مدّاحینِ غالبؔ، مخالفینِ غالبؔ، مقلّدینِ غالبؔ، شارحینِ غالبؔ، معاصرینِ غالبؔ اور مصنّفینِ غالبؔ اپنے اپنے انداز سے مرزا نوشہ کی زندگی میں بھی اور 1869 میں اُن کے انتقال کے بعد بھی برابر اُن کے تذکرے میں مصروف رہے ۔ مرزا، شاید واحد شاعر ہیں کہ ہر دَور میں اُن پر کچھ نہ کچھ لکھا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔بھارت اور پاکستان، دونوں جگہ اس بے مثل شاعر کی صد رنگ زندگی موضوعِ بحث رہی ہے۔
مدّاحین میں اگر ایک طرف مشرقی و مغربی ادب، بالخصوص عربی و جرمن شاعری پر گہری نظر رکھنے والی ڈاکٹر عبدالرحمان بجنوری جیسی بلند قامت شخصیت موجود تھی، جو’’ محاسنِ کلامِ غالبؔ‘‘ لکھ کر ادب میں خود امر ہوگئی کہ کتاب کا پہلا جملہ ہی اُن کی شناخت بن گیا، جس میں کہا گیا تھا۔’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔ مقدّس وید اور دیوانِ غالبؔ۔‘‘تو دوسری طرف، مخالفین میں مرزا یاس یگانہؔ چنگیزی کی شخصیت بھی کچھ کم نہ تھی، جن کا رسالہ’’ غالبؔ شکن‘‘ غالباً کلامِ غالبؔ پر پہلی بھرپور چوٹ تھا۔
معاصرینِ غالبؔ میں اگر مومنؔ و ذوقؔ جیسے قادر الکلام شاعر تھے، تو انیسؔ و دبیرؔ جیسے آفتاب و ماہ تابِ سُخن، سُبک ہو جانے والے ترازوئے شعر کے پلّے کو گراں کرنے میں رات دن منہمک تھے۔ شارحینِ غالبؔ میں’’ روح المطالب فی شرحِ دیوانِ غالبؔ‘‘ لکھنے والے شاداں بلگرامی جیسے باکمال موجود تھے، تو حسرتؔ، حیدر علی نظم طباطبائی اور نیازؔ سمیت دیگر صاحبِ فضل و کمال شخصیات موجود تھیں۔ غرض آفتابِ ادب کے ستارے چاند کا حلقہ کیے نظر آتے تھے۔
1969ء میں غالبؔ کے انتقال کو ایک سو برس پورے ہوئے، تو سُخن فہموں اور طرف داروں نے اُن کی یاد منانے کے لیے بھارت اور پاکستان میں بڑے پیمانے پر ادبی نشستیں، مذاکرے، مشاعرے منعقد کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔کراچی میں بھی غالبؔ کے پرستاروں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی، جن میں حیدرآباد دکن کے سنگا ریڈی، ضلع میدک میں 3جون 1916 میں پیدا ہونے والے مرزا ظفر الحسن بھی شامل تھے۔
مقامی اسکول سے مِڈل پاس کرنے کے بعد حیدرآباد کے سٹی کالج میں داخلہ لیا اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمّل کی۔1930ء کا عشرہ شروع ہوا۔ مرزا ظفر الحسن کا میٹرک کا تعلیمی سال جاری تھا کہ گاندھی جی نے حیدرآباد دکن کا دَورہ کیا اور جس شخصیت کے گھر قیام کیا، وہ شعلہ بیاں مقرّرہ اور’’طوطیٔ ہند‘‘ کہلائی جانے والی، مسز سروجنی نائیڈو تھیں۔
وہی سروجنی نائیڈو، جنہوں نے 1916ء میں’’ لکھنؤ پیکٹ‘‘ پر محمّد علی جناح کی سیاسی بصیرت کو کُھلے دل سے سراہتے ہوئے اُنہیں’’ ہندو، مسلم اتحاد کا سفیر‘‘ قرار دیا تھا۔ مرزا ظفر الحسن کے مَن میں سمائی کہ گاندھی جی کو نہ صرف یہ کہ قریب سے دیکھا جائے بلکہ اُن کے آٹو گراف بھی حاصل کیے جائیں۔
یہ سوچ کر جلدی جلدی لباس تبدیل کیا اور اپنے تئیں عُمدہ سا سُوٹ زیب تن کر کے گولڈن تھریشولڈ(سروجنی نائیڈو کی قیام گاہ) پہنچ گئے کہ جہاں گاندھی جی کے درشن کے لیے طلبہ کا جمِ غفیر موجود تھا۔تاہم، سب کے سب دیسی لباس، یعنی کُرتے پاجامے اور شیروانی میں ملبوس تھے۔
سروجنی نائیڈو کمرے سے نکل کر برآمدے میں پہنچیں اور تمام طلبہ کو نظر انداز کرتے ہوئے سیدھی مرزا ظفر الحسن تک پہنچیں اور چُبھتے لہجے میں سوال کیا۔’’ کیوں آئے ہو؟‘‘ مرزا ظفر الحسن کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ’’مسٹر گاندھی سے ملنے۔‘‘ وہ اِس بات سے قطعی لاعلم تھے کہ اُن سے تین سنگین غلطیاں سر زد ہو چُکی تھیں، جو بالترتیب یوں تھیں۔
تقریب میں سُوٹ پہن کر جانا، دیسی کپڑے کی بجائے بدیسی کپڑے کا سُوٹ پہننا اور طرزِ تخاطب میں ’’ مسٹر گاندھی کہنا‘‘۔ سروجنی نائیڈو نے بائیں ہاتھ سے ٹائی پکڑ کر زبردست جھٹکا دیتے ہوئے دایاں ہاتھ اوپر اُٹھاتے ہوئے کہا۔’’ماروں تمہیں ایک طمانچا۔آزادی کا لیڈر انگریزوں کے غلام سے نہیں ملتا۔ابھی گھر جاؤ اور کپڑے بدل کر آؤ۔آئندہ کبھی اِن کپڑوں میں میرے گھر آئے، تو یاد رکھنا ٹانگیں توڑ دوں گی۔بھاگ جاؤ۔‘‘آگے چل کر مسز سروجنی نائیڈو سے مرزا ظفر الحسن کے ایسے مراسم استوار ہوئے کہ وہ بھی سروجنی نائیڈو کو اُن کے بچّوں کی طرح ’’ ممّا‘‘ پکارنے لگے۔
اسکول کے زمانے سے اُن کے دوست بننے والوں میں مخدوم محی الدّین بھی شامل تھے، جن سے عُمر بَھر کی دوستی قائم ہوئی۔مخدوم آگے چل کر ادب میں ممتاز مقام کے حامل ہوئے۔ بنیادی تعلیم کی تکمیل کے بعد جس تعلیمی درس گاہ میں داخل ہوئے، وہ مشہورِ زمانہ’’ جامعہ عثمانیہ‘‘ تھی،جہاں سے ایم اے کی سند حاصل کی۔ وہ یہاں کی طلبہ یونین کے صدر بھی رہے۔جامعہ عثمانیہ نے اُن کی زندگی پر گہرے اثرات مرتّب کیے، خاص طور پر یہاں کے اساتذہ نے اُنھیں بے حد متاثر کیا۔
مرزا ظفر الحسن نے ابتدائی سے اعلیٰ تعلیم تک کے تمام مدارج اُردو زبان میں طے کیے۔ نوجوانی کا زمانہ امنگوں اور عزائم سے پُر ہوتا ہے، زندگی کی راہوں پر نت نئے معاملات درپیش ہوتے ہیں اور یہیں کئی دوستیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ مرزا ظفر الحسن کے دورِ نوجوانی کے دوستوں میں محمّد عُمر مہاجر اور عبدالرؤف بھی شامل تھے، جو آگے چل کر اپنے اپنے شعبوں میں نام وَر رہے۔حیدرآباد میں مرزا ظفر الحسن کی قیام گاہ ’’انفرنو‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔بہت سے کمروں، کوٹھریوں، کمپاؤنڈ، باغیچے پر مشتمل اُس گھر کے مکینوں کی تعداد، مع ملازمین تیس تھی۔
ہر وقت ایک شور شرابا، ہاؤ ہو اور چہکار رہتی۔’’ انفرنو‘‘ مخدوم محی الدّین کا دیا ہوا نام تھا اور اس کی وجہ یہ بنی کہ جامعہ عثمانیہ میں مشہور جرمن ڈراما نگار، گوئٹے کا ایک ڈراما اسٹیج کیا گیا تھا، جس کے ایک کردار کا نام میفسٹا فلس تھا۔ اُسی کی رعایت سے’’ انفرنو‘‘ وجود میں آیا۔مرزا ظفر الحسن کے حصّے میں’’ انفرنو‘‘ کا وسطی، سب سے کشادہ اور وسیع کمرا آیا۔اب اُسے اپنے مزاج اور دوستوں کی چھب ڈھب سجانے کی فکر ہوئی۔کمرے کے ایک کونے میں چھوٹا صوفہ سیٹ، فرشی نشست کے لیے دری اور دری کے اوپر قالین۔
کمرے کے ایک کونے میں ریچھ کی، تو دوسرے کونے میں ہرن کی کھال۔رونق بڑھانے کے لیے چند تصاویر اور دو ایک گُل دان۔اب دوستوں کو دعوتِ عام دی گئی کہ آؤ اور مزے سے رہو۔دوست خوشی خوشی آئے، کمرا دیکھا اور سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ مخالفانہ آواز میں سب سے بلند آواز مخدوم محی الدّین کی تھی،جن کا کہنا تھا کہ وسطی کمرے کے باعث دوستوں کی آمد و رفت سے گھر والے عام طور پر اور خواتین خاص طور پر متاثر ہوں گی۔ بے پردگی کے علاوہ شور شرابا اور غل غپاڑا اُنہیں بے سکون رکھے گا۔
لہٰذا، ضروری ہے کہ دوستوں کے لیے کمرا گھر کے کسی کونے میں مختص کیا جائے۔ اب ٹین کی چھت اور بانس کی جالیوں سے بنائی گئی دیواروں پر مشتمل کمرا تیار کیا گیا۔آدھے فرش پر بوریا، بوریے پر دَری، تین آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش رکھنے والا صوفہ، تین کرسیاں، ایک مسہری پر مشتمل کمرا دوستوں کو خُوب بھایا اور اب جو وہ آنا شروع ہوئے، تو گویا جانے کا نام ہی نہ لیں۔آنے والوں میں شاعر بھی تھے اور ادیب بھی، نقّاد بھی تھے اور ڈراما نگار بھی۔ موسیقار بھی، تو گلوکار بھی۔
صحافی بھی، تو داستان گو بھی۔ چائے، سگریٹ، کھانا، ناشتا، غرض چَین ہی چَین تھا۔ کھانے پینے کے دَوران جو مباحث ہوتے،اُنہیں ایک رجسٹر میں محفوظ کر لیا جاتا۔ مخدوم کی تجویز پر رجسٹر کا نام’’ کراماً‘‘ رکھا گیا۔موضوعات اَن گِنت تھے۔حیدرآباد کی خفیہ پولیس تک یہ اطلاع پہنچی کہ ریاست کے باغی رات دن بغاوت کے منصوبے بناتے ہیں، سو، ایک دن وہ رجسٹر وہاں سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا۔’’ انفرنو‘‘ ہر لحاظ سے زندگی سے بھرپور ایسا آستانہ تھا، جہاں پہنچ کر دوستوں کو اپنی فکروں، پریشانیوں سے پیچھا چُھڑوانا بہت آسان نظر آتا تھا۔
اُن بے تکلّف اور انوکھی صحبتوں کے ایک شریک ممتاز ترقّی پسند ادیب، سیّد سبطِ حسن نے’’ شہرِ نگاراں‘‘ میں اُن بیتے گئے لمحات کو بہت لُطف لے کر بیان کیا ہے۔’’ظفر کا گھر چھجو کا چوبارہ تھا۔ جامعہ عثمانیہ کے بے روزگار نوجوان، فاقہ مست شاعر اور پریشان حال ادیب وہاں جمع رہتے تھے اور گپ بازی کیا کرتے تھے۔مخدومؔ ولی دکنی کی غزلیں گاتے رہتے۔ شہاب، ارسطو اور افلاطون کے سیاسی نظریات بیان کرتا۔
ظفر کسی ڈرامے کا پلاٹ پڑھ کر سُناتے، البتہ رفیق الدّین، جنہیں ہم لوگ صوفی کہتے تھے، ہر وقت جذب و محویت کے عالم میں رہتے اور اگر کبھی ہوش میں آتے، تو دنیا اور دنیا والوں پر برسنے لگتے۔اور جب کچھ سمجھ میں نہ آتا، تو غسل خانے میں گُھس جاتے اور نہانے لگتے۔‘‘
مرزا ظفر الحسن نے ایم اے کی تعلیم کے بعد پیشہ ورانہ زندگی کی پہلی ملازمت 1936ء میں دکن ریڈیو میں بحیثیت معلّن(اناؤنسر) کی، جہاں سے ترقّی پا کر پہلے سپرنٹنڈنٹ اور پھر اسسٹنٹ اسٹیشن ڈائریکٹر کے عُہدے تک پہنچے۔چوں کہ کم عُمری ہی سے ادب اور ادبی معاملات سے دل چسپی رہی تھی، لہٰذا شاعری، افسانے، ناول، کہانیاں، قصّے ہر آن بھاتے۔1939 ء میں افسانوں کا مجموعہ’’ محبّت کی چھاؤں میں‘‘ شائع ہوا۔
تحسین کرنے والوں میں قاضی عبدالغفار اور نیازؔ فتح پوری جیسی شخصیات شامل تھیں۔’’ نانا میاں کی موٹریا‘‘ ماہ نامہ’’ نگار‘‘ میں شائع ہوا، تو نیازؔ فتح پوری نے ایک خط میں مرزا ظفر الحسن کو لکھا۔’’مجھے نانا میاں کی ایک اور موٹریا بھیجیے۔
آپ کا یہ افسانہ مقبول ہوا اور مجھے بھی پسند ہے۔‘‘ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک اور موٹریا بھیجی جاتی اوراُن کی جگہ کوئی اور ہوتا، تو ایسا کرتا بھی، مگر وہ مرزا ظفر الحسن تھے، اِس فرمائش کے بعد افسانہ نگاری ہی سے تائب ہو بیٹھے۔اگلی دل چسپی ڈراموں سے رہی اور ایسی رہی کہ پے در پے’’ طبیبِ حاذق‘‘،’’ہوش رُبا‘‘ اور’’ اوہ ڈاکٹر‘‘ کے عنوان سے ڈرامے تحریر بھی کیے اور اسٹیج بھی۔1940ء کے عشرے کی ابتدا میں اُنہیں نواب بہادر یار جنگ سے ملنے کا موقع ملا اور اُن کی شعلہ بیانی کو ریڈیو کے سامعین تک پہنچانے کے لیے ایک تقریر کی فرمائش کی گئی۔
اِس بات کا ہرگز امکان نہیں تھا کہ بہادر یار جنگ کوئی سیاسی تقریر کر سکیں، لہٰذا اُنہوں نے ریڈیو پر جو تقریر کی، وہ مرزا غالبؔ کے بارے میں تھی۔نشرہ گاہ، حیدرآباد دکن سے غالبؔ پر نشر ہونے والی کسی بھی شخصیت کی یہ پہلی تقریر تھی۔ 1945ء میں دکن ریڈیو سے مرزا ظفر الحسن بچّوں کے لیے ایک سلسلہ وار پروگرام نشر کیا کرتے، جس میں وہ ننھے منّے بچّوں کے ’’ماموں جان‘‘ ہوتے۔ اُن کی فرمائش پر سروجنی نائیڈو نے بھی ریڈیو سے بچّوں کے لیے ایک تقریر نشر کی۔آزادی سے قبل ریڈیو سے نشر ہونے والی سروجنی نائیڈو کی یہ پہلی تقریر تھی۔
1947ء میں برّصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان کو ملنے والے علاقوں میں ایک منظّم منصوبہ بندی کے تحت جو کٹوتی کی گئی، وہ اب تاریخ کا حصّہ ہے۔پاکستان کی تاریخ کے دوسرے چیف جسٹس، جسٹس محمّد منیر، خواجہ ناظم الدّین کی کابینہ کی1953ء میں غلام محمّد کے ہاتھوں غیر آئینی برطرفی کو’’نظریۂ ضرورت‘‘ کی بنیاد پر جائز قرار دینے کے باعث آج تک عدالتی تاریخ میں متنازع سمجھے جاتے ہیں۔ وہ تقسیمِ ہند کے موقعے پر ریڈ کلف کی سربراہی میں قائم ہونے والے اُس باؤنڈری کمیشن کے رُکن تھے، جو آزادی کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کو دیئے جانے والے علاقوں کے بٹوارے کی نگرانی کے عمل پر مامور تھی۔
جسٹس منیر کے علاوہ دیگر تین اراکان میں جسٹس تیجا سنگھ، جسٹس مہاجن اور جسٹس دین محمّد شامل تھے۔ جسٹس منیر نے اپنی کتاب’’ From Jinnah to Zia ‘‘ میں، ایسے بہت سے علاقوں کے، جو وضع کردہ ضابطوں کے تحت پاکستان کو دیئے جانے تھے،مگر نہیں دئیے گئے، ثبوت پیش کیے ہیں۔ریاست حیدر آباد دکن میں مسلمانوں کی حُکم رانی کا عرصہ بہمنی سلطنت کے قیام، یعنی 1347سے آصف جاہی عہدِ حکومت کے اختتام، یعنی 1948تک لگ بھگ چھے سو برس تک جاری رہا۔
اِتنی طویل حُکم رانی کے اثرات اسلامی تہذہب و تمدّن، ثقافت اور ادب کی مضبوط جڑوں کی صُورت میں سامنے آئے۔10ستمبر 1948ء کو ریڈیو سے گھر واپس لوٹتے ہوئے مرزا ظفر الحسن نے، جو اپنے دفتر سے قریب ہی رہتے تھے،چوکیدار سے کہا کہ کوئی خاص بات ہو، تو مجھے فوری اطلاع کر دینا۔اگلی صبح ہی چوکیدار اُن کے گھر دوڑا آیا اور کہا کہ آپ کو عزیز صاحب نے فوری دفتر پہنچنے کو کہا ہے۔
جب یہ دفتر پہنچے، تو سوگ کا عالم تھا اور ہر شخص آب دیدہ تھا۔کچھ اہلِ قلم بھی بُلائے گئے۔معلوم ہوا کہ قائدِ اعظم، محمّد علی جناح انتقال کر گئے ہیں۔اُس وقت اناؤنسمنٹ کے ذمّے دار بدر رضوان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ قائدِ اعظم کے انتقال کی خبر نشر کرنے سے قاصر تھے۔ مرزا ظفر الحسن نے کہا کہ اناؤنسمنٹ مَیں کروں گا۔ یہ کہہ کر وہ مائکرو فون کے نزدیک گئے۔ہاتھ میں پرچہ تھاما اور ابھی محض اتنا ہی کہا تھا کہ’’قائدِ اعظم اِس دارِ فانی سے‘‘ اور بے ساختہ رو پڑے۔
ستمبر1948 ء کو بھارت نے بہ زورِ طاقت حیدر آباد کی سلطنت کو حکومتِ ہند کا حصّہ بنا لیا۔ اگرچہ، ریاست کے ناظم نے اِس بات پر زور دیا تھا کہ استصوابِ رائے کے تحت ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کیا جانا چاہیے، تاہم اُن کی بات تسلیم نہ کی گئی۔
ریاست حیدرآباد پر بھارت کے غیر منصفانہ قبضے سے ایک سیاسی بھونچال کی کیفیت پیدا ہو چُکی تھی۔ریاست کی اکثریت، جو مسلمانوں پر مشتمل تھی، بدلتی صُورتِ حال سے بد دلی کا شکار تھی۔اُن ہی میں مرزا ظفر الحسن بھی شامل تھے، جو حیدرآباد دکن میں ایک بھرپور اور ہنگامہ خیز زندگی گزار چُکے تھے۔
ایسی زندگی، جس میں مشاہیر کو دیکھنے، سُننے اور اُن سے مراسم قائم رکھنے کے مواقع حاصل ہوئے۔جنوری1949ء میں وہ پاکستان چلے آئے اور ریڈیو پاکستان میں ملازمت کی۔کوئی پانچ برس تک کام کرنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ملازمت اختیار کرلی اور ڈپٹی الیکشن کمیشن کے عُہدے تک پہنچے۔ایّوب خان کے اقتدار کا زمانہ تھا۔قوم، سیاسی قیادت کو سیاست سے نااہل قرار دِلوانے کے لیے کبھی’’ ایبڈو‘‘ کا مقدمہ دیکھتی، تو کبھی کوئی اور مقدمہ۔
مرزا ظفر الحسن بھی ایسے تمام اُمور کو بہت دل چسپی سے دیکھ رہے تھے۔معاً اُنہیں خیال آیا کہ سیاسی مقدمے بازی کی شکل پر کوئی ادبی مقدمے بازی بھی ہونی چاہیے۔یوں اُنہوں نے مقدمہ’’ امراؤ جان اداؔ بنام مرزا رُسواؔ‘‘ پیش کیا،جس کی اہلِ ادب کی جانب سے بے حد ستائش کی گئی۔’’ غالبؔ کے اُڑیں گے پُرزے‘‘ بھی ادبی مقدمے کا موضوع بنا اور مہینوں تبصروں کی زَد میں رہا۔ اِسی مقدمے کی بنیاد پر فیضؔ سے مراسم ہوئے۔
جنوری 1968ء میں’’ ادارۂ یادگارِ غالبؔ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔کراچی کے مرکز میں خواجہ ناظم الدّین کے نام پر آباد کیے گئے علاقے’’ ناظم آباد‘‘ کی چورنگی پر حبیب بینک کے تعاون سے زمین لے کر دو منزلہ عمارت تعمیر کی گئی۔فیض احمد فیضؔ کو مرزا ظفر الحسن کی صلاحیتوں کا بہت اچھی طرح اندازہ تھا،لہٰذا اُن کی ایما پر مرزا ظفر الحسن نے تمام تر بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا اور یوں اُنہوں نے’’ ادارۂ یادگارِغالب‘‘ اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔
ادارے کے اغراض و مقاصد کچھ یوں تھے۔(1)غالبؔ کی شعری اور نثری تخلیقات کی اشاعت۔(2)اُن تخلیقات کو دوسری زبانوں میں منتقل کرنا۔(3) غالبؔ اور دوسری ادبی ہستیوں کی شخصیت، تخلیقات اور اُن کے عہد کے بارے میں علمی تحقیق و تفتیش کی سہولتیں فراہم کرنا۔(4) ہر سال یومِ غالبؔ منانا(5)ایک ادبی رسالہ شائع کرنا اور(6)غالبؔ شناسی کے فروغ کے لیے دیگر ادبی و علمی اداروں سے تعاون کرنا۔
جو پہلی کمیٹی بنائی گئی، اُس میں شامل اراکان کے نام اور عُہدے کچھ یوں تھے۔ فیض احمد فیضؔ(صدر)، مرزا ظفرالحسن( معتمدِ عمومی)،بیگم آمنہ مجید ملک(معتمد)، اے مہاجر(خازن) جب کہ اراکانِ عاملہ میں افتخار احمد عدنی، حمید نسیم، ممتاز حسین، مسلم ضیائی، سبطِ حسن، شان الحق حقی،شمس عارف، خواجہ معین الدّین شامل تھے۔
20نومبر1968ء کی شام کراچی کے آدم جی سائنس کالج ہال میں لگ بھگ ساڑھے پانچ سو ادیبوں، شاعروں، نقّادوں اور غالبؔ کے پرستاروں نے ’’ادارۂ یادگارِ غالب‘‘کی طرف سے فیضؔ کی صدارت میں منعقد کی گئی تقریب ’’تماشائے اہلِ کرم‘‘ میں شرکت کی۔ سُرخ اور سبز رنگوں پر مشتمل سیکڑوں کی تعداد میں تیار کروائی گئی’’ غالب پینسلز‘‘اِس تقریب کی خاص بات تھی، جن پر غالبؔ کی تصویر، پیدائش، وفات کا سال اور’’ ادارۂ یادگارِ غالب‘‘ تحریر تھا۔پینسل کی کم از کم قیمت ایک روپے تھی، جب کہ بہت سے شاعروں، ادیبوں نے پچاس اور ایک سو روپے ادا کرکے یہ پینسل خریدی۔
جاپانی نژاد اردو داں،میاموٹو نے ایک پینسل تین ہزار روپے دے کر خریدی۔ اہلِ کراچی نے پرستارانِ غالب ہونے کا بھرپور ثبوت دیتے ہوئے ڈھیروں کی تعداد میں پینسلز خریدیں۔جوش و جذبہ اِس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ جب نام وَر اداکار، ہدایت کار، قلم کار اور ڈراما نگار، کمال احمد رضوی(الّن) نے پینسل خریدی، تو لوگوں نے شور مچا کر کہا کہ ننّھے (رفیع خاور) کے لیے بھی ایک پینسل خریدی جائے، جس پر الّن نے فی البدیہہ جواب دیا کہ ابھی ننّھے کو لکھنا نہیں آتا۔یاد رہے، ’’الف نون‘‘ پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک تھا، جس کے دو کردار’’ الّن اور ننّھا‘‘ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ممتاز شاعر، سیّد محمّد جعفری نے’’ غالبؔ پینسل‘‘ کے لیے طویل نظم ،جب کہ تاریخ گوئی میں کمال درجہ مہارت رکھنے والے، حفیظؔ ہوشیار پوری نے قطعۂ تاریخ بھی تحریر کیا تھا۔
مرزا ظفر الحسن نے’’ یومِ غالبؔ‘‘ کے لیے’’ غالبؔ پینسل‘‘بنوا کر قابلِ تحسین کام کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ لکھنے پڑھنے کی طرف مائل ہوں۔ اُس زمانے میں پینسل، قلم، کتاب اور کاغذ علم و دانش کی نشانیاں سمجھی جاتی تھیں۔آج ہم جدید دَور میں سانس لے رہے ہیں۔ جدّت کو اپنانے کی دُھن میں اسلاف کی قائم کردہ روایات سے ہاتھ دھونے کا عمل ہمارے سماج میں پوری قوّت اور شدّت سے جاری ہے۔ شاید اسی کا سبب ہے کہ اب تحریر کے لیے ہاتھ میں قلم رکھنا اور مقصد کی خاطر ہاتھ قلم رکھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔
’’غالبؔ پینسل ‘‘کا ایک اور مقصد یہ تھا کہ غالبؔ کی صد سالہ تقریبات(1969ء)کے موقعے پر ادارے کی جانب سے شائع کی جانے والی کتابوں کی اشاعت اور دیگر تقریبات کی مَد میں ہونے والے اخراجات کے لیے کچھ رقم مہیّا کی جا سکے۔اگلے سال ادارے نے غالبؔ کی صد سالہ برسی کے سلسلے میں وسیع پیمانے پر ادبی سرگرمیوں کا انعقاد کیا اور اندرون و بیرونِ مُلک سے مشاہیر مدعو کیے گئے۔ مقالے پڑھوائے گئے اور کتابیں لکھوائی گئیں۔غالبؔ کی صدسالہ برسی کے ضمن میں ادبی تقریبات کا یہ سلسلہ سارا سال جاری رہا اور اِن کی گونج مُلک کے طول و عرض میں سُنی گئی۔ یوں مرزا ظفر الحسن اور’’ادارۂ یادگارِ غالبؔ‘‘لازم و ملزوم ہوگئے۔
ادارے کی طرف سے وقتاً فوقتاً لوگوں سے مالی تعاون فراہم کرنے کی درخواست بھی کی جاتی رہی، جس کا لوگوں نے دِل کھول کر جواب دیا۔1971ء میں ادارے کی طرف سے’’غالبؔ لائبریری‘‘ کا افتتاح کیا گیا۔ مرزا ظفر الحسن، غالبؔ لائبریری کے سلسلے میں ہر اُس شخص اور ادارے سے دستِ سوال دراز کرتے، جس سے کچھ کتابیں ملنے کی اُمید ہوتی۔ وہ لائبریری کے لیے کتابوں کی طلب کے سلسلے میں خود کو’’ بُک منگّا‘‘ قرار دیا کرتے۔
اب’’ ادارۂ یادگارِ غالبؔ‘‘ اور’’ غالبؔ لائبریری‘‘ دونوں نے محدود وسائل، تاہم لامحدود عزائم کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کیا۔ ادارے کے زیرِ اہتمام گاہے گاہے ادبی تقریبات کے انعقاد اور کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی دراز ہونے لگا۔ ادارے کے زیرِ اہتمام سہ ماہی جریدہ ’’ غالبؔ‘‘ پہلی بار جنوری 1975ء میں جاری کیا گیا۔ دھیرے دھیرے ادارے نے ہزاروں قیمتی کتابیں، رسائل و جرائد، نادر و نایاب تحریریں اور خطوط وغیرہ جمع کر لیے۔ اسی کے ساتھ پڑھنے لکھنے والوں اور ریسرچ اسکالرز کی سہولت کے لیے کتابوں کے کیٹلاگز تیار کیے گئے۔
مرزا ظفر الحسن ادارے کے انتظام و انصرام کے ساتھ تخلیقی سرگرمیوں سے بھی غافل نہیں رہے۔اُن کی پاکستان میں شائع ہونے والی پہلی کتاب’’ ذکرِ یار چلے‘‘تھی۔بعد میں سامنے آنے والی کتابوں میں’’ پِھر نظر میں پھول مہکے‘‘، ’’ دکن اُداس ہے یارو‘‘،’’ عُمرِ گزشتہ کی کتاب‘‘،’’ وہ قُربتیں سی وہ فاصلے سے‘‘، ’’ صلیبیں مِرے دریچے میں ‘‘،’’ متاعِ لوح و قلم‘‘، ’’ مہ و سالِ آشنائی‘‘،’’ قرضِ دوستاں‘‘،’’ خونِ دل کی کشید‘‘،’’یادِ یارِ مہرباں‘‘ اور’’ ہماری قومی ثقافت‘‘ شامل ہیں۔ 1978ء میں اُن کا ایک بار پھر بھارت جانا ہوا اور اُس دکن کو دیکھنے کا موقع ملا، جو زندگی کی آخری سانسوں تک اُن کے ساتھ رہا۔4ستمبر 1984ء کو اُن کے انتقال سے اُردو ادب ایک سچّے عاشقِ غالبؔ سے محروم ہو گئی۔
اقبالؔ نے کہا تھا؎ قہّاری و غفّاری و قدّوسی و جبروت… یہ چار عناصر ہوں، تو بنتا ہے مسلمان۔مرزا ظفر الحسن کی زندگی کے بھی چار ہی عناصر تھے۔دکن، مخدوم محی الدّین، فیضؔ اور ادارۂ یادگارِ غالب۔ؔ1973ء میں ادارے نے جریدہ’’ غالبؔ لائبریری‘‘ شائع کیا اور’’ ہم کہیں گے حالِ دل‘‘ کی ذیل میں ادارے کے کرتا دھرتا نے ادارے کو لاحق مالی پریشانیوں اور نامساعد حالات کا ذکر کرتے ہوئے بہت دل سوزی سے تحریر کیا تھا۔’’پیسا نہ غالبؔ کے پاس تھا اور نہ ادارۂ یادگارِ غالبؔ کے پاس ہے۔
غالبؔ بھی مقروض تھے اور ادارہ بھی مقروض ہے۔‘‘ ادارے کی صُورتِ حال موجودہ منتظمین کی اَن تھک کوششوں کے باوجود 2024ء میں بھی کچھ بہت اچھی نہیں ہے۔دُعا ہے کہ خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی’’ یادگارِ غالبؔ‘‘ کی طرح مرزا ظفر الحسن کا ’’ ادارۂ یادگارِ غالبؔ‘‘ بھی باقی رہے۔