گُر معلوم ہوتا۔ جب کوئی صحافی رپورٹر کی حیثیت سے کام یاب قرار دیا جاتا، تو اُسے سب ایڈیٹر بنایا جاتا۔ اُس زمانے میں سب ایڈیٹر اخبار کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتا تھا۔ 

اُس کے لیے سخت ہدایات جاری کی جاتیں اور اُن ہدایات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ رپورٹر کو تو غلطی کرنے کی کسی درجے میں رعایت دی جا سکتی ہے، لیکن چوں کہ سب ایڈیٹر پر غلطیاں دُرست کرنے کی بھاری ذمّے داری عاید ہے، تو اُس کے لیے غلطی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔سخت ہدایات کے باوجود بشری تقاضوں کے تحت کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی غلطیاں ضرور سر زد ہوتیں، تاہم سخت ہدایات اور پھر سرزنش کے ڈر سے غلطیوں کا امکان کم سے کم ہو جاتا۔

اُردو اخبارات کے صحافی، انگریزی اخبارات کے مقابلے میں زیادہ محنت کرتے، کیوں کہ اُنہیں خبروں کو ترجمہ کرنے کا اضافی کام بھی انجام دینا پڑتا۔ یہ بھی ضروری تھا کہ سُرخیوں میں انگریزی کا کوئی لفظ استعمال نہ ہونے پائے۔ انگریزی کے عام بول چال والے الفاظ کے لیے بھی اُردو مترادفات استعمال کرنے پر مائل کیا جاتا۔ 

نوجوان ضمیر نیازی نے یہ تمام اسباق دل سے یاد کیے اور ذہن میں بٹھا لیے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پانچ، چھے برس تک ضمیر نیازی بھارت ہی میں رہے۔1953 ء وہ سال تھا، جب وہ ممبئی سے پاکستان کے دارالحکومت کراچی چلے آئے اور پھر یہیں اقامت گزیں ہو گئے۔ کراچی پہنچنے کے بعد جس اخبار سے وابستگی اختیار کی، وہ ’’ نئی روشنی‘‘ تھا۔ 

تاہم، یہ کارِ صحافت محض ایک برس جاری رہ سکا۔1954 ء میں اُنہوں نے اُردو صحافت کو خیر باد کہا اور انگریزی صحافت میں قدم رکھ دیئے۔ اب جس اخبار سے تعلق قائم ہوا، وہ قائدِ اعظم محمّد علی جناح کا دہلی میں پروان چڑھایا جانے والا اخبار، روزنامہ’’ ڈان‘‘ تھا۔ وہ اگلے آٹھ برس تک اسی اخبار میں جونیئر سب ایڈیٹر اور پھر سینئر سب ایڈیٹر کے طور پر اپنے فرائض ادا کرتے رہے۔

یہی وہ دَور تھا، جب اُنہیں نام وَر صحافیوں، ادیبوں، سیاست دانوں اور حُکم رانوں کو قریب سے دیکھنے، سمجھنے کا موقع ملا۔1962ء میں وہ مُلک کے سب سے بڑے صحافتی ادارے،’’جنگ گروپ‘‘ سے شائع ہونے والے شام کے انگریزی اخبار، روزنامہ’’ ڈیلی نیوز‘‘ سے پہلے پہل چیف سب ایڈیٹر اور پھر بطور اداریہ نویس وابستہ ہوئے۔ بعدازاں، 1965ء میں روزنامہ’’بزنس ریکارڈر‘‘ میں چلے گئے۔

1965ء وہ سال تھا،جب اُنہیں خیال آیا کہ کیوں نہ حکومت کے قائم کردہ محکمۂ اطلاعات کی طرف سے اخبارات کو جاری ہونے والی’’ پریس ایڈوائس‘‘یا ’’ صحافتی مشورے‘‘ سنبھال کر رکھیں جائیں۔ جنرل ایّوب خان کی فوجی حکومت پریس ایڈوائس جاری کرنے کے معاملے میں ویسے بھی بے حد’’ کُشادہ ذہن اور فراخ دل‘‘واقع ہوئی تھی اور اپنے اِس’’ مقدّس فریضے‘‘ کی ادائی سے کبھی پہلو تہی نہ کرتی۔

فرائض کی یہ بجا آوری اِتنے احسن طریقے سے انجام دی جاتی کہ کبھی کبھار ایک دن میں کئی کئی ایڈوائسز اخبارات کے دفاتر کو بذریعہ فون موصول ہوتیں اور وہاں سے کاغذ پر منتقل ہو کر اپنی’’ رونمائی‘‘ کرواتیں۔ 

کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ نیوز روم میں پریس ایڈوائسز پر مبنی تراشوں کے ڈھیر لگ گئے اور حالت کچھ یوں ہو چلی کہ اُنہیں سنبھالنا کارِ ناممکن دکھائی دینے لگا۔اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایک رجسٹر میں موصول ہونے والی پریس ایڈوائسز ترتیب وار لکھنے کا کام شروع کر دیا گیا۔اسی کے ساتھ اخبارات میں شائع ہونے والی اہم خبریں، اداریے اور مضامین کے تراشے بھی محفوظ کیے جانے لگے۔ 1965ء میں شروع کیا جانے والا جمع آوری کا یہ کٹھن ترین کام سال بہ سال آگے بڑھتا رہا اور پھر ساتویں سال، یعنی1971 ء میں ایک اعصاب شل کر دینے والا واقعہ یہ ہوا کہ پریس ایڈوائسز پر مشتمل تمام رجسٹر دفتر سے غائب ہو گئے۔

اگر ضمیر نیازی کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا، تو شاید ہمّت ہار جاتا۔ وہ بھی وقتی طور پر دل شکستہ تو ضرور ہوئے، مگر ایک بار پھر آہنی عزم و ارادے سے اپنے کام میں منہمک ہو گئے۔ کام پھر ویسے ہی انجام دیا جانے لگا، جیسے اپنے آغاز کے وقت سے کیا جا رہا تھا۔ حکومتوں کے آنے جانے سے بے نیاز، ضمیر نیازی مسلسل جاں فشانی سے اپنے ارادے کو عملی جامہ پہناتے رہے۔جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اُنہوں نے اپنی جمع کردہ قیمتی معلومات سے تیار کردہ پہلی کتاب اشاعت کے لیے پیش کی۔

کتاب میں شامل متن اور فوجی حکومت کا چلن دیکھتے ہوئے مُلک کا کوئی اشاعتی ادارہ اُسے شائع کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ لیکن پھر ’’کراچی پریس کلب‘‘ کے چند باہمّت اور اُجلے کردار کے صحافیوں کی کاوشوں سے بالآخر ضمیر نیازی کی اوّلین معرکۃالآرا کتاب سامنے آئی۔

کتاب اپنے مشمولات اور مندرجات، نیز اندازِ تحریر کی بدولت اِس قدر پسند کی گئی کہ اگلے چند برسوں میں نہ صرف یہ کہ اُس کے کئی ایڈیشنز شائع ہوئے، بلکہ کتاب کو پاکستانی صحافت پر مختلف فوجی اور جمہوری حکومتوں کی طرف سے عاید کی جانے والے جکڑ بندیوں کی سب سے مستند دستاویز قرار دیا گیا۔ ممبئی سے تعلق رکھنے والے ممتاز بھارتی صحافی اور کئی کتابوں کے مصنّف، اے جی نورانی نے کتاب کی تحسین کرتے ہوئے تحریر کیا کہ’’ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن بھارتی صحافت کو بھی اس کا ایک ضمیر نیازی مل جائے گا۔‘‘

اپنی پہلی کتاب ’’ The Press in Chains-1986‘‘( اردو ترجمہ اجمل کمال:صحافت پابندِ سلاسل 1994ء) میں اُنہوں نے اخبارات کے بارے میں اپنے بے مثل تحقیقی متن کو کمال درجہ معروضی انداز میں قلم بند کیا۔ اگر ایک جانب اُنہوں نے حکومتی جبر، گھٹن، پابندیوں، دباؤ اور ناروا سلوک کا کچا چٹھا بے لاگ انداز میں قوم کے سامنے پیش کیا، تو دوسری جانب، صحافت سے وابستہ چند بلند قامت اور سرفراز افراد کی مزاحمتی تحریکوں اور رویّوں کی اَن مٹ داستانیں بھی قوم کے سامنے پیش کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔

یہی نہیں، صحافت میں موجود ابن الوقتوں، موقع پرستوں اور بونوں کے کردار اُجاگر کرنے میں بھی اُن کا قلم پوری توانائی سے چلتا رہا۔اُن کی اگلی کتاب ’’The Press under Siege-1992‘‘(محصور صحافت)اور اس کے بعد ’’The Web of Censorship-1994‘‘ (احتساب کا جال)تھی۔ نوّے کے عشرے کے وسط میں ضمیر نیازی’’ بزنس ریکارڈر‘‘کے میگزین انچارج کی حیثیت سے ریٹائر ہو گئے۔ اُنہوں نے انگریزی ماہ نامہ ’’ ریکارڈر‘‘ اور ہفت روزہ ’’ کرنٹ ‘‘ کے لیے مدیرانہ خدمات بھی انجام دیں۔صحافت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اُن کی تخلیقی سرگرمیاں بھرپور انداز میں جاری رہیں۔

اُنہوں نے دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں اور ان کی ہول ناک تباہی سے دُور رہنے کا مشورہ دینے کے سلسلے میں ’’زمین کا نوحہ:ایٹمی جنگ کے خطرے اور تباہ کاری کے حوالے سے ادبی انتخاب۔2000ء‘‘کے عنوان سے ایک کتاب بھی مرتّب کی۔اُن کے انگریزی مضامین کو ترجمے کی شکل میں اُردو قارئین کے سامنے’’ انگلیاں فگار اپنی۔2000ء‘‘ کی صُورت پیش کیا گیا۔’’باغبانِ صحرا۔2003ء‘‘ ضمیر نیازی کے انٹرویوز پر مبنی کتاب ہے۔ 2005ء میں آخری کتاب’’ Fettered Freedom‘‘ (پابند آزادی)سامنے آئی، جس میں اُن کے اٹھارہ مضامین شامل تھے اور اسے پاکستان اسٹڈی سینٹر، جامعہ کراچی نے شائع کیا تھا۔

مختلف وقتوں اور حکومتوں کی طرف سے صحافت کو یرغمال بنانے کی کبھی براہِ راست اور کبھی درِ پردہ کوششوں کا پردہ چاک کرتی ہوئی ضمیر نیازی کی اس عنوان سے تحریر کی جانے والی کُتب کا مطالعہ کرتے ہوئے جو بات روزِ روشن کی طرح آشکار ہو کر سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ برسرِ اقتدار طبقہ ہر دَور میں صحافت اور اہلِ صحافت کو اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا ہے اور اسے زیر کرنا، اُس کی سب سے بڑی خواہش نظر آتی ہے۔

پاکستانی صحافت پر مرتّب کردہ اُن کی وقیع کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے شاید کوئی قاری سوچ بھی نہیں سکتا کہ انتہا درجہ جاں فشانی سے ترتیب دی جانے والی تحقیقی تحریروں کا خالق ایک ایسا شخص تھا، جو مسلسل شدید ترین علالت کا شکار رہا اور نوّے کے عشرے کی ابتدا میں صحت اِس طرح جواب دے گئی کہ ٹائپ رائٹر پر کام کرنا ناممکن ہو چلا، تاہم عزمِ صمیم رکھنے والے صحافی نے کروٹ کے بَل لیٹ کر کام کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔اُن کی تحریروں میں معروضیت کے ساتھ ایک اور صفت جو غیر معمولی انداز میں کارفرما نظر آتی ہے، وہ ہے کسی بھی شخصیت کے مقام و مرتبے کو، بغیر کسی مرعوبیت کے بلا کم و کاست بیان کر دینا۔ اِس سلسلے میں صرف دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔

اُن کی پہلی کتاب ’’ The Press in Chains-1986‘‘کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کو اس بات کا کافی ثبوت فراہم ہو جاتا ہے۔پریس ایڈوائس کی اوّلین مثال میں وہ بابائے قوم کی11 اگست1947ء کی دستور ساز اسمبلی میں کی جانے والی تاریخ ساز تقریر پیش کرتے ہیں کہ جس میں قائدِ اعظم نے ریاست کے شہری ہونے کی بنیاد پر اقلیتوں کو بھی اکثریت کے مماثل قرار دیا تھا اور اِس تقریر کے مذکورہ ٹکڑے کو حذف کروانے کا واقعہ مکمل پس منظر کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ اِس سلسلے میں چند بااثر شخصیات کی سرگرمیاں کیا رہیں اور اخبارت کے لگ بھگ تمام مدیران کی رضا مندی کیسے حاصل کی گئی، تاہم روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے مذکورہ تمام کوششیں ناکام بنا دیں۔ 

ضمیر نیازی جہاں الطاف حسین کی شخصیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اُن کی غیر معمولی صلاحیتوں کو بیان کرتے ہیں، وہاں اُن کی لغزشوں کے اظہار کے سلسلے میں بھی کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیتے۔ بالکل اُسی طرح نیازؔ فتح پوری پر اپنے طویل اور پُر مغز مقالے’’ نیازؔ و نگار: فکرِ نَو کے علم بردار‘‘ میں جہاں اُنہوں نے نیازؔ فتح پوری کی مضبوط علمی و ادبی شخصیت کو خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیا ہے، وہاں اُنہوں نے اُن پر اِس سلسلے میں تنقید بھی کی کہ وہ علی اختر حیدر آبادی کو جوشؔ ملیح آبادی پر ترجیح دیتے تھے۔

ضمیر نیازی کے لیے کوئی تحریص، کوئی ترغیب، کوئی پیش کش اور کسی بھی طرح کے نامساعد حالات رکاوٹ نہ بن سکے۔زندگی بھر اُن کا ایک ہی مقصد رہا اور وہ تھا، حق گوئی و بے باکی۔اپنے افکار و نظریات کی رُو سے بائیں بازو کے رُجحانات پر عمل پیرا رہنے والے ضمیر نیازی نے دائیں بازو کے صحافیوں کے حقوق کے سلسلے میں بھی آواز اٹھانے میں کبھی پس و پیش نہیں کیا۔اُن کے اِس اُجلے کردار کی گواہی اُن کے مخالفین بھی دیتے رہے۔

ضمیر نیازی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے
ضمیر نیازی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے

جب نوّے کے عشرے کے وسط میں عوامی حکومت نے شام کے چھے اخبارات پر بہ یک جنبشِ قلم پابندی عاید کی، تو اس کے خلاف اُٹھنے والی پہلی اور سب سے کڑک دار آواز، جسمانی طور پر نحیف و نزار ضمیر نیازی کی تھی، جنہوں نے حکومت کے اس عمل کے خلاف سخت ترین احتجاج کرتے ہوئے’’ صدارتی ایوارڈ برائے حُسنِ کارکردگی‘‘ اعزازی رقم سمیت یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ’’صحافت کے خلاف ایسا ظالمانہ قدم تو کسی بد ترین فوجی ڈکٹیٹر نے بھی نہیں اُٹھایا۔‘‘ جب اُنہیں جامعہ کراچی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کے لیے گورنر ہاؤس مدعو کیا گیا، تو اُنہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مَیں گورنر ہاؤس نہیں جاؤں گا۔اصولوں کی بنیاد پر سرکاری اعزاز و انعام و اکرام ٹھکرا دینا ضمیر نیازی جیسے باضمیر صحافیوں ہی کو زیب دے سکتا تھا۔

پاکستانی صحافت کو یرغمال بنائے جانے والے قوانین، مختلف حکومتوں کی صحافت کے لیے بنائی جانے والی حکمت عملیوں، صحافت کو حکومتی جبر، استحصال سے نجات دلانے کے لیے صحافیوں کی مسلسل جدوجہد، اعلیٰ صحافتی اقدار اور روایات پر کاربند رہنے کے زرّیں اصولوں جیسے موضوعات پر قلم کو ہمیشہ رواں دواں رکھنے والا یہ غیر معمولی صحافی11 جون 2004 ء کو کراچی میں انتقال کر گیا۔

سنڈے میگزین سے مزید