14جون کا دن دنیا بھر میں رضا کارانہ طور پر خون عطیہ کرنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے منایا جارہا ہے۔ اس سال
’’20 Years of Celebrating Giving: Thank you Blood Donors!‘‘ کے موضوع کے ساتھ خون کے عطیات کا عالمی دن منایا جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے ممالک میں بھی زیادہ سے زیادہ 19فیصد لوگ خون کے عطیات اپنی مرضی یا بوقت ضرورت رضاکارانہ دیتے ہیں لیکن یہ تعدادپسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں 19فیصد سے کہیں کم ہے،جبکہ پاکستان میں 3فیصد سے بھی کم ہے۔ لہٰذا خون کے عطیات کا عالمی دن منانے کا مقصد خون عطیہ کرنے کی اِس شرح کو بڑھانا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اِس عظیم مقصد کیلئے تیار ہوں ، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 25 سے 30لاکھ تک بلڈ بیگ کی ضرورت پیش آتی ہے جو مختلف حادثات، سرجری یا پھر خون کی جان لیوا بیماریوں کا شکار افراد کے کام آتی ہے لیکن عوام میں خون عطیہ کرنے سے متعلق شعور نہ ہونے کی وجہ سے صرف 3فیصد لوگ خون کا عطیہ کرتے ہیں جن میں بہ امر مجبوری خون عطیہ کرنیوالے بھی شامل ہوتے ہیں، حالانکہ تین مہینے کے بعد کوئی بھی تندرست مرد و عورت خون عطیہ کرسکتا ہے اور اِس عمل سے اْس کی صحت پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں کیونکہ انسان کے اندر موجودخون کے سرخ خلیے کی عمر صرف 120دن ہوتی ہے جس کے بعد پرانے خون کی جگہ نیا خون قدرتی طور پر بن جاتا ہے۔
سندس فائونڈیشن ملک میں خون کی بیماریوں کا شکار بچوں کی زندگی بچانے کیلئے دن رات ہمہ وقت کوشاں ہے، تھیلی سیمیا اور ہیموفیلیا سمیت کئی بیماریاں ایسی ہیں جس میں مریض بچے کو انتقال ِخون کر ناہے اور جب تک اْس کو خون کا عطیہ ملتا رہیگا مریض بچے کی سانسیں چلتی رہیں گی، یہی وجہ ہے کہ سندس فائونڈیشن سال کے 365دن عوام میں یہ شعور بیدار کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خون عطیہ کریں کیونکہ اگر خون کی بیماری کا شکار کوئی بچہ محض اِسلئے مرجائے کہ پچیس کروڑ پاکستانی عوام میں سے کوئی ایک دو اِس کو خون کا عطیہ دینے کیلئے دستیاب نہیں تھے تو یہ بلاشبہ انسانیت پر بڑا سوال ہوگا۔ اس ضمن میں کئی وجوہات بالخصوص خون عطیہ کرنے سے متعلق عمومی اور غلط تاثر بڑی رکاوٹ ہے لہٰذا اسی رکاوٹ کو دورکرنے کیلئے عالمی سطح پر 14 جون کو خون عطیہ کرنے کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اگرچہ سندس فائونڈیشن خون عطیہ کرنے والے رضا کاروں کے تعاون سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے لیکن پھر بھی عوام میں یہ شعور بیدارکرنے کی ضرورت ہے کہ وہ خون عطیہ کریں کیونکہ کل کوکسی کو بھی خون کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ خون عطیہ کرنے سے گریزکرنیوالے توقع رکھتے ہیںکہ بوقت حادثہ یا سرجری انہیں عطیہ کیاگیا خون ضرور ملے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ وہ خود خون عطیہ کیوں نہیں کرتے ، یہی وجہ ہے کہ خون کی مسلسل فراہمی میں رکاوٹوں نے خون کے عطیات کو خطرے سے بھی دوچار کر دیا ہے اور رہی سہی کسرآگاہی کے فقدان نے پوری کر دی ہے پاکستان بھر میں رضاکارانہ خون دینے والوں کی بہت کمی ہے لیکن ایسا ہونا انتہائی تشویش ناک ہے کیونکہ تھیلی سیمیا، ہیموفیلیا اور دوسرے ایسے امراض جس میں مریضوں کی زندگی کا سارا دار ومدار خون کی بروقت فراہمی پر ہوتا ہے، کو بیحد مشکلات کا سامنا ہے۔ ان مشکل حالات میں سندس فاؤنڈیشن اپنے مریضوں کو صاف اور صحت مند خون کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ سب مختلف اداروں بالخصوص تعلیمی و صنعتی اداروں اور پاکستان ائیر فورس ،پنجاب پولیس ، موٹر وے پولیس ، اسلام آباد پولیس اور دعوت اسلامی جیسے اداروں کی بدولت ہے۔لیکن اِس میں عام شہریوں کو بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہیے،اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام نامور شخصیات مثلاً قومی کھلاڑی ، اداکار سیاستدان اور ڈاکٹرز شخصیات کو چاہیے کہ وہ خون کے عطیات دیں جس کی بدولت ان کے چاہنے والے بھی اس امر کو ضروری سمجھیں اور اپنے خون کے عطیات دیں۔ لیکن اس کیلئے یہ شعور عام کرنے کی ضرورت ہے کہ صحت مند انسان خون دیکر بیمار نہیں ہوتا بلکہ نہ صرف اِسکے خون کی پہلے اسکریننگ ہوتی ہے جس سے کسی بیماری کا قبل ازوقت پتا چل جاتا ہے بلکہ خون دینے کے بعد خون عطیہ کرنیوالے کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ڈونر ز کی تعدا د بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ بلڈ ڈونیشن کے رجحان میں اضافہ کرنے کیلئے پرنٹ ،الیکٹر ونک اور سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلائی جائے اور سیمینار کا انعقاد کیا جائے تاکہ عوام میں بلڈڈونیشن کے شعور کا اُجاگر کیا جا سکے ۔ میری رائے کے مطابق بلڈ ڈونیشن کو نصاب کا حصہ بنایا جائے اور بلڈڈونرز کی وفاقی و صوبائی سطح پر پذیرائی کی جائے ۔لہٰذا خون عطیہ کرنے کے عالمی دن پر ہمیں عزم کرنا چاہئے کہ ہم خود نہ صرف اْن لوگوں کیلئے خون عطیہ کریں گے جن کی زندگی کا دارو مدار ہی عطیہ کیے گئے خون پر ہے بلکہ لوگوں میں بھی شعور پیداکریںکہ وہ خون کا عطیہ دیں۔