• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ایردوان گزشتہ چند دنوں سے قومی اسمبلی اور آق پارٹی کے قزل جا حمام کے سالانہ کنونشن سے خطاب کرنے کے دوران عالمِ اسلام اور خاص طور پر اسلامی رہنمائوں کی جانب سے غزہ اور رفح میں اسرائیل کے فلسطینیوں کے قتلِ عام اور نسل کشی پر خاموشی اختیار کئے جانے پر اپنے شدید ردِ عمل ظاہر کررہےہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ غزہ اور رفح کی تباہ کاری کے بعد اب عالمِ اسلام کس چیز کا منتظر ہے ؟ عالمِ اسلام کب تک اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق غصب ہوتے دیکھتا رہیگا؟ رفح اور غزہ کی تباہ کاری پر ہم اللہ کو کیا جواب دینگے؟ دنیا میںکوئی بھی ریاست اس وقت تک محفوظ نہیں رہ سکتی جب تک اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہیں کرتا۔ اسرائیل نے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے محاورے پر عمل درآمد کرتے ہوئے مغربی ممالک کے علاوہ عالمِ اسلام اور ترکیہ کو بھی اس لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کرتے ہوئے دنیا میں اپنی من مانی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن خدا کی قسم ترکیہ اکیلا بھی رہ گیا تو وہ کسی بھی صورت فلسطین کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ترکیہ اور عالمِ اسلام کے رہنمائوں کے درمیان یہی فرق ہے جو کسی بھی صورت اسرائیل کو ہضم نہیں ہوپاتا۔ انہوں نے کہا کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں اسرائیل کو جب بھی موقع ملا وہ ترکیہ کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرے گا۔ اسرائیل کی یہ بربریت صرف غزہ تک محدودنہیں رہے گی ۔ اسےخون پینے کی عادت پڑ گئی ہے اور جسے خون پینے کی ایک بار لت پڑ جائے وہ ہمیشہ نئے شکار کی تلاش میں رہتا ہے۔ اسلئے برملا کہہ رہا ہوں اسرائیل پوری انسانیت اور عالمی امن کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اسرائیل اور اس کے حامی سمجھتے ہیںکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد اس نسل کشی کو فراموش کردیا جائے گا ، ایسا ممکن نہیں۔ صدر ایردوان نے گزشتہ ہفتے اپنے تمام خطابات میں امریکہ اور متعدد یورپی ممالک کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتلِ عام میں امریکہ اور متعدد یورپی ممالک کے بھی ہاتھ رنگے ہوئے ہیں ۔ انہوں نےکہا کہ اسپین، آئرلینڈ اور ناروے کی جانب سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے اس مایوس کن صورتِ حال کے باوجود کچھ امیدیں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔اب تک اقوام متحدہ میں 147ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، اقوام متحدہ کے 193ممبران میں سے 3/4 سےزائد ممالک فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر قبول کرچکے ہیں۔ اسلئے میں ہمیشہ کہتا چلا آیا ہوں’’دنیا پانچ سے عظیم تر ہے‘‘۔

ایردوان نے کہاکہ مہذب مغربی ممالک کے ماہرین تعلیم، پروفیسرز اور لیکچررز صہیونی لابی کے تمام تر دباؤ اور ظلم و جبر کے باوجودغزہ اور رفح میں نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیںحالانکہ یہ سب اس مقصدکیلئے بھاری قیمت بھی چکا رہے ہیں ، ان کی آزادی اظہار رائےکو سلب کر لیا گیا ہے۔مہذب مغربی دنیا کے رہنما مظاہروں اور اجتماعات پر پابندیاں عائد کررہے ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود امریکہ اور یورپ کے’’اصل مہذب عوام‘‘ غزہ کی آواز بن رہے ہیں اور ان کی جانب سے برپا کردہ انقلاب صہیونیت سے پاک دنیاکو جنم دے گا۔ صدر ایردوان نےامریکہ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ امریکہ ہی کی پشت پناہی اور ہر قسم کے اسلحہ و بارود کی فراہمی کے نتیجے میں اسرائیل اس جدید دنیامیں Vampire اسٹیٹ کا روپ اختیار کرچکا ہے۔ اس ویمپائر اسٹیٹ کی بربریت کو براہ راست دیکھا جا رہا ہے۔اپنے آپ کو ہمیشہ مہذب دنیا کا چیمپئن کہلوانے والے یورپی ممالک کے رہنمائوں کی غزہ اور رفح کی نسل کشی اور قتلِ عام پر خاموشی بڑی معنی خیز ہے ۔ ان تمام رہنمائوں کے سامنے ہسپتالوں، اسکولوں، مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور یہ رہنما خاموش رہے۔ غزہ میں صحافیوں، ڈاکٹروں، امدادی کارکنوں کو ہلاک کیا گیا اور یہ رہنما ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ غزہ کی سڑکوں پر شہداء کی لاشیں کتے کھاتے رہے اور اسرائیلی دہشت گرد مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر خواتین کی بےحرمتی کرتےرہے، ہسپتال کےلان میں اجتماعی قبریں برآمد ہوتی رہیں لیکن یہ رہنما خوابِ خرگوش ہی کے مزے لیتے رہے ۔ صدر ایردوان نے عالمِ اسلام کے رہنمائوں کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسلامی دنیا اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق، قوانین، جانوں اور عزتوں کا تحفظ کب کرے گی؟ انہوں نے کہا کہ مٹھی بھر دہشت گرد اسلامی جغرافیہ کے مرکز اور قلب میں مسلمانوں کی نسل کشی کا ارتکاب کررہے ہیں اور عالمِ اسلام خاموش ہے ۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ صدر ایردوان نے کہا کہ ترک ہونے کے ناتےمیں دنیا بھر کے ہر اس شخص کو یکجہتی کے پیغامات بھیج رہا ہوں جس کے دل میں فلسطین اور غزہ بستا ہے۔ہم نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف دائر نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کا فیصلہ کیا۔ ہم نے تمام دستاویزات اور معلومات یکجا کرتے ہوئے عدلیہ کو پیش کردی ہیں لیکن اسرائیلی انتظامیہ،مغربی ممالک اور صہیونی لابی عدالت اور ججوں کو کھلم کھلا دھمکیاں دے کر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ عالمی عدالت کو کسی دبائو میں نہیں آنا چاہئے۔

تازہ ترین