• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت آئی ایم ایف کے مطالبات ملکی معیشت کی بحالی کا ہر ممکن راستہ بند کرنے اور عوام کو حکومت اور ریاست کے خلا ف کھڑا کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں، اس میں شبہ نہیں کہ حالیہ صورتحال میں آئی ایم ایف پروگرام ملک کیلئے ضروری ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آئی ایم ایف ہماری معاشی خود مختاری چھین لے۔ ہم اپنے کالموں میں بار بار حکومت کو یہی مشورہ دیتے رہے ہیں کہ ملکی مفاد کے خلاف کوئی مطالبہ تسلیم نہ کیا جائے۔حکومت نے پیٹرولیم اور دیگر مصنوعات پر 18فیصدکی بھاری شرح سے ٹیکس کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے متبادل تجاویز کا حکم دے کر درست سمت میں بروقت قدم اٹھایا ہے، اس پر قائم رہنا چاہئے۔ متبادل اقدامات کے حوالے سے شہباز شریف کی پچھلی حکومت کی کفایت شعاری رپورٹ بھی اہمیت کی حامل ہے ،جس 70ہزار اسامیاں ختم کرنے اور تقریباََ 80وفاقی محکموں کے باہم انضمام، تشکیل نو یا بند کرنے کی صلاح دی گئی تھی، اگر ان سفارشات پر عمل کرلیا جاتا تو 10کھرب روپے سالانہ بچائے جا سکتے تھے، لیکن ایسا نہ کیا گیا بلکہ اس کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لینے کی خاطر ایک اور کمیٹی بنادی گئی، جو وقت اور پیسے کے زیاں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس کے علاوہ انرجی سیکٹر میں سالانہ 28سوارب روپے کیپسٹی پے منٹ کے نام پر ضائع کئے جا رہے ہیں، اسکے بدلے میں پوری بجلی کی جائے یا ادائیگیاں روکی جائیں، حکومت اشرافیہ کو 770ارب روپے کا دیا جانے والا مفت پیٹرول اور بجلی روک کر بچا سکتی ہے، اس کے علاوہ خود اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 17ارب ڈالر کی اشرافیہ کی لوٹ مار کو روک کر بھی اچھی خاصی رقم بچائی جا سکتی ہے۔ 2544ارب روپے کے محصولات سالہا سال سے عدالتی فیصلوں کے سبب زیر التوا ہیں، عدالتوں سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ اس جانب تھوڑی سی توجہ ملکی معیشت کیلئے آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ کفایت شعاری اور اپنے وسائل کو مینج کرنے کے ان شارٹ ٹرم اقدامات سے ہی پاکستان اتنی بچت کرسکتا ہے کہ اسے آئی ایم ایف کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ دوسری جانب عرب ممالک اور خلیج تعاون کونسل کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری صرف ریفائنر یز پالیسی اور سرمایہ کے تحفظ کے حوالے سے ایک ایسی قانون سازی کی منتظر ہے کہ جس پر گزشتہ حکومت میں ہی اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق ہو چکا تھا، حکومت کو چاہئے کہ یہ قانون سازی جتنی جلدی ممکن ہو، یقینی بنائے تاکہ قرض کی ذلت کے بجائے سرمایہ کاری کا باوقار راستہ اختیار کر کے پاکستانی معیشت کو سنبھالا دیا جا سکے۔ وزیر اعظم خود ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ ملکی معیشت قرض امداد سے نہیں بلکہ کاروبار اور سرمایہ کاری سے اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں چاہئے کہ آئی ایم ایف کو انکار کیا ہے تو اب اپنے اس اسٹینڈ پر کھڑے رہیں اور اپنے وسائل کو ازسر نو منظم کرکے بحران سے نکلنے کی کوشش کریں۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کو حالیہ مذاکرات میں پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگانے کی تجاویز دی تھیں۔ وفاقی حکومت سیلز ٹیکس کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات پر 60روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوری چارج کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومتی عہدیداروں کو یہ بھی یاد کرایا کہ یکم جنوری تک اداروں کی اپنی کھپت کے بجلی گھروں کیلئے بھی گیس کے ٹیرف آرایل این جی پر چلنے والے بجلی گھروں کے برابر لائیں اور یہ مطالبہ بھی کیاکہ حکومت اس معاملے میں مداخلت نہ کرے، 40دن میں یہ فیصلہ کیا جائے کہ کس قسم کے صارفین کو سبسڈ ائز ٹیرف دیا جائے گا۔ دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف کے زیر صدارت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کمیٹی کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے بعد وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نےکشکول توڑ دیا، اب تجارتی و معاشی تعاون کو اہمیت دے رہے ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل کوئی سرخ فیتہ برداشت نہیں اپنے اہداف کو ایس آئی ایف سی کے ذریعے حاصل کریں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے اجلاس سے اتحاد کا پیغام گیا کہ ملکی ترقی کیلئے وفاق اور اکائیاں ایک پیج پر ہیں ۔

آپ کو بتاتا چلوں کہ گزشتہ دنوں عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ فوراً رفح میں فوجی آپریشن روکے اور فائنڈنگ مشن کو غزہ جانے دے۔ عالمی عدالت کے اس حکم کے باوجود دہشت گرد اسرائیل رفح میں وحشت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل عالمی عدالت انصاف کے حکم، اقوام متحدہ کی کسی قرارداد اور کسی بھی عالمی دبائو کو خاطر میں نہیں لا رہا اور وہ امریکی سرپرستی میں بدمست ہاتھی کی طرح نہتے اور معصوم فلسطینیوں کو اپنے پیروں تلے روندتا چلا جا رہا ہے۔ ایک طرف امریکہ خود کو انسانی حقوق کا عالمی چیمپئن قرار دیتا ہے، دوسری جانب عالمی دہشت گرد اسرائیل کی سرپرستی کرکے دنیا کے سب سے بڑے انسانی المیے کو جنم دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے غیر مستقل رکن الجزائر کی درخواست پر گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جبکہ بلجیم‘ کینیڈا‘ جرمنی نے اقوام متحدہ سے اسرائیل پر عالمی پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف وہ اسرائیل کے فضائی حملے کو المناک حادثہ قرار دیتا ہے اور دوسری جانب اسی سانس میں حماس کیخلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان بھی کرتا ہے۔ ضروری ہو گیا ہے کہ جنگی جرائم پر اسرائیل اور اسکی سرپرستی پر امریکہ سمیت اسکی پشت پناہی کرنے والے ممالک کیخلاف عالمی عدالت انصاف کسی بھی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر سخت کارروائی عمل میں لائے اور اقوام متحدہ کو بھی عالمی مطالبہ پر اسرائیل پر سخت پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔

تازہ ترین