• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ٹیکنالوجی، تعمیر و ترقی کا ذریعہ

سرِورق پر نور و نکہت میں ڈوبی ماڈل کو دیکھتے آگے بڑھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رئوف ظفر ہوش رُبا منہگائی سے سسکتے بلکتے عوام کو تاجروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے پہ نوحہ کُناں تھے۔ ہمارے خیال میں تو جب تک کرپشن اور بد انتظامی کے خلاف بےرحمانہ آپریشن نہیں ہوتا، عوام سُکھ کا سانس نہیں لےسکتے کہ چند ہزار کے جرمانے سے بھلا یہ خون خوار تاجر کہاں سدھرنے والے ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کا بھی تمام مال کُھلے بازاروں میں چلا جاتا ہے اورعوام وہاں سے ایسے واپس آتے ہیں، جیسے سکندر دنیا سےگیا تھا۔ 

ستّر کی دہائی تک راشن کارڈ نظام رائج تھا اوراُس سے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف مل ہی جاتا تھا۔ بھارت سمیت کئی مُلکوں میں یہ نظام اب بھی کام یابی سے چل رہا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں دنیا کی بدترین قوم بنی اسرائیل کی اللہ کے ساتھ بدعہدی، ہٹ دھرمی، احسان فراموشی کی رُوداد کی پہلی قسط پیش کی گئی کہ کیسے مَن و سلویٰ کھا کر، ناز و نعم میں پلنے والی قوم، اللہ کے حُکم سے سرتابی و نافرمانی کے سبب عذاب سے دوچار ہوئی۔

’’رپورٹ‘‘ میں محمّد عمیر، قراردادِ پاکستان کا پس منظر بیان کر رہے تھے۔ اور ’’رپورٹ‘‘ ہی میں فرّخ شہزاد نے گوادر میں شدید بارش سے ہونے والی تباہی کی داستان سُنائی۔ یعنی حُکم رانوں کے جدید شہر بنانے کےدعوے تو دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں نبیل مرزا آرٹی فیشل انٹیلی جینس کی افادیت و اہمیت سے بڑی ہی عُمدگی سےآگاہ فرما رہے تھے۔ بےشک، اِس دورِ جدید میں ٹیکنالوجی ہی تعمیر و ترقی کا بڑا ذریعہ ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘میں ایڈیٹر صاحبہ نے رمضان المبارک کی مناسبت سے رائٹ اَپ تحریر کیا اور بہارِرمضان پر خُوب صُورت اشعار بھی پیش کیے۔ 

ماڈل بھی بہت نکھری نکھری سی لگی، ساتھ حجاب، دوپٹّے، گویا سونے پر سہاگا تھے۔ اگر اِسی طرح ہر ماڈل کو دوپٹا اوڑھا دیں تو مشرقی عورت کا صحیح تصوّراجاگر ہوجائے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا، کانٹوں کی سیج پر حکومت کی بات کررہے تھے، مگر یاد رہے، اِن ہی حُکم رانوں نےعوام کی تنزّلی اور اپنے خاندانوں کی ترقی کے ریکارڈز قائم کر رکھے ہیں۔ اپنے اربوں روپے باہر بینکوں میں پڑے ہیں اور عوام کو آئی ایم ایف کی امداد کی نوید سُناتے رہتےہیں۔

’’متفرق‘‘ میں ثاقب صغیر، کشیدگی کے خاتمے کے لیے سیاسی و مذہبی مکالمے کے فروغ پر زور دے رہے تھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں طارق بلوچ صحرائی نے قیامِ پاکستان کےوقت کے خونی فسادات کا المیہ بیان کیا۔ ابصار فاطمہ ’’آمدِ بہار‘‘ پر اچھی نظم لائیں۔ ناقابلِ فراموش کے دونوں واقعات نصیحت آموز تھے۔ اوراب بات، اپنے باغ وبہارصفحے کی۔ اعزازی چٹھی عاجز داد فریادی ابنِ غلام نبی کے نام رہی، دیکھ کے خوشی ہوئی۔ (شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: ماڈل نے دوپٹا اوڑھ رکھا ہو یا نہیں، حضرات دیکھے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔ حالاں کہ اَن گنت مرتبہ بتایا ہے کہ یہ خالصتاً زنانہ صفحات ہیں۔ وہ جو جدید ٹیکنالوجی، تعمیر و ترقی کا ذریعہ ہے، اگر اُس پر کچھ فوکس بڑھ جائے، تو مُلک و قوم کا خاصا بھلا نہیں ہو جائے گا۔

دو پیغامات شائع ہوئے

اُمید ہے، مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ ہمیشہ کی طرح اِس باربھی دو ہی شماروں پرتبصرہ کروں گا۔ خاص ایڈیشن میں سالِ گزشتہ کاخلاصہ پیش کیا گیا۔ آزاد کشمیر، جمع تفریق، عالمی معیشت پراچھی جائزہ رپورٹس تھیں۔ روس، یوکرین جنگ اور اسرائیلی سفّاکیت نے تعمیر و ترقی کی راہ روک دی۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں بالکل درست فرمایا گیا کہ ؎ چراغ سب کے بُجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں۔ علاج معالجہ، کلرآف دی ائیر (ہلکا شفتالورنگ)، ادب/ نگارشات، سائنس/ آئی ٹی، جو ہم میں نہ رہے، سب ہی لائقِ مطالعہ تھے۔ 

بلاشبہ پاک، ایران تنائو کا خاتمہ، انتشار کے شکار خطے کے لیے خوش آئند ہے۔ ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما، خوش مزاج، خوش گفتار، سید امین الحق اور ماہرِ معاشی امور اورایک سوکتابوں کے مصنّف، ڈاکٹر جنید احمد کے انٹرویو شان دار تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے کیا خُوب کہا کہ ’’بھارت، بدمعاش ہاتھی ہے، سب کو سُونڈیں مارتا ہے۔‘‘ اِس بار ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سلسلے میں ناچیز کے دو پیغامات شائع ہوئے، آپ کا بہت بہت شکریہ اور آپ نے ایک خاتون کے خط کے جواب میں انہیں خادمہ ملک کا خطاب دیا، تو پڑھ کر بہت ہنسی آئی۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: آپ کا خط تو لگتا ہے، بہاول نگر سے نہیں، انٹارکٹیکا سے آتا ہے۔ مئی کے مہینے میں آپ جنوری کے شماروں پر تبصرہ فرما رہے ہیں۔ یہ تو حد ہی ہوگئی ہے۔ اتنے عرصے میں تو نہ جانے پُلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزرچُکا۔ سالِ نو کے پیغامات کے بعد عیدالفطر اور مدرز ڈے کے پیغامات بھی شائع ہوکے، باسی ہوگئے۔

ایسے جوابات نہ دیا کریں؟

17 مارچ کے سنڈے میگزین کا سرِورق لاجواب تھا۔ سفید دوپٹا اوڑھے ماڈل بچّی بہت ہی بھلی لگی۔ ایسی ہی ماڈلز کا انتخاب کیا کریں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں افطار دسترخوان موجود تھا اور خُوب تھا۔ عائزہ فاطمہ کا بےحدشکریہ کہ ایسی عُمدہ تراکیب پیش کیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’یہ پرچم ناگزیر تھا‘‘ اور افسانہ ’’اپنے‘‘ دونوں ہی تحریر یں بہت پسند آئیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات بھی نہایت پُراثر تھے۔ اگلے سنڈے میگزین کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی سے متعلق ایک اچھا مضمون تحریر کیا۔ 

ویسےتو اُن کا ہرتجزیہ ہی نناوے فی صد درست اور حقائق کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اِس بار بھی سرورق کی ماڈل کا انتخاب بہت ہی عُمدہ رہا۔ ہاں، رائٹ اَپ عشرت زاہد نے لکھا ۔ یہ کیا نیو اپوائنٹمنٹ ہیں؟ ’’پیارا گھر‘‘ میں افطار کے سامان کا ڈھیر لگا ہوا تھا، مگر تراکیب پر نام نہیں تھا۔ لکھ دیتیں، تو ہم شکریہ ہی ادا کر دیتے۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے محمّد جاوید کو جو جواب عنایت کیا، ایسے جوابات نہ دیا کریں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:کیسے جوابات؟؟ جریدہ دوبارہ نکال کے دیکھا، توہمارے جواب میں تو ہرگز ایسا کچھ نہ تھا کہ جس پرکسی ’’تیسرے‘‘ کو کوئی اعتراض ہو۔ محمّد جاوید صاحب نے جس انداز میں ایک ’’سوختہ بخت سوکن‘‘ کی طرف داری کی، ہم نے بھی اُسی طور اپنی رائے کا اظہار کر دیا۔ اورعشرت زاہد بھی دیگر لکھاریوں کی طرح ایک لکھاری ہیں۔ آج کل ہماری دعوت پر کچھ خواتین اسٹائل رائٹ اَپ لکھ کے بھیج رہی ہیں اور ہم شائع بھی کررہےہیں کہ ’’نیو اپوائنٹمنٹ‘‘ اور پرنٹ میڈیا میں…اب تو خواب ہی ہو کے رہ گیا ہے۔

غیرجانب دار ہونا چاہیے

’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ مریم نواز کی حمایت کس خوشی میں کرتی ہیں۔ اُنہوں نے کون سا ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیداہوئیں۔ جب دل چاہا، بیرون ملک کا ٹکٹ کٹوایا اور روانہ ہوگئیں۔ میرے خیال میں تو گنڈاپوراُن سے بہتر ہے، جو مشکل وقت میں عمران خان کا ساتھ دیتے رہے۔ منہگائی، بےروزگاری، غربت یہ سب مسلم لیگ نون ہی کے تحفے ہیں۔ میرا ماننا تو یہ ہے کہ ایک صحافی کو ہمیشہ غیر جانب دار ہونا چاہیے، نہ کہ کسی ایک کی بےجا تعریفیں کرتا رہے۔ آئندہ احتیاط کریں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: ہمارا خیال ہے، اِس موضوع پر کچھ عرصہ بعد بات کی جائے، توزیادہ بہترہوگا کہ بہرحال، عثمان بزدارکے’’سُن بٹا سنّاٹا دَور‘‘ کے بعد مریم بی بی کو وزارتِ اعلیٰ ملنا، ’’پنجاب‘‘ کے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں، جب کہ گنڈاسہ بردار، گنڈا پور کا وزیر ِاعلیٰ بننا کتنا بڑا المیہ ہے،اس کاادراک بھی عوام کو جلد ہوجائے گا۔ اور ہاں، اب یہ مُلک جس نہج پرآچکا ہے، کسی بھی جینوئن صحافی کا نیوٹرل رہنا بھی کس گناہِ عظیم سے کم نہیں (یوں بھی آپ کا ’’دیوتا‘‘ توکہتا ہے کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے)کہ اب بھی حق، سچ کی بات نہ کی، تو خدانخواستہ یہ تو مُلک دشمنی کے مترادف ہے۔

زرعی ماہرین کی قیمتی باتیں

ایک تجویزہے کہ جریدے میں ’’زراعت‘‘ کا بھی ایک صفحہ لازماً ہوناچاہیے۔ جیساکہ آپ کو معلوم ہے،زرعی ماہرین کی قیمتی باتیں  ہوا بردجاتی ہیں اور کاشت کار کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ میری گزارش ہے کہ آپ سنڈے میگزین کے ذریعے کاشت کاروں کی تربیت کا فریضہ انجام دیں تاکہ مُلک کم ازکم اناج میں تو خُود کفیل ہو۔ مالکِ زمین اپنا رقبہ خود کاشت کرے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تواپنا 1سے 4 ایکڑ تک رقبہ، ایک سال یا زائد مدت کے لیے کاشت کے لیے دے دے۔ اس طرح بے روزگاری کم ہوگی اور کاشت کاروں کی، ظالم ٹھیکے داروں سے جان بھی چُھوٹ جائے گی۔ (عبدالستار گکھڑ، ڈیفینس روڈ، پنجاب سوسائٹی، لاہورکینٹ)

ج: باقاعدہ کوئی نیا صفحہ شروع کرنا تو بہت مشکل ہے، البتہ اگر اِس موضوع پر کوئی طبع آزمائی کرنا چاہے، تو ہمارے صفحات دل وجان سے حاضر ہیں۔ ہم تو یوں بھی ہراچھی تحریر کاخُوش دلی سے خیرمقدم کرتے ہیں، تو اگر اسی بہانے مُلک وقوم کا کچھ بھلا ہوجائے، تو اور کیا چاہیے۔

       فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

کیسی ہیں آپ اور آپ کی پوری ٹیم؟ پتا نہیں، منیرنیازی والی خصلت مجھ میں کہاں سے آگئی ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں… تو یہ چِٹھی لکھتے لکھتے یہ وقت آن پہنچا ہے۔ خیر، اور کوئی کراچی پہ مہربان ہو، نہ ہو، بادل ضرورمہربان ہوگئے ہیں۔ یہ اور بات کہ اس شہرِ ناپُرساں کو بادلوں کی مہربانی بھی کچھ خاص نہیں بھاتی۔ اتوارکی صبح سات بجے آنکھ کھُلی، ہلکی سی ٹھنڈک کے احساس کے ساتھ ذہن ذرا سا بیدارہوا، تو پتا چلا کہ یہاں تو بادل برسنے کو بےتاب ہیں، لیکن بار بار یہ خیال بھی آتا رہا کہ کہیں آج ہاکرچُھٹی ہی نہ کرلے، خیر، نو بجے مکمل بےدار ہونے کے بعد دیکھا، تو اخبار سرہانے رکھا تھا۔ 

یقین کریں، تب جاکےصحیح معنوں میں موسم کی دل کشی محسوس ہوئی۔ وہ سعود عثمانی کا شعر ہےناں کہ ؎ حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو…کتنی دُور سے آئی ہے یہ ریت سے ہاتھ ملانے کو۔ توبس، گہرے سُرمئی بادلوں سے برستی موسلادھار بارش، ہر طرف چھائی خاموشی میں پڑوس کے انکل کا اپنے زمانے کےگیت لگا کرحسین رُت انجوائے کرنا، ’’سنڈے میگزین‘‘ کی بھی اہمیت دوچند کرگیا۔ 

ماں جی کے ہاتھ کے لذیذ آملیٹ، پراٹھے اور چائےکے بَھرے ہوئے مگ سے بھرپور انصاف کے ساتھ ساتھ اخباراورجریدے کا مطالعہ شروع کیا، تو یک بہ یک ذہن میں تبصرے کا مواد بھی ترتیب پانے لگا۔ آپ کی ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے ضمن میں کی جانے والی کاوشیں اللہ پاک قبول فرمائے کہ کس قدرآسان فہم اور دل چسپ انداز میں تاریخی واقعات اور قصّے گوش گزار کیے جا رہے ہیں۔ یوں تو یہودیوں کی اسلام دشمنی کبھی بھی کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں رہی، لیکن اب پچھلے چھے ماہ سے جاری اسرائیلی بربریت نے تو اِس حقیقت پر گویا ایک بار پھر مُہر ثبت کر دی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پھیلنے والی بیماریوں  سے متعلق پڑھا۔ 

دنیا بھر کا روز بہ روز بڑھتا درجۂ حرارت سخت الارمنگ ہے۔ کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے، بندہ زمین سے کُوچ ہی کر جائے۔ یوں بھی ایک عام آدمی سوائے صبر کے اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ مضمون پڑھ کےیہی سوچاکہ دوتین پودے اور لگا لیےجائیں۔ پروفیسر نوشابہ نے ڈاکٹر جمیل جالبی کی یادداشتیں شیئر کیں، واقعی انسان کا کام اورکام سے اُس کی لگن اُسے امرکردیتی ہے۔ اللہ پاک ہر پاکستانی کو ایساہی محنتی ومشقّتی بنادے۔ ماڈل کے ملبوسات کچھ خاص نہیں لگے۔ ویسے بھی ہم توآپ کا انتخاب اور تحریر دیکھنے کوچند ثانیے ٹھہر جاتےہیں۔ فلک بوس عمارات پرلکھا گیا مضمون خاصا دل چسپ تھا۔

زین الملوک ایک عظیم استاد کی خصوصیات گِنوا رہے تھے، تو ہم نے گرما گرم چائے کا ایک اورمگ اُٹھا کے بڑی توجّہ سے تحریر ملاحظہ کی۔ دراصل ہم خُود بھی تدریس کا گیارہ سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ ’’عظیم استاد‘‘ کی مسند تو محسنِ انسانیت، نبی کریم حضرت محمّدﷺ ہی کو جچتی ہے کہ کس طرح نبی آخرالزّماں، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ نے جہل کی تاریکی میں ڈوبے عرب کو تعلیم وتربیت سے بہرہ مند کیا۔ ویسے اپنے تدریسی تجربےکی بنیاد پر میرے ذہن میں بھی بچّوں کے استاد کے حوالے سے کئی اہم نکات آئے، جو ان شاءاللہ جلد آپ سے شیئر کروں گی۔ 

چوں کہ مَیں نے کسی کےماتحت کام نہیں کیا، نہ ہی ٹیچنگ میری ضرورت یا مجبوری تھی، محض شوق وجنوں تھا، اورہے، اِس لیے بچّوں کو ہر روز کچھ نہ کچھ نیا ہی سکھایا بلکہ خُود بھی سیکھا، ویسے مضمون اچھاتھا۔ ’’اللہ باقی مِنْ کُلِّ فَانی‘‘ روبینہ یوسف کاافسانہ زبردست سبق لیے ہوئے تھا، میرے خیال میں تو اُن تمام جعلی پیروں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے، جو اپنی دُکانیں سجائے معصوم عوام اور خصوصاً خواتین کو اپنا شکار بنارہے ہیں۔ اصل وجہ وہی تعلیم وشعور کی کمی ہی ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات بہت دل چسپ تھے۔ ’’پیاروں کے نام پیغامات‘‘ میں کسی نے مجھے کوئی پیغام نہیں بھیجا۔ 

شاید اس لیے کہ میرے سب پیاروں کے پاس میرا نمبر موجود ہے(ہا ہا ہا…)اور یوں بھی کسی کو لکھنے لکھانےکابھی کوئی شوق نہیں۔ اور دوسروں کے پیغامات پڑھ کرہم بھلا کیا کرتے، سو صفحہ پلٹ ڈالا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں چاچا چھکن نے بھی آپ کا ’’ٹی وی اسکرین‘‘ پہ لکھا مضمون پڑھ کرآپ کےسارا سال ٹی وی کے آگے بیٹھے رہنے کا اندازہ لگایا، جب کہ اِس سے پہلے بھی کوئی یہی کمنٹس دے چُکا ہے، شاید معصوم قارئین کو یہ نہیں پتاکہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، چلتے پھرتے لوگ منٹوں میں پورے ڈراموں کا تجزیہ کرجاتے ہیں۔ 

جیسا کہ کالج لائف میں، جب میرے والد ڈرامے نہیں دیکھنے دیتے تھے، مجھے پھر بھی معلوم ہوتا تھا کہ اِس وقت کون سا ڈراما اورہیرو، ہیروئن سُپرہٹ جارہے ہیں۔ ارے ہاں، عرصہ ہوا، ہماری اِس بزم میں بغیر نقاط کا خط لکھنے والے صاحب تشریف نہیں لائے۔ اُن کا اپنا ایک منفرد ہی اندازتھا، تو کمی تو محسوس ہوتی رہے گی، البتہ باقی سب کے تبصرے اور آپ کے جوابات ہمیشہ کی طرح زبردست، سُپرہٹ ہی تھے۔ بہرحال، یوں چائے کی تین عدد پیالیوں کے ساتھ ہماری یہ نشست تمام ہوئی۔ (عُروج عبّاس، کراچی)

ج:اب ایسا بھی نہیں ہےکہ محض چلتے پِھرتے تبصرہ نگاروں کے طفیل ڈیڑھ صفحے کا مضمون لکھ لیا جائے، اور وہ بھی سوفی صد مستند۔ سارا سال تو ٹی وی کے سامنے کوئی احمق یا بالکل فارغ ہی بیٹھ سکتا ہے، لیکن بہرکیف، اِس ایک ری ویو کے پیچھے ہمارے کئی جگ راتوں کے محنتِ شاقّہ ضرور تھی۔

گوشہ برقی خطوط

*  24 مارچ کےسن ڈے میگزین کے صفحہ نمبر11 پر تپِ دق سے متعلق مضمون معلومات افزا تھا، بس ایک غلطی دیکھی، تو نشان دہی کرنا ضروری سمجھا کہ مائیکوبیکٹیریم ٹیوبر کلوسس کی دریافت 1982ء میں نہیں بلکہ 1882ء میں ہوئی تھی۔ کیوں کہ ایک سوسال بعد تو اس تاریخ پر ہوئے اجلاس میں اِسی تاریخ کو ’’ورلڈ ٹی بی ڈے‘‘ قرار دیا گیا تھا۔

اگر مناسب سمجھیں، تو اگلے شمارے میں قارئین کےلیے درستی فرمادیں۔ ابلاغِ عامہ سے وابستگی کے سبب، مَیں اس بات کی اہمیت سے واقف ہوں کہ قارئین تک درست معلومات پہنچانا ادارے کی ساکھ کےلیے بھی ضروری ہے اور ہمارا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔ (صبیح الدین شعیبی،اسلام آباد)

ج: اصلاح و رہنمائی کا بے حد شکریہ۔ تمام ای میلزچوں کہ اپنی باری ہی پر شایع کی جاتی ہیں، اس لیےآپ کی ہدایت کے مطابق بروقت تصحیح ممکن نہ ہوپائی، لیکن بہرحال، ہمیں اُمید ہے کہ جریدے کے مستقل قارئین نے ضرور نوٹ کر لیا ہوگا۔ ہم ایک بار پھر آپ کے شُکر گزار ہیں اور آئندہ کے لیے درخواست گزار بھی کہ جب بھی ایسی کوئی غلطی دیکھیں، رہنمائی کو ہمیشہ قومی و اخلاقی فریضے کی طرح انجام دیں۔

* ڈاکٹر عزیزہ انجم کے مضمون ’’فلسطین میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم‘‘ کی غالباً پروف ریڈنگ نہیں کی گئی۔ گزارش ہے، جو لوگ پہلی بارکسی موضوع کا مطالعہ کر رہے ہوں، اُن کو ہمیشہ درست معلومات ہی سے ہم کنار کریں۔ (خضر حیات)

ج:اللہ ہی جانے، آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔ اگر تو آپ نے پروف کی کوئی غلطی نوٹ کی، تو نشان دہی میں کیا قباحت تھی، اور اگر حالات و واقعات، حقائق میں کوئی سقم تھا، تو بھی بتا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ نیز، کسی موضوع پر کوئی تحریر پہلی بارپڑھی جائے یا آخری بار، اُسے بہرکیف درست معلومات سے تو ہم کنار ہونا ہی چاہیے۔ اِلّا یہ کہ آپ پڑھ ہی فِکشن رہے ہوں، حقائق پر مبنی کوئی نگارش نہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk