اہلِ ایمان کے لیے اس دُنیا میں سب سے قیمتی شے ایمان ہے۔ ایمان کی نعمت سے اللہ تعالیٰ خوش نصیبوں کو نوازتا ہے اور اس نعمت کے قدردان بھی قابلِ رشک ہوا کرتے ہیں۔ آج سے صدیوں پہلے اسی زمین پر اللہ کے ایک بندے نے اسی ایمان کی خاطر بے شمار آزمائشوں اور صعوبتوں کا سامنا کیا۔
حالاں کہ حضرت ابراہیمؑ نے بُت گروں کے ایک سردار کے گھر جنم لیا تھا، لیکن آپؑ نے سورج، چاند اور ستاروں کے طلوع و زوال سے حق کو پہچانا کہ زوال کا شکار ہونے والے معبود نہیں ہوسکتے۔ لڑکپن ہی میں آپؑ نے کائنات کے نظام پر غور و فکر سے مالکِ کائنات تک پہنچنے کا راستہ تلاش کیا ،جو ایمان کا راستہ تھا۔ قرآن، حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی پر روشنی ڈالتا ہے اور ہمیں اسوۂ ابراہیمی ؑپر عمل کرنے کا حُکم دیتا ہے۔
آپؑ نے کلمۂ توحید کی خاطراپنا وطن چھوڑا، والدین کی جُدائی برداشت کی، یہاں تک کہ آگ میں بھی ڈالے گئے اوراس موقعے پر اللہ ربّ العزّت نے آگ کو حُکم دیا کہ’’ اے آگ! ابراہیمؑ کے لیے ٹھنڈی ہوجا ۔‘‘آگ نہ صرف ٹھنڈی ہو گئی بلکہ گُل و گُل زار بن گئی اور اہلِ ایمان کو رہتی دُنیا تک کے لیے یہ سبق دے گئی کہ حضرت ابراہیمؑ جیسا پُختہ اور غیر متزلزل ایمان ہو، تو دہکتے انگارے بھی گلستاں بن جاتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے پوری زندگی توحید کی دعوت دی اور دُنیا میں توحید کے اوّلین مرکز، خانۂ کعبہ کی تعمیر کی۔ کعبۃ اللہ کی تعمیر میں اُن کے فرزند، حضرت اسماعیل ؑ بھی اُن کے ساتھ شریک تھے۔ دونوں باپ بیٹے نے پتّھر اُٹھا اُٹھا کر کعبے کی دیواریں بلند کیں۔
ماہِ ذی الحج دو بڑی عبادات کا مہینہ ہے۔ ایک حج اور دوسری قربانی اور یہ دونوں عظیم عبادات حضرت ابراہیم ؑکے پورے گھرانے کی دِین سے محبّت اور دِین کے لیے دی گئی قربانیوں سے منسوب ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے حُکم دیا تھا کہ وہ مکۃ المکرّمہ کے بیابان خطّے میں اذان دیں اور آیندہ آنے والی تمام ارواح کو حج کے لیے بلائیں۔ اسی طرح آپؑ کی زوجۂ محترمہ، سیّدہ بی بی حاجرہ اپنے نومولود بیٹے کی خاطر صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے مابین دوڑی تھیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے مامتا کی اس بےتابی و بے قراری کو حج کارُکن،’’ سعی‘‘بنا دیا۔
پھر حضرت ابراہیمؑ نے اپنی عزیز ترین شے قربان کرنے کے حُکمِ ربّانی کی تعمیل میں اپنے بیٹے، حضرت اسمٰعیلؑ کی گردن پر چُھری رکھی ،تو عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی جگہ قربانی کے لیے ایک مینڈھا بھیج دیا اور یوں آپ ؑ کی قربانی بھی قبول ہو گئی اور بیٹے کی جان بھی بچ گئی۔ اس واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے قربانی کو اہلِ ایمان کے لیے لازم کردیا ۔یوں ہر صاحبِ استطاعت مرد و عورت پر حج بھی فرض ہے اور قربانی بھی ۔
واضح رہے کہ قربانی کا مقصود صرف جانور ذبح کرنا نہیں، بلکہ یہ ایمان کی تجدیدو افزودگی کا ذریعہ ہے اور قربانی کا جانور شعائر اللہ میں سے ہے۔ اللہ کے آخری نبی، حضرت محمدﷺنے فرمایا کہ’’ جس شخص کے پاس استطاعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے ،تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے ۔‘‘ اللہ کے نبیؐ کا فرمان ہے کہ ’’یوم النّحر میں ابنِ آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں۔‘‘
قربانی کے بے شمار دنیاوی فوائد اپنی جگہ کہ سال میں ایک بار بہت سے ایسے لوگوں تک گوشت پہنچ جاتا ہے کہ جو تنگ دستی کے باعث سال بھر اس سے محروم رہتے ہیں اور خوش حال لوگوں کو کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ معاشرے کے حقیقی ضرورت مندوں کو اس میں سے حصّہ دیں۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی مسلمان مَرد و خواتین کو قربانی اور حج سے منسوب تاریخ بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ماں، باپ اور بیٹے کی مثلّث ربّ کی اطاعت اور فرماں برداری سے بنی تھی۔
سب کے سر رضائے الٰہی کے سامنے جُھکے تھے ہوئے تھے اور سب کی زندگی کا محورو مرکز ربّ کی محبت تھی۔ سو، ہمیں بھی حج اور قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنے ایمان کی تجدید کا اہتمام کرنا چاہیے اور اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہماری زندگی کے کون سے پہلو کم زور ہیں اور اُن میں بہتری کی گنجایش ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالی ہماری نماز، ہماری قربانی اور ہمارے تمام مراسمِ عبودیت اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہم اپنے ربّ سے بہترین ایمان کی حالت میں ملاقات کریں۔ (آمین)