• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کو گھسیٹ گھسیٹ کر تفرقہ بازی، لسانی منافرت میں دھکیلا گیا

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

قاضی عبدالحمید شیرزاد کا شمار بلوچستان کی ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے۔اُنھوں نے نام وَر علمائے کرام سے دینی تعلیم حاصل کی۔بعدازاں، شعبۂ قانون کی طرف آگئے اور متعدّد کام یابیاں سمیٹیں۔طویل عرصے تک بحیثیت قاضی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ سیاسی تحریکات میں سرگرم رہے اور اِس راہ میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، خصوصاً خواتین کی تعلیم کے ضمن میں ان کی کاوشیں بے مثال اور قابلِ تقلید ہیں۔ گزشتہ دنوں قاضی عبدالحمید شیرزاد کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کی تفصیلات جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہیں۔

س: سب سے پہلے اپنے خاندان سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرا تعلق بلوچستان کے معروف قبیلے، محمّد حسن سے ہے، جس سے تعلق رکھنے والے افراد ایران اور افغانستان میں بھی آباد ہیں۔ ہمارا بنیادی علاقہ بینچہ قلّات ہے۔ میرے دادا، قاضی میرک، دربارِ قلّات کے دفتری امور کے انچارج تھے اور اُن کا عُہدہ وزیر کے برابر تھا۔والیٔ ریاست، محمود خان سے تُرک خلافت کے معاملے پر اختلاف ہوا، تو دِل برداشتہ ہوکر دربار چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔

اُنھوں نے اونٹوں، گھوڑوں اور گدھوں پر سامان لادا اور قندھار کی طرف چل پڑے۔ کئی دنوں کے سفر کے بعد نوشکی پہنچے، تو وہاں کے سرحد دار، خان بہادر میر شکر خان نے اُن سے وہیں رہائش پذیر ہونے کی درخواست کی، یوں وہ کلی جمالدینی میں آباد ہوگئے۔میرے تایا، حاجی صالح محمّد نے وہاں’’ مدرسہ جمالیہ‘‘ کی بنیاد رکھی، جب کہ میرے والد، قاضی شیر محمّد زمین دار تھے۔

س: آپ کب پیدا ہوئے اور تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

ج: مَیں 1939ء میں کلی جمالدینی میں پیدا ہوا۔ خان بہادر شکر خان کے بڑے بیٹے، ملک عبدالصمد جمالدینی کی بیٹھک میں قائم اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔وہ بڑے باکمال شخص تھے، صبح چَھڑی لے کر بچّوں کو اسکول جانے کے لیے گھروں سے نکالتے اور پھر عصر کے وقت دوبارہ اُنھیں مدرسے جانے کے لیے پکارتے۔ ہائی اسکول نوشکی سے میٹرک کیا۔ بعدازاں، مولانا محمّد یعقوب شرودی کے مدرسے اور سابق سینیٹر حافظ حسین احمد کے والد، مولانا عرض محمّد کے مستونگ میں واقع مدرسے سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔

ان علماء کے علاوہ سابق وفاقی وزیر آیت اللہ درّانی کے والد، مولانا محمّد عُمر پڑنگ آبادی سے بھی، جو ہمارے سیاسی اتالیق تھے، تعلیم حاصل کی۔وہ غربت کا زمانہ تھا، بے شک ہمارے بزرگوں کا تعلق ریاست قلّات سے بطور وزیر رہا، مگر وہ اللہ والے تھے۔ موجودہ وزراء جیسا کرّوفر نہیں رکھتے تھے، عام لوگوں کی طرح لباس زیب تن کرتے اور اُن کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے تھے۔

بعدازاں، کراچی میں مولانا محمّد یوسف بنوری، قاسم العلوم ملتان میں مولانا مفتی محمود، پنڈی میں مولانا غلام اللہ خان اور لاہور میں مولانا دائود غزنوی میرے استاد رہے۔اس کے بعد دارالعلوم حقّانیہ، اکوڑہ خٹک گیا، جہاں مولانا سمیع الحق کے والد، مولانا عبدالحق سے فیض حاصل کیا۔ مولانا شمس الحق افغانی بھی، جو ریاستِ قلّات میں وزیر رہے، میرے اساتذہ میں شامل ہیں۔ کوئٹہ کے معروف عالمِ دین مولانا عبدالعزیز سے بھی رابطہ رہا۔مَیں نے پنجاب یونی ورسٹی سے عربی لٹریچر میں آنرز کی ڈگری حاصل کی، بلوچی زبان میں فاضل کا امتحان پاس کیا اور ایل ایل بی کی سند بھی حاصل کی۔

س: آپ نے ان علماء کو کیسا پایا؟

ج: بہت ہی شفیق اور انسان دوست۔ وہ عوام کے دُکھ درد میں شریک رہتے اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی ایک شناخت سیاسی اکابر کے طور پر بھی تھی۔ وَن یونٹ کے خلاف تحریک میں سب شامل تھے۔ مولانا عبدالعزیز، میر غوث بخش بزنجو اور دیگر اکابرین کے ساتھ گرفتار بھی ہوئے۔

س: ملازمت کہاں کہاں کی؟

ج: 1965ء میں تعمیرِ نو اسکول میں بحیثیت استاد بھرتی ہوا، اس کے بعد بورڈ آف ریونیو میں کلرک کی نوکری کی۔ 1973ء میں سندھ، بلوچستان ہائی کورٹ میں ملازمت کی درخواست دی اور قاضی مقرّر ہوا۔اچھی کارکردگی پر مجھے سِول جج سانگھڑ تعیّنات کیا گیا۔ وہاں سے بہاول پور بحیثیت قاضی تقرّری ہوئی، پھر خضدار، اوتھل اور خاران تبادلہ ہوتا رہا۔1981ء میں، مَیں نے ملازمت چھوڑ کر وکالت شروع کردی۔

س: آپ کا بحیثیت خطیب بھی ایک تعارف ہے؟

ج: مَیں جب بنوری ٹائون میں تعلیم حاصل کررہا تھا، تو مولانا محمّد یوسف بنوری، ریاستِ قلّات کی نسبت سے مجھے پکارتے ہوئے کہتے’’ قلّاتی آئو، خطبہ دو۔‘‘ میری خوش قسمتی ہے کہ مَیں اُن کے منبر ومحراب سے خطبہ دیتا رہا۔ اِسی طرح خضدار میں چمروک جامع مسجد میں 36سال تک خطیب رہا۔ 

اِس وقت بھی گھر کے قریب ایک مسجد میں امامت کرواتا ہوں۔ روزِ اوّل سے میری عادت ہے کہ صبح گھر سے نکلتے ہوئے مسجد جاتا ہوں اور مسلم شریف، بخاری شریف کی گردان کرتا ہوں۔

س: سُنا ہے، آپ نے خضدار میں ایک لاء کالج بھی قائم کیا، اُس کی کیا تفصیلات ہیں؟

ج: خضدار کی ایک معروف شخصیت، جمعہ خان رئیسانی نے، جن کی اولادِ نرینہ نہیں تھی، مجھ سے مشورہ کیا کہ وہ شہر میں کوئی یادگار قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اِس پر مَیں نے کہا کہ لاء کالج بنوا دیں، زندگی بَھر آپ کا نام روشن رہے گا۔ اُنھیں یہ مشورہ پسند آیا، اِس طرح ہم نے لاء کالج کی بنیاد رکھی۔نیز، مَیں نے خضدار میں گھر گھر جا کر والدین کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آمادہ کیا۔ میری بہت مخالفت ہوئی، لیکن مَیں اپنا فرض نبھاتا رہا۔ 

آج مجھے اور اہلِ علاقہ کو فخر ہے کہ یہاں کی سو فی صد لیڈی ڈاکٹرز اور خواتین اساتذہ کا تعلق اِنہی علاقوں سے ہے۔ جن جن اضلاع تک میری رسائی رہی، مَیں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کیا اور کام یابی حاصل کی۔ ابتدائی دنوں میں، مَیں لاء کالج، خضدار میں روزانہ چھے چھے پیریڈ لگا تار لیتا رہا۔ آج بھی گورننگ باڈی کا رُکن ہوں۔ مَیں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج کا 23سال تک وائس پرنسپل بھی رہا۔

س: کہاجاتا ہے کہ بلوچستان میں علماء جدید تعلیم کے مخالف ہیں، اِس ضمن میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: ہر گز نہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت پورے بلوچستان میں صرف ایک ہائی اسکول مستونگ میں ہوا کرتا تھا۔ اِس وسیع صوبے میں آپ جدید علمی ضروریات کیسے پوری کرسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگ ہندوستان سے پڑھ کر آئے تھے۔ میر غوث بخش بزنجو علی گڑھ سے پڑھ کر آئے، مولانا عُمر پڑنگ آبادی، مولوی عرض محمّد، غلام حیدر ناصر، مولانا بدر الدّین مندوخیل، نور محمّد زامرانی اور بہت سے علماء وہیں سے پڑھ کر آئے۔ 

اب بھی جہاں غربت ہے اور جو لوگ تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر پاتے، اُن کے بچّوں کی تعلیم کا واحد ذریعہ دینی مدارس ہی ہیں۔اِن کے نصاب سیاسی معاملات سے بالکل مختلف ہیں۔ انگریز، سلطنتِ عثمانیہ سے لے کر اب تک ہمیں منقسم کرنے کے لیے جو کچھ کرتے آئے ہیں، اُس کا سلسلہ ابھی رُکا نہیں اور اِس افراتفری سے ہمارے جدید تعلیمی ادارے بھی نہیں بچ سکے۔

نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے.... عکّاسی: رابرٹ جیمس
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے.... عکّاسی: رابرٹ جیمس

س: اِن سازشوں سے کیسے بچاجاسکتا ہے؟

ج: اپنی مثبت روایات کے ساتھ جدید علوم اپنائے جائیں۔ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے، دوسروں کے آلۂ کار بننے کی بجائے سچّائی کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دی جائے۔ سماجی و روحانی تسکین کے لیے بدعنوانیوں کا راستہ ترک کرنا ہوگا۔ 

حکومتوں کا کام انصاف کی فراہمی اور عوامی مسائل حل کرنا ہے، ہم جس روز تمام معاملات میں سفارش اور اقربا پروری سے تائب ہوجائیں گے، اُسی دن سے ہمارا شمار بھی ترقّی یافتہ اور انسانی اقدار کے ساتھ بسنے والے زندہ انسانوں میں ہونے لگے گا۔

س: کہیں حالات کی خرابی کی اصل وجہ مذہبی انتہا پسندی اور قوم پرستی تو نہیں؟

ج: نہیں، ایسا نہیں ہے۔ دونوں کے خلاف پراپیگنڈا ایک سیاسی بیانیہ ہے۔ سیّدنا حضرت عُمرؓ نے اپنے گورنرز کو فرمان جاری کیا کہ تم نے لوگوں کو اپنا غلام کیوں بنالیا ہے، کیا تم بھول گئے کہ اُنہیں اُن کی مائوں نے آزاد جنا ہے۔حُکم رانوں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی عزّتِ نفس مجروح کرنا چھوڑ دیں، عوام کے حقوق کا تحفّظ کریں، قانون کی حُکم رانی یقینی بنائیں، سزا و جزا کا حقیقی راستہ اپنائیں۔ اِسی طور ہر قسم کی انتہا پسندی ختم ہوسکتی ہے۔

س: آپ جرگہ ممبر بھی ہیں، کیا عدالتوں کے ہوتے ہوئے سرداروں کے ساتھ بیٹھ کر فیصلے کرنا درست ہے؟

ج: یہ انصاف پر مبنی ایک پرانا نظام ہے۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات بیٹھکوں میں بہترین انداز میں حل ہوتے ہیں۔ مَیں بحیثیت قاضی اور جرگہ ممبر، سندھ، پنجاب میں بلوچوں کے تنازعات کا فیصلہ کرتا آرہا ہوں۔ زمانۂ قدیم سے سبّی میلے میں اس قسم کے جرگے ہوا کرتے تھے، ہمارے کیے گئے فیصلوں کے بعد دشمنیاں ختم ہو جاتی ہیں۔دراصل، عدالتوں سے انصاف کا حصول ایک منہگا اور طویل عمل ہے۔ لوگ ایک تو وکلاء کی فیس برداشت نہیں کرسکتے، دوسری طرف اُنھیں ناانصافی کا بھی ڈر ہوتا ہے۔ 

ناانصافی ہی کی وجہ سے قاتل طویل قانونی راہ داریوں سے نکلنے کے بعد بھی قتل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے قبائلی فیصلے مزید قتل وغارت گری کی اجازت نہیں دیتے۔ہمارے مُلک کے فوجداری قوانین، حقیقتاً ضابطۂ فوجداری ہند ہے، جسے ہم نے محض نام بدل کر اپنایا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں زمینوں کے مقدمات کے لیے دستور العمل دیوانی قلّات1951ء قائم ہے۔ اب بھی شریعت اور رسم و رواج کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ دستور العمل قلّات کو سابق چیف جسٹس، امیر الملک مینگل ترتیب دے چُکے ہیں۔

س: آپ نے جیل بھی کاٹی، کہاں کہاں قید رہے؟

ج: کوئٹہ، ملتان اور مچھ جیل میں رہا۔ سردار عطاء اللہ مینگل، قادر بخش نظامانی، کامریڈ جام ساقی اور میرے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا، حالاں کہ ہم وَن یونٹ اور عطاء اللہ مینگل کی حکومت کے خاتمے کے خلاف آواز اُٹھا رہے تھے۔

س: علم و ادب سے بھی آپ کی وابستگی ہے؟

ج: جی، مَیں بلوچی، براہوی اور فارسی زبانوں میں شاعری کرتا ہوں۔ بحیثیت قاضی اپنی عدالت کے اشتہارات بلوچستان سے نکلنے والے رسائل کو دے کر اُن کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ نام وَر صحافی آزاد جمالدینی، گل صدا ہیروی، ملک رمضان اور نور محمّد پروانہ کے اخبارات و رسائل میں لکھتا بھی رہا، جب کہ آزاد جمالدینی کے ساتھ تو باقاعدہ کام بھی کیا۔ 

ہندو تاجر دیوان جیٹھ، آنند ہندو برادری کی نمائندگی کرتے تھے، ہندو ہمارے کلچر کا ہمیشہ حصّہ رہے ہیں۔مَیں اپنا براہوی، بلوچی کلام مرتّب کررہا ہوں۔ اپنے مضامین بھی یک جا کرنے کا ارادہ ہے۔نیز، جن شخصیات کے قریب رہا، اُن کی زندگی اور جدوجہد سے متعلق بھی لکھنے کا ارادہ ہے، کیوں کہ بعض افراد اُن سے متعلق لکھتے ہوئے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں، جس سے معاشرے میں نہ صرف مغالطے پیدا ہوتے ہیں بلکہ دُوریاں اور تعصّبات بھی جنم لیتے ہیں اور شاید موجودہ حالات میں کشیدگی اور کش مکش کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

س: آپ کن شخصیات سے متاثر ہوئے؟

ج: جمال الدّین افغانی، سوڈان کے مہدی سوڈانی، مصر کے محمّد عبدو، امام خمینی اور عبید اللہ سندھی نے بہت متاثر کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی تحریکِ آزادی کے ایک اہم رہنما اور انتہائی ذہین شخص تھے۔ اُنہوں نے روس کا دورہ کیا، تو ایک ہفتے میں روسی زبان سیکھ لی۔

س: آپ کے کتنے بچّے ہیں اور کیا کیا کرتے ہیں؟

ج: میرا بڑا بیٹا، قاضی جمیل الرحمٰن ایڈووکیٹ، کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے میں شہید ہوگیا تھا۔ اس دھماکے میں ایک سو کے قریب وکلاء شہید ہوئے تھے۔دوسرا بیٹا، نجیب الرحمٰن وکالت کر رہا ہے، اُس سے چھوٹا بیٹا اور بیٹی ایل ایل بی کے طالبِ علم ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کو زبردستی گھسیٹ گھسیٹ کر تفرقہ بازی اور لسانی منافرت میں دھکیلا گیا ہے، حالاں کہ پورا مُلک جانتا ہے، مذہبی منافرت کی آماج گاہ کہاں ہے۔ 

بلوچستان میں ہزاروں بے گناہ افراد کا قتل سازش کے سِوا کچھ نہیں۔ مذموم مقاصد کے لیے مُلک سے نظریاتی سیاست کا صفایا کردیا گیا۔ عوام پر یہ لڑائی مسلّط کی گئی ہے۔ ہم تو بار بار کہتے ہیں، پاکستان ہمارا مُلک ہے اور بلوچستان ہمارا وطن ہے، بتائیں اِس بات میں بُرائی کیا ہے۔ اگر اِس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی، تو آج پاکستان ویلفیئر اور ترقّی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوتا۔ ہم خُود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔

س: اب تو سرداروں اور نوابوں پر بھی سوالات اُٹھ رہے ہیں؟

ج: مَیں بتا چُکا ہوں کہ منفی عناصر نے کہاں کہاں ضرب نہیں لگائی۔ مخلص خاندانی نواب اور سردار اب بھی جدید تقاضوں کے مطابق اپنے لوگوں کی سربراہی کر رہے ہیں، اپنے علاقوں میں ترقیاتی کاموں میں دل چسپی رکھتے ہیں، عوام کی تعلیم وتربیت میں پیش پیش رہتے ہیں، یقیناً اب یہ نظام ماضی کی طرح مؤثر نہیں رہا، پھر بھی حکومتی نظام کے کارآمد نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے معتبرین ہی سے رہنمائی اور امداد حاصل کرتے ہیں۔

س: آپ کتنی زبانیں بول لیتے ہیں؟

ج: مَیں آٹھ زبانیں اردو، عربی، فارسی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، براہوی بولتا ہوں۔ ایک مرتبہ کوئی تحریر پڑھ لوں یا کوئی شعر سُن لوں، تو وہ مجھے یاد رہتا ہے۔

س: کن کن ممالک کا دورہ کرچکے ہیں؟

ج: مِصر کی جامعۃ الازہر کا مطالعاتی دورہ کرچُکا ہوں۔ افغانستان کی متعدّد یونی ورسٹیز کے سیمینارز میں جمال الدّین افغانی پر بارہا مقالے پڑھے ہیں۔ نیز، عراق، ایران اور بھارت بھی جا چُکا ہوں۔

س: ہمارے ہاں کارو کاری کے قصّے بھی عام ہیں، آپ کیا کیا کہتے ہیں؟

ج: ایسے 98فی صد واقعات غلط ہیں۔ دشمنیاں پیدا کرنے، زور آوروں کو روکنے، جائیداد کے حصول اور رشتوں میں ناکامی پر سیاہ کاری یا کاروکاری کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں یہ کلچر سندھ اور صوبائی سرحدی پٹّی پر آباد قبائل لے کر آئے ۔ اِس جہالت کو شک کا بھی نام دیا جاتا ہے۔ مَیں ایک واقعہ اکثر سُناتا ہوں۔ 

نصیر آباد میں ایک شخص کی بیوی فوت ہوگئی، وہ ایک روز اُس کی قبر کی جانب گیا، تو دیکھا کہ ایک شخص وہاں فاتحہ پڑھ رہا تھا، اُس نے اُسے قتل کردیا اور اِس قتل کا یہ جواز پیش کیا کہ’’ اُس شخص کے تعلقات میری بیوی سے ہوں گے، تب ہی وہ اُس کی قبر پر فاتحہ پڑھ رہا تھا‘‘، حالاں کہ مقتول کے کسی قریبی عزیز کی وہاں قبر تھی، جس پر وہ فاتحہ خوانی کر رہا تھا۔

س: قارئین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: مَیں عُمر کے اُس حصّے میں ہوں، جس میں جھوٹ نہیں بولا جاتا، اِس لیے آج مَیں نے جو کچھ کہا، سب سچ کہا۔ مزید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حُکم ران تنگ نظری چھوڑیں، عوام کے ساتھ انسانوں جیسا رویّہ اختیار کریں۔ ہر شخص اپنی زندگی اصول وقواعد کے مطابق گزارے، نوجوان جدید دنیا سے سبق حاصل کرتے ہوئے کتاب، قلم سے دوستی، بے راہ روی سے گریز کریں۔ افواہ ساز فیکٹریز بند ہونی چاہئیں، علم سے خوف کھانے والوں کو علم اور علماء کا راستہ روکنے کی بجائے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ 

ہماری بقا، احترامِ آدمیت میں ہے۔ خطّے میں پائی جانے والی بے چینی کو عالمی سیاست کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ مَیں نے اِس خطّے میں مولانا مودودیؒ سے بڑا عالم نہیں پایا، امام خمینی کو البتہ علمی طور پر خود کو منوانے کا موقع ملا۔ مَیں نے امام خمینی کے انتقال پر ایک رُباعی کہی تھی، جسے مولانا عبدالحق بلوچ ایران لے گئے، وہ رباعی آج بھی قُم میں میری تصویر کے ساتھ آویزاں ہے۔ 

ہم جس قدر زیادہ دوست بنائیں گے، ہمارے اختلافات کم ہوتے جائیں گے، ورنہ مغالطے اور سازشیں اِسی طرح ہماری بے چینیوں میں اضافے کا باعث بنتی رہیں گے۔ اس موقعے پر بلوچستان کی بھی بات کروں گا۔ خدارا! ماضی کی غلطیاں نہ دُہرائی جائیں، چوں کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، تو اِسے مل بیٹھ کر حل کیا جائے، دنیا میں بڑے سے بڑے مسئلے کا حل ممکن ہے، بشرطیکہ نیک نیّتی سے آگے بڑھا جائے اور اِس ضمن میں مخلص، دیانت دار اور غیر جانب دار شخصیات کی مدد حاصل کی جائے۔

سنڈے میگزین سے مزید