عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے تعاون سے بننے والی مسلم لیگ ن کی حکومت آئندہ چند روزمیں اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ یہ بجٹ اس لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ ایک طرف حکومت کو مالیاتی وسائل محدود ہونے کی وجہ سے شدید معاشی دبائو کا سامنا ہے اور دوسری طرف الیکشن کے بعد سے جاری دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے ملک کے مستقبل پر سیاسی عدم استحکام کے بادل گہرے ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں نگران حکومت کے دور میں گندم کی غیر ضروری درآمد سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے زرعی شعبہ بھی اضطراب کا شکار ہے اور کسان گندم کی خریداری نہ کرنے پر حکومت کے خلاف غم وغصے سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایسے میں تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کا تمام تر انحصار عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے تعاون پر منحصر ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں پر ہمارے مالیاتی انحصار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے مجموعی بیرونی قرضوں کا حجم 64 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر 9 ارب ڈالر تک محدود ہیں جو کہ ایک ماہ کی درآمدات کے لئے درکار زرمبادلہ سے بھی کم ہیں۔ اسی طرح بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ہمیں سالانہ کم از کم 22 ارب ڈالر درکار ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال کو کسی طرح بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان حالات میں شہریوں کو سستی بجلی، گیس، خوراک، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی ممکن نہیں ہو پا رہی کیونکہ ہمارے قومی محاصل کا حجم ہماری ضروریات کیلئے درکار وسائل کی نسبت انتہائی کم ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہر سال ہمیں اربوں ڈالر پہلے سے لئے گئے بیرونی قرضوں کی اقساط اور انکے سود کی ادائیگی کیلئے درکار ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ماہ پاکستان نے قلیل مدتی سطح پر تین ارب ڈالر قرضے کا آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کامیابی سے مکمل کر لیا ہے لیکن اس کے باوجود اب بھی آئی ایم ایف کی طرف سے چھ تا آٹھ ارب ڈالر کے نئے پیکیج کی منظوری کو معاشی بحالی کیلئے ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف مشن نے پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد جاری کی گئی رپورٹ میں سیاسی بے یقینی کے باعث معیشت کو لاحق خطرات سے خبردار کیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت کو مراعات یافتہ طبقات کو دی جانے والی مراعات ختم کرنے اور غیر ضروری اخراجات پر پابندی لگانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے یہ مطالبات اس لحاظ سے بالکل درست ہیں کہ پاکستان کو کئی سال سے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے بلند افراط زر اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے باعث پیدا ہونے والی مہنگائی نے عام آدمی کیلئے معاشی مسائل کو بہت زیادہ بڑھاوا دیا ہے اور متوسط طبقے کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ اسی طرح سیاسی عدم استحکام بھی پاکستان میں ایک مستقل مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہر شعبہ زندگی متاثر ہو رہا ہے ۔ یہ صرف پاکستان کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دنیا میں ہر جگہ سیاسی اور معاشی استحکام ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اسی لئے یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ پاکستان کا مالیاتی عدم استحکام اس کے سیاسی عدم استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے حکومت اور گورننس کے معیار میں بھی بتدریج تنزلی آئی ہے جس کی وجہ سے مقامی سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہے جبکہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی آئی ہے۔ سیاسی غیر یقینی کی یہ صورتحال معیشت پر براہ راست اثر انداز ہو رہی ہے جبکہ روپے کی گرتی ہوئی قدر نے معیشت کے استحکام اور حکومت کی مالیاتی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت پر بھی سوالات اٹھادیئے ہیں۔
اگرچہ موجودہ حکومت کی سیاسی بنیاد کمزور ہے اور اس کیلئے بہت زیادہ انقلابی اقدامات کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم ہمارے پاس مزید تاخیر کی گنجائش بھی موجود نہیں کیونکہ اس سے یہ بحران مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی کا اندیشہ ہے۔ معاشی مسائل کے حل کیلئے حکومت اور اس کے بین الاقوامی اتحادیوں کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں قرضوں سے نجات، معاشی اصلاحات، بامقصد سیاسی مکالمے کا آغاز، بین الاقوامی تعاون میں اضافہ، برآمدات کو فروغ دینا، ہنرمند افرادی قوت کی تیاری میں سرمایہ کاری اور پائیدار اقتصادی حکمت عملی کی تشکیل ضروری ہے۔ اس سلسلے میں قرض دہندگان سے قرض کی ادائیگی کے دباؤ کو کم کرنے کیلئے کہا جا سکتا ہے تاکہ معاشی ترقی کو تیز کرنے کیلئے وسائل دستیاب ہو سکیں۔ معاشی مسائل کی بنیادی وجوہات کو دور کرنے اور مہنگائی، بجٹ خسارہ و قومی قرضوں میں کمی کیلئےحکومت کو ذمہ دارانہ مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آمدنی بڑھانے کیلئے ٹیکس وصولی اور اخراجات کے انتظام کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں ترقی کے سفر کو تیز کرنے کیلئے چین، سعودی عرب، ترکی، ایران اور امریکہ جیسے دوست ممالک کے تعاون سے برآمدات میں اضافے کیلئے کوششوں کو عملی شکل دینے کیلئے نئی ٹیکنالوجیز متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو موثر نفاذ اور پائیدار ترقی کیلئے واضح اہداف، ٹائم لائنز اور نگرانی کے طریقہ کار کے ساتھ ایک جامع طویل المدتی اقتصادی ترقی کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے نئے مالی سال کا بجٹ حکومت کے مستقبل کے حوالے سے ایک فیصلہ کن لمحہ ثابت ہو سکتا ہے۔